0
Sunday 2 Mar 2014 18:15
زائر ثامن الآئمہ امام علی بن موسی الرضا (ع) کے تاثرات

کوئٹہ سے تفتان تک

کوئٹہ سے تفتان تک
رپورٹ: این ایچ نقوی

گذشتہ ماہ ثامن الآئمہ امام علی بن موسی الرضا (ع) کے شہر مشہد المقدس کا سفر کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ سابق ادوار کی طرح اس دور پرفتن میں بھی معصومین علیہ السلام کی زیارات مقدسہ پر جانے والوں کو خون کے نذرانے پیش کرنے پڑ رہے ہیں۔ ان تمام خطرات کے پیش نظر ہونے کے باوجود ہم کربلائے پاکستان اور شہدائے راہ امام حسین علیہ السلام کی سرزمین کوئٹہ پہنچ گئے۔ کوئٹہ کے سریاب روڈ پر قدم رکھ کر یوں لگا جیسے شیعیان حیدر کرار (ع) کی سب سے بڑی قتل گاہ قدموں تلے آگئی ہو۔ پاکستان میں ہزارہ کمیونٹی کی سب سے بڑی آبادی کوئٹہ شہر میں موجود ہونے کے باوجود ہزارہ قبیلے کے افراد خال خال ہی نظر آئے۔ علمدار (ع) روڈ جانے کے لئے رکشہ پر سوار ہوئے، دوران سفر رکشہ ڈرائیور نے بتایا کہ وہ علمدار روڈ نہیں پہنچ پائے گا، چونکہ انتظامیہ نے سکیورٹی کے پیش نظر چوکیاں قائم کر رکھی ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے عفریت نے ہمیں ہمارے ہی شہر میں بیگانہ کر دیا ہے اور علمدار روڈ جانے سے روک دیا گیا ہے۔ 
بہرحال علمدار روڈ سے کچھ فاصلے پر ہمیں ایف سی کی چیک پوسٹ پر روک دیا گیا،  شناخت کروانے پر داخلہ دیا گیا، اب ہم ہزارہ برادری کے نشیمن علمدار روڈ پر تھے، یوں لگا جیسے علمدار روڈ کو ہزارہ برادری کا قید خانہ بنا دیا گیا ہو۔  سننے میں آیا کہ ہزارہ برادری کے سربراہان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں صحت اور تعلیم کی تمام سہولیات علمدار روڈ پر ہی مہیا کی جائیں، تاکہ ہم سریاب روڈ اور دوسرے علاقوں میں جانے کا خطرہ مول نہ لیں۔  یہاں تک کہ ایک یونیورسٹی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔  توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ کیا آئندہ سالوں میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ہزارہ روڈ تمام سہولیات سے مزین ہوسکے گا۔  کیا علمدار روڈ میں ہزارہ برادری کو محصور کرنا مسئلے کا پائیدار حل ہے۔  باالفاظ دیگر دہشت گردوں کو لگام دینے کی بجائے معصوم انسانوں کو قید کر دیا گیا ہے۔ 

اپنے ہزارہ بھائیوں کی احوال پرسی کے بعد ہم تفتان کے لئے عازم سفر ہوئے۔ بس انتظامیہ کی جانب سے تنبیہ کی گئی کہ زیارات پر جانے والے راستہ میں کسی کو اپنے اس سفر کے بارے میں نہ بتائیں۔ ایف سی کی ہر چیک پوسٹ پر حسب معمول بس کو روکا جاتا اور سرسری سی چیکنگ کی جاتی، اہلکار سوال کرتے کہ گاڑی میں کوئی ہزارہ تو موجود نہیں یا کوئی شخص زیارات پر تو نہیں جا رہا۔ تاہم سفر جاری رہا، سخت ترین سردی اور منفی درجہ حرارت کے باعث پرخطر راستوں پر گاڑی نسبتاً کم رفتار سے چلتی رہی۔ جہاں گاڑی رکتی لوگ نیچے اتر کر کھانے پینے کا سامان کافی مہنگے داموں خریدتے۔ کوئٹہ سے تفتان جانے والی بلوچستان کی اس شاہراہ سے بلوچستان کی کثیر آبادی کا روزگار وابستہ ہے۔ 
زائرین کی آمد و رفت نے اس علاقہ میں ترقی کا نیا باب شروع کیا تھا جسے دہشت گردوں اور ملکی ترقی اور استحکام کے دشمن عناصر نے بند کرنے کی ناکام کوشش کی۔  زائرین کی بسوں کے پڑخچے اڑا کر عوام میں خوف و ہراس پھیلانا چاہا،  دشمن عناصر نے تہیہ کیا کہ دو دوست اور برادر ممالک ایران و پاکستان کے درمیان ہونے والی تجارت اور نقل و حمل کو ہمیشہ کے لئے بند کر دیا جائے۔ تاہم اس سفر کے دوران ہم نے مشاہدہ کیا کہ دشمن مکمل طور پر ناکام رہا،  ہزاروں زائرین مستونگ اور درینگڑ واقعات کے باوجود کوئٹہ تفتان شاہراہ کو استعمال کرتے ہوئے زیارات مقدسہ پر مسلسل جا رہے ہیں۔  گذشتہ ہفتہ کئی بسوں پر مشتمل قافلہ ایران پہنچا اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔  زائر ثامن آئمہ (ع) کے تاثرات کو سلسلہ وار پیش کیا جاتا رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 357163
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش