0
Friday 7 Mar 2014 12:03

ناراض بلوچ قیادت کو منانے کیلئے کوششوں کا آغاز کر دیا ہے، میر حاصل خان بزنجو

ناراض بلوچ قیادت کو منانے کیلئے کوششوں کا آغاز کر دیا ہے، میر حاصل خان بزنجو

اسلام ٹائمز۔ نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر میر حاصل خان بزنجو نے کہا ہے کہ طالبان بھی ملک کے آئین کو نہیں مانتے لیکن اس کے باوجود بات چیت ہو رہی ہے۔ بلوچ قوتوں کو بھی ہم یہی کہتے ہیں کہ کسی فیصلے کا ہونا ضروری نہیں لیکن مذاکرات ہونے چاہیئیں۔ ناراض قوتوں سے مذاکرات سے متعلق جو مینڈیٹ دیا گیا ہے، اس حوالے سے کوششوں کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ تاہم لیڈر شپ تک رسائی کیلئے دو سے ڈھائی ماہ کا وقت مزید درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ ناراض بلوچ قیادت کو منانے سے متعلق پیشرفت ہوئی ہے، تو شاید درست نہ ہو لیکن ہمیں جو مینڈیٹ ملا اس کے بعد ہم نے کوششوں کا آغاز کردیا ہے، تاہم قیادت تک رسائی اور باضابطہ مذاکرات کیلئے دو سے ڈھائی ماہ کا وقت درکار ہوگا کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ مذاکرات کا عمل شروع ہوتے ہی وہ سبوتاژ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوا تو مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ ان خدشات کے پیش نظر ہم مکمل تیاری کے بعد مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ ہمیں امید ہے کہ دو سے ڈھائی ماہ کے دوران ہمیں لیڈر شپ تک رسائی مل جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی برطانیہ میں موجودگی کو کسی حد تک انہی کوششوں کا تسلسل قرار دیا جا سکتا ہے۔ برطانیہ مسقط، دبئی میں ہمارے اور ان کے مشترکہ دوست ہیں۔ ہم ان کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔ ہم پرامید ہیں کہ مثبت نتائج برآمد ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ یہاں اس سے قبل بھی تین چار بغاوتیں ہوئی ہیں۔ ان سب کا مذاکرات کی میز پر ہی فیصلہ ہوا ہے۔ دوسری جانب سے یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے کہ آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔ تو ہم کہتے ہیں کہ آئین کے دائرہ میں آئیں طالبان بھی آئین کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ مگر بات چیت کا عمل ان کیساتھ بھی جاری ہے۔ بات چیت میں فیصلہ ہونا ضروری نہیں۔ تاہم ہم سب سیاسی لوگ ہیں ہم سب کو مذاکرات کے دائرہ کار میں آنا ہوگا۔ اگر بات چیت مثبت سمت میں بڑھتی ہے تو یقیناً نتائج برآمد ہونگے۔

انہوں نے کہا کہ بعض چیزوں میں سیاسی و عسکری قیادت یکجا ہے مگر بعض چیزوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے مسئلہ پر سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتیں الگ راستے اختیار کئے ہوئے ہیں تاہم یہاں کچھ ایسے مطالبات تھے جنہیں تسلیم کیا گیا ہے۔ جس میں مسخ شدہ لاشوں کے ملنے میں کمی واضح مثال ہے لیکن لاپتہ افراد کے مسئلہ پر وفاق، اسٹیبلشمنٹ اور ہم ایک پچ پر نہیں۔ اس پر بھی وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس مسئلہ کے حل کے حوالے سے بھی ہمارے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں گے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر وفاقی سطح پر اس معاملے میں ہمیں کوئی مدد ملی تو ہم مذاکرات شروع کرنے میں زیادہ پراعتماد ہونگے اور باآسانی مذاکرات کا عمل شروع ہو سکے گا۔

آواران، کیچ و ڈیرہ بگٹی سمیت مختلف علاقوں میں آپریشن سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی آ کر سکیورٹی فورسز پر حملہ کرتا ہے تو یہ سکیورٹی فورسز کیلئے ممکن نہیں کہ وہ اجازت مانگیں کہ ان حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کی جائے یا نہیں۔ فورسز پر حملہ ہوگا تو وہ بھی اپنی جوابی کارروائی کریں گی، لیکن یہ کوئی آپریشن نہیں ہے۔ حکومت اور ایف سی کے پاس آپریشن کا کوئی منصوبہ نہیں۔ یہ سب فورسز کی جوابی کارروائیاں ہیں۔ ایف سی، پولیس اور لیویز پر جب کوئی حملہ کرے گا تو فورسز اپنی جوابی کارروائی کریں گی۔ جہاں تک بلوچستان میں گھر و املاک کو جلانے کی بات ہے۔ تو یہ فاٹا میں شاید ہوا ہو لیکن بلوچستان میں ایسی کوئی روایت نہیں۔ میرے علم میں نہیں۔ اگر کہیں ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو اس کے بارے میں چھان بین کی جائے گی۔

خبر کا کوڈ : 358954
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش