0
Sunday 27 Apr 2014 12:34

حماس، الفتح کی دوستی سے امریکہ، اسرائیل پریشان

حماس، الفتح کی دوستی سے امریکہ، اسرائیل پریشان
رپورٹ: ایس اے زیدی

فلسطینی جماعتوں حماس اور الفتح کے مابین مفاہمت کے بعد امریکہ اور اسرائیل کی پریشانیوں میں اضافہ ہو گیا ہے، جس کا اظہار دونوں حکومتوں نے برملا طور پر کردیا ہے۔ تاہم دونوں فلسطینی دھڑوں کے مابین اس مفاہمت اور دوستی کو فلسطینی عوام اور خطہ کیلئے نیک شگون قرار دیا جا رہا ہے۔ واضح ہے کہ ان دونوں جماعتوں کے مابین عرصہ دراز سے کشیدگی چلی آ رہی تھی، جس کا تمام تر فائدہ صہیونی اور امریکی حکومتوں اور نقصان فلسطینی عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا تھا۔ امریکا کا کہنا ہے کہ اس معاہدہ پر اس نے اپنی تشویش سے فریقین کو آگاہ کردیا ہے، مفاہمتی معاہدہ ہماری امن کوششوں کو غیر معمولی طور پر نقصان پہنچا سکتا ہے۔ جبکہ اسرائیلی وزیراعظم نے کہا ہے کہ الفتح امن کیلئے حماس اور اسرائیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے۔

حماس اور الفتح دونوں نے مشترکہ عبوری حکومت کے قیام اور مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ غزہ میں نئے انتخابات پر بھی اتفاق کر لیا ہے۔ دونوں فلسطینی جماعتوں نے باہم اتفاق کیا ہے کہ قومی حکومت الفتح کی سرپرستی میں قائم ہو گی اور اس کی تشکیل پانچ ہفتوں کے دوران مکمل کر لی جائے گی۔ جبکہ نئے انتخابات چھ ماہ میں کرانے کیلیے اتفاق کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا حماس کو ایک دہشتگرد جماعت قرار دے چکا ہے۔ تاہم حماس اب اپنے عوامی مینڈیٹ اور الفتح کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بعد صرف غزہ میں نہیں بلکہ پورے مغربی کنارے میں بھی شریک اقتدار ہو گی۔ حماس اپنے موقف کی وجہ سے امریکی کوششوں سے شروع ہونے والے امن مذاکرات کا بھی کبھی حصہ نہیں رہی ہے۔

امریکی ترجمان جین پاسکی نے کہا ہے کہ ’’یہ پیش رفت امریکا کیلیے مشکل پیدا کرنے والی ہے، اس لیے یقینی طور پر ہم مفاہمت کے اس اعلان سے مایوس ہوئے ہیں‘‘۔ دونوں اہم ترین فلسطینی جماعتوں کے ہاں باہمی تعاون اور قربت کے حوالے سے یہ پیش رفت ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب امن مذاکرات کی ڈیڈ لائن قریب تر ہے۔ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ اگر اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی حتمی معاہدے کیلیے ایک فریم ورک پر اتفاق نہیں کرتیں تو امن مذاکرات کا انجام کیا ہوگا۔؟ جین پاسکی کا کہنا ہے کہ ’’یہ مفاہمتی معاہدہ ہماری امن کوششوں کو غیر معمولی طور پر نقصان پہنچا سکتا ہے، نہ صرف امریکی کوششوں کو بلکہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان کوششوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے‘‘۔

واضح رہے کہ اسرائیلی حکومت الفتح اور حماس کے درمیان طے پانے والے اس معاہدے پر پہلے ہی اپنا ردعمل سامنے لا چکی ہے۔ اسرائیل نے اس معاہدے کے بعد فلسطینی حکام کے درمیان ہونے والے دوطرفہ مذاکراتی سیشن کو منسوخ کردیا ہے۔ خیال رہے کہ دونوں کے درمیان یہ مذاکرات بدھ کے روز طے ہونا تھے۔ جین پاسکی نے اس سوال پر ’’کیا اب سارے فلسطینی مل کر امن مذاکرات کے حوالے سے بہتر انداز میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔؟’’ کہا کہ ’’یہ بہت خوش گمانی والی بات ہے۔‘‘ ترجمان نے مزید کہا کہ ’’امریکا نے فلسطینیوں کے متحد ہونے والے معاہدے پر فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل دونوں کو اپنی تشویش سے آگاہ کر دیا ہے‘‘۔

دوسری جانب صہیونی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو نے اس مفاہمت پر خوب شور مچایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر فلسطین کے صدر محمود عباس امن چاہتے ہیں تو ان کی تنظیم الفتح کو حماس سے معاہدہ توڑنا ہوگا۔ نیتن ياہو نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ محمود عباس یا تو اسرائیل کے ساتھ امن قائم رکھ سکتے ہیں یا حماس سے معاہدہ کرسکتے ہیں، دونوں نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں سے تبھی امن مذاکرات کا آغاز کرے گا جب وہ دہشت گردی کا راستہ چھوڑ دیں۔ جب تک میں اسرائیل کا وزیراعظم ہوں میں کبھی ایسی فلسطینی حکومت سے بات چیت نہیں کروں گا، جسے حماس کے دہشت گردوں کی حمایت ہو، جو ہمیں برباد کرنا چاہتے ہیں۔ صیہونی وزیراعظم کا کہنا تھا محمود عباس نے اسرائیل کے ساتھ امن کے معاملات کرنے کے بجائے حماس کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ ایک ایسی تنطیم کے ساتھ جو اسرائیل کو تباہ کرنے کے لیے مصروف عمل ہے۔
خبر کا کوڈ : 376369
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش