0
Friday 2 May 2014 15:51

اسلام آباد کے مدارس طالبان کیلئے سودا بازی کے مرکز بن گئے

اسلام آباد کے مدارس طالبان کیلئے سودا بازی کے مرکز بن گئے
رپورٹ: این اے بلوچ

فوجی اور سول انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کے اندر کام کرنے والے مذہبی مدرسے مبینہ طور پر عسکریت پسندوں اور ان کے شکار افراد کے درمیان سودے بازی کے انتظامات کے ذریعے بھتے اور تاوان کی رقم کی وصولی کے ساتھ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی مدد کر رہے ہیں۔ نامور اخبار ڈان نے ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہ مدارس ٹی ٹی پی کے لیے رقوم کی پہلے سے مقررہ ایسے مقامات پر پہنچا کر جہاں ٹی ٹی پی کے کارندوں کی رسائی آسان ہو، کوریئر کی خدمات بھی فراہم کر رہے ہیں۔ انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ بھتہ خوری اور تاوان کے مطالبہ کے کیسز کے لیے کی جانے والی فون کالوں کا تجزیہ کرنے سے یہ انکشاف ہوا کہ ان میں سے زیادہ تر شمالی وزیرستان میں میرانشاہ سے کی گئی تھیں۔ حکام نے ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل ڈاکٹر محمود الحسن کے کیس کا حوالہ دیا، جنہیں 2013ء میں ایک لطیف نامی شخص کی فون کال موصول ہوئی تھی، جس نے اپنا تعارف حکیم اللہ محسود کا نائب بتایا تھا اور پانچ کروڑ روپے بھتے کی رقم کا مطالبہ کیا تھا۔ بھتے کے مطالبے کے بعد اسلام آباد میں قائم ایک مدرسے کے منتظم نے اس سلسلے میں ثالث کا کردار ادا کیا اور یہ معاملہ ایک کروڑ روپے پر طے ہوا۔ اس کے علاوہ اسی شخص نے دو افراد کو لیفٹننٹ جنرل محمودالحسن کے پاس رقم کی وصولی کے لیے بھیجا تھا۔

ان حکام کا کہنا تھا کہ ’’اس کے بعد تقریباً ایک مہینہ پہلے کی بات ہے کہ اشفاق نامی ایک شخص نے لیفٹننٹ جنرل ڈاکٹر
محمودالحسن کو دوبارہ فون کیا اور دس دن کے اندر اندر مزید پانچ کروڑ کا مطالبہ کیا۔‘‘ انہوں نے مزید بتایا کہ اس کال کے بعد جنرل محمودالحسن کو ایک اور فون کال موصول ہوئی، فون کرنے والے نے خود کو طالبان کا لیڈر بتایا اور ان سے کہا کہ وہ بہتر گھنٹوں کے اندر اندر انہیں رقم پہنچانے کا یقینی بندوبست کریں۔ حکام نے کہا کہ ’’اسی شخص نے جس نے پہلی مرتبہ بھتے کی رقم میں کمی کروائی تھی، اسی کو اس مرتبہ بھی بات چیت میں استعمال کیا گیا۔‘‘ انٹیلی جنس حکام نے بتایا کہ اس کے علاوہ فیض آباد کے دو صنعتکاروں اور ایک سیاسی شخصیت کو بھی ایک سال پہلے بھتے کے لیے فون کالیں موصول ہوئی تھیں۔

انٹیلی جنس حکام نے مزید کہا کہ ان لوگوں نے رقم کی ادائیگی سے انکار کیا اور اس کے علاوہ اس بات کی بھی تردید کی کہ انہوں نے اس سلسلے میں کسی کے ساتھ بات چیت کے لیے رابطہ کیا تھا۔ اس کے جوابی اقدام کے تحت میرانشاہ میں موجود ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے قاری ثناءاللہ عرف قاری منصور کے ساتھ منسلک شرپسند انہیں نشانہ بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ حکام نے کہا کہ اس سے ٹی ٹی پی کے لیے بھتے کی وصولی میں مذہبی مدرسوں کے مستحکم اور عملی کردار کو تقویت پہنچتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’اسی لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ انٹیلی جنس کے ساتھ ساتھ متاثرین اور مذہبی مدرسوں کے اردگرد نگرانی میں اضافہ کیا جائے، جس سے ان لوگوں کے سراغ اور گرفتاری میں مدد ملے گی، جو بھتہ خوروں کے پس پردہ کام کر رہے ہیں۔‘‘ مزید
یہ کہ جب بھی وہ متاثرین سے بھتے کی رقم کو فائنل کرنے کے لیے ان سے رابطہ کریں گے، اس کی بھرپور نگرانی کی جائے گی۔

حکام نے مزید کہا کہ ٹی ٹی پی کے گروپس بھتے اور اغوا برائے تاوان کے ذریعے اپنے فنڈز جمع کرنے میں ملوث ہیں، اس کے علاوہ وہ مدرسوں میں قیام کرتے ہیں اور ان کاموں میں یہاں سے مدد حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انٹیلی جنس رپورٹوں سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ بھتہ اور تاوان کی رقم ٹی ٹی پی کے گروپس کے اراکین کے ذریعے دیگر مقامات پر منتقل کیے جانے سے قبل مدرسوں میں ہی رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ تاوان کے لیے اغوا کیے جانے والے کچھ متاثرین کو قبائلی علاقوں میں لے جانے سے پہلے یہیں پر رکھا گیا تھا۔ اس سے پہلے جڑواں شہروں میں دہشت گردی کے کاموں میں مدد دینے کے سلسلے میں مذہبی مدرسوں کے کردار کا پچھلے مہینے انکشاف ہوا تھا۔

اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس کی اسپیشل برانچز کی جانب سے مشترکہ طور پر تیار کی گئی ایک رپورٹ سے ظاہر ہوا تھا کہ ٹی ٹی پی کو مذہبی مدرسوں اور دیوبندی مسلک کی مساجد کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ میں راولپنڈی میں قائم 20 ایسے مدرسوں کی نشاندہی کی گئی، جنہیں طالبان کی جانب سے شہر میں دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یہ مدرسے کنٹونمنٹ، ٹینچ بھاٹہ، گرجا روڈ، ویسٹریج، دھمیال کیمپ، صدر، اتحاد کالونی خیابانِ سرسید، کشمیر بازار، پنڈورہ، صادق آباد، پیر ودھائی، چکلالہ اور ڈھوک ہاسو میں قائم ہیں۔
خبر کا کوڈ : 378499
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش