0
Wednesday 18 Jun 2014 10:32

سانحہ لاہور کے ذمہ دار رانا ثناءاللہ نکلے

سانحہ لاہور کے ذمہ دار رانا ثناءاللہ نکلے
لاہور سے ابو فجر کی رپورٹ

ماڈل ٹاؤن میں ہونے والے اندوہناک واقعہ میں پاکستان عوامی تحریک کی 2 بےگناہ خواتین سمیت 8 نہتے کارکن پولیس کی بربریت کا نشانہ بن گئے۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہرالقادری اور تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کے باہر لگے سکیورٹی بیئرئرز ہٹانے کی آڑ میں پولیس نے بلڈوزروں، کرینوں اور بھاری مشینری کے ساتھ رات 2 بجے چڑھائی  کر دی۔ گہری نیند میں سوئے کارکن سمجھے کہ بھارتی فوج نے حملہ کر دیا ہے۔ کمین گاہ کی طرف دیکھا تو بھارتی فوج نہیں لاہور پولیس کے اہلکار تھے۔ کارکنوں نے ڈنڈوں کے ساتھ مزاحمت کر کے پولیس کو چڑھائی سے روک دیا اور یہ گھمسان کا رن مسلسل ساڑھے گیارہ گھنٹے جاری رہا۔ پورا ماڈل ٹاؤن 11 گھنٹے سے زائد میدان جنگ بنا رہا، لاٹھی چارج، شیلنگ اور فائرنگ سے ہر طرف خوف کے بادل چھائے رہے۔

کارکنوں کی مزاحمت پر پولیس کی بھاری نفری بےبس ہو گئی اور ایلیٹ فورس کو طلب کر لیا گیا۔ چھ سے آٹھ بیئریئر ہٹانے کے لئے ایس ایس پی آپریشنز رانا عبدالجبار بذات خود آپریشن کی نگرانی کے لئے موجود تھے۔ رانا عبدالجبار وزیر قانون رانا ثناءاللہ کے قریبی عزیز ہیں۔ انہیں رانا ثناءاللہ کی سفارش پر ہی ایس ایس پی لگایا گیا تھا ورنہ میرٹ کے حساب سے جسمانی لحاظ سے تو وہ کانسٹیبل بھرتی ہونے کے بھی اہل نہیں۔ ایس ایس پی آپریشن رانا عبدالجبار نے اپنی نگرانی میں آپریشن کیا اور جب پولیس کو ناکام ہوتے ہوئے دیکھا تو سیدھی فائرنگ کا حکم دیدیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فائرنگ کا حکم بھی رانا ثناءاللہ کی ٹیلی فونک ہدایت پر دیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے لئے ایک روز قبل سول سیکرٹریٹ میں ایک ہنگامی اجلاس ہوا جس میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ افسران شریک ہوئے۔ ذرائع کے مطابق اس اجلاس میں رانا ثناءاللہ نے ضلعی انتظامیہ کو علامہ طاہر القادری کے گھر کے باہر سے تمام رکاؤٹیں ہٹانے کی ہدایت کی اور پولیس کو ضلعی انتظامیہ کی مدد کرنے کا کہا۔ اس موقع  ضلعی انتظامیہ نے کہا کہ سکیورٹی بیریئر تو پورے لاہور میں لگے ہوئے ہیں، ججز کی رہائش گاہیں ہوں یا پولیس افسران کے گھر، اہم بیوروکریٹس ہوں یا دینی مدارس، علما کی رہائش گاہیں ہوں یا سیاست دانوں کی کوٹھیاں، ہر جگہ سکیورٹی بیرئیر ہیں۔ لیکن رانا ثناءاللہ مصر رہے کہ علامہ طاہر القادری کے گھر کے باہر سے سکیورٹی بیرئیر ہٹائے جائیں۔

اس موقع پر ذرائع کا کہنا ہے کہ کمشنر لاہور راشد محمود لنگڑیال نے سب سے زیادہ اس آپریشن کی مخالفت کی۔ راشد محمود لنگڑیال کا  کہنا تھا کہ اس سے علامہ طاہرالقادری کے کارکن مزاحمت کریں گے اور تصادم سے پیدا ہونے والی صورت حال سے حالات گھمبیر ہو جائیں گے اور اس سے حکومت کی ساکھ متاثر ہو گی۔ ذرائع کے  مطابق پولیس افسران نے بھی کمشنر لاہور کی بات کی تائید کی اور آپریشن نہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن وزیر قانون پنجاب (جنہیں بعض حلقے وزیر دہشت گردی کے نام سے یاد کرتے ہیں) رانا ثناءاللہ بضد رہے کہ آپریشن ہر صورت میں کیا جانا چاہیئے۔

آپریشن ہوا اور اس آپریشن میں 8 قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ رانا ثناءاللہ نے اس موقع پر بھی اظہار تعزیت کی بجائے روایتی الزام تراشی کا مظاہرہ کیا اور ڈھٹائی کے ساتھ الزام دھر دیا کہ وہاں ریاست کے خلاف بغاوت کا حلف لیا جا رہا تھا۔ حیرت ہے رات کے دو بجے جب پورا علاقہ گہری نیند سو رہا تھا اس وقت حلف لینے والوں کا مقابلہ کرنے کے لئے بلڈورز اور کرینیں لائی گئیں؟ ہر ذی شعور پریشان ہے کہ یہ کیسی حلف برداری کی تقریب تھی جس کا مقابلہ کرینوں اور بلڈورز کے ساتھ کرنے چلے تھے۔ اس واقعہ کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ہنگامی پریس کانفرنس کی۔ پریس کانفرنس میں ان کی باڈی لینگوئج اور افسردہ لہجہ بتا رہا تھا کہ انہیں اس پورے واقعہ سے لاعلم رکھا گیا ہے۔ اس واقعہ کے بعد وزیراعلٰی پنجاب نے اپنی تمام مصروفیات ترک کر دیں۔

ذرائع کے مطابق رانا ثناءاللہ نے اس پورے واقعہ کی پہلے سے پلاننگ کر رکھی تھی۔ اور ’’رانا پلان’’ کو رانا عبدالجبار کے ذریعے عملی شکل دیدی گئی۔ بعد ازاں سی سی پی او لاہور چوہدری محمد شفیق نے بھی وزیر قانون کی ہدایت پر منہاج سیکرٹریٹ سے بھاری اسلحہ کی برآمدگی کا الزام دھر دیا۔ رات گئے جب وزیراعلیٰ پنجاب نے استفسار کیا کہ وہ بھاری اسلحہ جو منہاج سیکرٹریٹ سے برآمد ہوا ہے کہاں ہے؟ اسے میڈیا کے سامنے کیوں پیش نہیں کیا گیا تو چوہدری محمد شفیق کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے، بس اتنا کہا کہ رانا ثناءاللہ نے کہا تھا کہ پریس کانفرنس میں یہ بیان جاری کریں۔

اس کے بعد وزیراعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف نے سی سی پی او لاہور چوہدری محمد شفیق کو عہدے سے ہٹا کر ذوالفقار حمید کو سی سی پی او لاہور تعینات کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے ایس ایس پی آپریشنز رانا عبدالجبار کو بھی او ایس ڈی بنا دیا ہے جبکہ ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیز کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ پولیس افسران کے خلاف ایکشن کے بعد وزیراعلٰی نے اس اندوہناک سانحہ میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے لئے 30 لاکھ فی کس امداد کا بھی اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس نے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں یک رکنی جوڈیشل کمیشن بھی تشکیل دیدیا ہے جو واقعہ کی تحقیقات کرے گا اور ذمہ داروں  کا تعین کرے گا۔ کمیشن کی رپورٹ تو بعد میں آئے گی حالیہ قرائن اور شواہد یہ بتاتے ہیں کہ اس پورے واقعہ کے پیچھے رانا ثناءاللہ ہیں جو حکومت کے لئے نادان دوست ثابت ہو رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 392981
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش