0
Thursday 21 Oct 2010 13:37

پارلیمنٹ ججز تقرری کے طریقہ کار پر نظرثانی کرے،سپریم کورٹ

پارلیمنٹ ججز تقرری کے طریقہ کار پر نظرثانی کرے،سپریم کورٹ
اسلام آباد:اسلام ٹائمز-جنگ نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز تقرر کے نئے آئینی طریقہ کار کی ترمیم کو دوبارہ غور کی ہدایات کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس بھجوا دیا ہے،عبوری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز تقرر کیلئے جوڈیشل کمیشن میں سینئر ججوں کی تعداد 2 سے بڑھا کر 4  کی جائے،یہ جوڈیشل کمیشن،مجوزہ نام کے بطور جج تقرر کی دوبارہ سفارش کر دے تو نام حتمی تصور کیا جائے۔اٹھارویں آئینی ترمیم کے باقی مقدمہ کو جنوری کے آخری ہفتے تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے عبوری فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ،وفاقی شرعی عدالت،صوبائی ہائی کورٹس اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کا تقرر جوڈیشل کمیشن سے نامزدگی اور پارلیمانی کمیٹی میں منظوری سے کرانے کی آئینی ترمیم درست نہیں۔عدالت نے آئین میں پہلے سے موجود آرٹیکل 68 کا حوالہ دیا ہے،جس کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے طرزعمل کو پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا،سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ 18ویں ترمیم میں شامل آرٹیکل175 اے،اس آئینی دفعہ68  کے خلاف ہے،فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز تقرر کے پہلے طریقہ میں چیف جسٹس کی رائے کو مرکزی اہمیت حاصل تھی،آئینی ترمیم کر کے اس میں کمی کر دی گئی اور جوڈیشل کمیشن میں اٹارنی جنرل اور وزیر قانون کو جوڈیشل ارکان کے برابر بنا دیا گیا ہے۔فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی موجود نہ ہونے کی صورت میں آرٹیکل 175اے میں پارلیمانی کمیٹی کے وجود کا متبادل نہیں بتایا گیا۔ 
عدالت نے کہا ہے کہ مقدمہ کا حکم سنانے کیلئے دو آپشن تھے،یا تو اٹھارہویں ترمیم پر فوری فیصلہ سنا دیتے یا معاملہ واپس عوامی نمائندوں کو بھیج دیا جاتا۔عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ ججز تقرر کے طریقہ کار میں پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بند کمرے میں ہونا چاہئے۔سپریم کورٹ نے 18ویں ترمیم کا باقی ماندہ مقدمہ،جنوری کے آخری ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے فیصلہ کی نقل،چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی،میاں رضا ربانی اور سیکریٹری قانون کو بھیجنے کا حکم بھی دیا ہے۔
سپریم کورٹ،آرٹیکل 175اے پارلیمنٹ کو واپس بھیجنے کا فیصلہ
آج نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے اٹھارہوں ترمیم کے آرٹیکل ایک سو پچہتر اے کو پارلیمنٹ میں واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے،مذکورہ آرٹیکل ججوں کی تقرری کے طریقہ کار سے متعلق ہے،فی الحال ججوں کی تقرری اٹھارہویں ترمیم میں مرتب کردہ طریقہ کار کے مطابق ہو گی۔عدالت عظمیٰ کے سترہ رکنی لارجر بنچ نے اٹھارہویں ترمیم کی بعض شقوں کی کے خلاف دائر کی گئی مختلف آئینی درخواستوں پر اپنا مختصر فیصلہ سنایا۔سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل ایک سو پچہتر اے کو پارلیمنٹ میں واپس بھیجنے کا فیصلہ سناتے ہوئے ہدایت کی کہ پارلیمنٹ قانون اور عدالتی آبزرویشن کے مطابق مذکورہ آرٹیکل کا دوبارہ جائزہ لے۔عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی آئین کے بنیادی خدوخال کا حصہ ہے،آئین میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کا تحفظ کیا جائے گا۔ 
سپریم کورٹ نے ججوں کی تقرری کے طریقہ کار سے متعلق اپنی سفارشات میں کہا کہ ججوں کی تقرری سے متعلق عدالتی کمیشن کی کارروائی چیف جسٹس چلائیں گے جبکہ پارلیمانی کمیٹی جوڈیشل کمیشن کی سفارش کو ویٹو کر سکتی ہے۔پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بند کمرے میں ہو گا،تاہم اس کی تمام تر کارروائی کا ریکارڈ مرتب کیا جائے گا۔فیصلے کے مطابق فی الحال ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری آرٹیکل ایک سو پچہتر کے تحت ہی ہو گی۔اس موقعے پر چیف جسٹس نے کہا کہ ججوں کی تقرری کے متعلق ایسا شفاف طریقہ اپنایا جائے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔مقدمے کی سماعت آئندہ سال جنوری کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی۔ 

خبر کا کوڈ : 41172
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش