0
Wednesday 24 Dec 2014 22:36

دہشتگردی کے خاتمے کیلئے طاقت کے استعمال کے سوا اب کوئی راستہ نہیں، مولانا فضل الرحمان

دہشتگردی کے خاتمے کیلئے طاقت کے استعمال کے سوا اب کوئی راستہ نہیں، مولانا فضل الرحمان
اسلام ٹائمز۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طاقت کے استعمال کے سوا اب کوئی راستہ نہیں ہے۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف سیاسی قیادت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور انسداد دہشت گردی کے لیے جو بھی اقدام اٹھائے جائیں گے اس میں ہماری جماعت ساتھ کھڑی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کا خاتمہ ہم سب کی اولین ترجیح ہے اور ملک کی موجودہ صورتحال میں اس کے خاتمے کے لیے طاقت کے استعمال کے سوا اب کوئی راستہ نہیں جبکہ سزائے موت دیتے وقت کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے قیام پر بعض جماعتوں نے کچھ نکات اٹھائے لیکن ہم آئینی و قانونی ماہرین کی مشاورت سے بننے والی فوجی عدالتوں کی حمایت کریں گے۔

مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ دینی مدارس پاکستان کا بہت بڑا تعلیمی نیٹ ورک ہے اور 90 فیصد سے زائد مدارس کا دہشت گردی سے کوئی واسطہ نہیں اس لئے قومی ایکشن پلان کمیٹی کے اجلاس میں دی گئی سفارشات میں مدارس کو نشانہ بنانے پر ہم نے تحفظات کا اظہار کیا جبکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی متحدہ مجلس علما کا ہدف ہے اور علما نے فرقہ وارانہ رجحانات ختم کرنے کے عزم کیا ہوا ہے۔ لال مسجد اور اس کے خطیب مولانا عبد العزیز کے بیان پر قائد ایم کیو ایم الطاف حسین کے ردعمل کے حوالے سے مولانا فصل الرحمان کا کہنا تھا کہ الطاف حسین نے لال مسجد پر ضرورت سے زیادہ ردعمل دیا لہٰذا انہیں پیغام بھجوایا ہے کہ یہ وقت نیا محاذ کھولنے کا نہیں ہے۔


دیگر ذرائع کے مطابق، سربراہ جمعیت علمائے اسلام فے مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ الطاف حسین کا لال مسجد سے متعلق بیان نیا محاذ کھولنے کے مترادف ہے، ایم کیو ایم کے قائد کو پیغام بھجوا دیا ہےکہ یہ وقت نیا محاذ کھولنے کا نہیں۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ فوجی عدالتوں سے متعلق آئین میں گنجائش ہے، کچھ جماعتوں نے اس معاملے پر آئینی نکات اٹھائے ہیں، سب نے اتفاق کیا تو ہم بھی متفق ہوں گے، دہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومت کےساتھ تعاون کریں گے، انہوں نے کہا کہ پارلیمانی اجلاس میں سانحہ پشاور کو سفاکانہ جرم قرار دیتے ہوئے مجرموں کوعبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا، علما نے فرقہ وارانہ رجحانات ختم کرنے کاعزم ظاہر کیا، فرقہ وارانہ کتابوں پر پابندی کے علاوہ اس کے مصنف پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سزائے موت دیتے وقت کوئی امتیاز نہ برتا جائے۔


خبر کا کوڈ : 427933
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش