0
Wednesday 7 Jan 2015 11:26

قومی ایکشن پلان ملک کا انتشار کا شکار کر دے گا، اسلم بیگ

قومی ایکشن پلان ملک کا انتشار کا شکار کر دے گا، اسلم بیگ
اسلام ٹائمز۔ پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے کہا ہے اکیسویں ترمیم اور پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے قومی ایکشن پلان سے ملک میں انتشار بڑھنے کا خدشہ ہے۔ ملک پہلے ہی 4 طبقوں میں تقسیم ہے۔ سیکولر، روشن خیال، ماڈریٹ اور قومیت پرست جماعتیں ایک طرف ہیں جبکہ دینی جماعتیں جو ایک بڑا طبقہ ہے، حکومت اور سیاست سے الگ دوسری طرف ہے۔ آج سیکولر، روشن خیال، ماڈریٹس، قومیت پرست جماعتوں اور دینی جماعتوں کے درمیان تصادم کی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے۔ ہم آج اپنے آپ کو اسلامی جمہوری پاکستان نہیں کہہ سکتے۔ آج اسلامی نظریہ حیات کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں، سیکولر اور روشن خیال نظریات حاوی ہو چکے ہیں۔ اکیسویں ترمیم کی منظوری کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے قومی ایکشن پلان کے اندر خرابی نظر آ رہی ہے۔ اس کی منظوری سے قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ قانون کی حکمرانی تو یہ ہے کہ جرم کوئی بھی کرے اس کے رنگ، نسل، نظریات کچھ بھی ہوں وہ مجرم ہے۔ لیکن ایکشن پلان میں روشن خیال، سیکولر، قومیت پرست جماعتوں کو مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ صرف دینی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مجرم قرار پائیں گے۔ مذہبی جماعتیں اس پر احتجاج کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک 4 طبقوں میں بٹا ہوا ہے جس کی شکل گزشتہ حکومت میں نظر آئی کہ 3 صوبوں میں سیکولر، روشن خیال، قومیت پرست طبقوں اور چوتھے صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی ماڈریٹ حکومت تھی۔ دینی جماعتیں جو ملک کا بڑا طبقہ ہے، حکومت سیاست سے الگ ہے، اس کا حکومت اور سیاست کے فیصلے کرنے میں کوئی کردار نہیں۔ اسمبلی میں ان کے ارکان کی تعداد بے حد کم ہے۔ یہ قومی معاملات سے الگ تھلگ، حکومت بنانے اور گرانے سے محروم ہیں۔ ایسا صرف معاشرتی تقسیم کی وجہ سے ہے۔ اکیسویں ترمیم سے یہ تقسیم مزید واضح ہو گئی ہے۔

انہوں  نے کہا کہ دینی جماعتوں کا یہ گروپ اس کے مفاد سے ٹکرائو ہوا تو بڑا خلفشار پیدا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا ایک ایسے وقت میں جبکہ امریکہ افغانستان سے نکل چکا ہے اور افغانستان کی فوج اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں، قومیت پرستوں، سیکولر، روشن خیالوں اور دینی جماعتوں کے درمیان تصادم کی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا پاراچنار میں فرقہ پرستی کا تصادم زوروں پر تھا، باہر سے شیعہ، سنی وہاں پہنچے اور 5 سال تک یہ علاقہ پاکستان سے الگ ہو کر رہا۔ دو سال سے فوج نے وہاں ایکشن کیا 60 کے قریب افسر اور جوان شہید ہوئے، آج وہاں فوج کی وجہ سے حالات کنٹرول میں ہیں۔ فوج کو ہٹایا گیا تو حالات پھر خراب ہو جائیں گے۔ 6 ماہ سے فوج نے ضرب عضب آپریشن شروع کر رکھا ہے مگر ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ افغانستان کے طالبان وہاں مدد کو پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کل جب دینی جماعتوں کا سیکولر اور روشن خیال جماعتوں سے تصادم بڑھے گا تو پاراچنار کا نقصان پورے سرحدی علاقوں میں ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 430876
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش