0
Tuesday 9 Nov 2010 10:29

سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لئے امریکا نے بھارت کی حمایت کر دی

سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لئے امریکا نے بھارت کی حمایت کر دی
نئی دہلی:اسلام ٹائمز-جنگ نیوز کے مطابق امریکی صدر بارک حسین اوباما نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کیلئے بھارت کی حمایت کر دی ہے،انہوں نے کہا کہ قائدانہ کردار ادا کرنے کی کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں،انسانی اور جمہوری حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اُٹھانی چاہئے لیکن نئی دہلی بین الاقوامی سطح پر اپنی ذمہ داریوں سے بچتا رہا،پاکستانی سرحدوں میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ناقابل برداشت ہیں ان ٹھکانوں کے خاتمے اور ممبئی حملوں کے ملزمان کو سزا دلوانے کیلئے اسلام آباد پر دباوٴ ڈالتے رہیں گے۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان دیرینہ تنازع ہے،دونوں ملکوں کو کشیدگی کم کرنے کیلئے مسائل کے حل پر توجہ دینی چاہئے،اگر دونوں ممالک چاہیں تو امریکا مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرنے کو تیار ہے لیکن ہم کوئی حل مسلط نہیں کرسکتے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے نئی دہلی میں بھارتی وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس اور بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔جبکہ دونوں ممالک نے جوہری توانائی، انسداد دہشت گردی،تعلیم،صحت،تجارت سمیت تمام شعبوں میں تعاون بڑھانے کا اعلان کیا۔ 
تفصیلات کے مطابق پیر کو بھارتی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ مجھے اس لمحے کا انتظار ہے جب ایک اصلاح شدہ سلامتی کونسل میں بھارت ایک مستقل رکن کی حیثیت سے شامل ہو،لیکن ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ قائدانہ کردار کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں اور بھارت کو برما جیسے ممالک میں انسانی اور جمہوری حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے،اگر میں کھل کر بات کروں تو بین الاقوامی فورموں پر بھارت اپنی اس ذمہ داری سے بچتا رہا ہے۔صدر اوباما نے جمہوری اقدار کی بات کی،کھلی تجارت کی ضرورت پر زور دیا اور پھر خطے میں سیکورٹی کی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ اور اس کی حامی تنظیموں کو تباہ کرنے کی ہماری حکمت عملی افغانستان اور پاکستان دونوں میں کامیاب ہونی چاہئے،اسی لئے ہم حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام نے بھی شدت پسندوں کے تشدد کی بھاری قیمت ادا کی ہے اور ہم پاکستان پر اس بات کیلئے دباوٴ ڈالتے رہیں گے کہ اس کی سرحد کے اندر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ختم کی جائیں اور ممبئی حملوں کے ذمہ دار افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔کشمیر کے مسئلہ پر انہوں نے اپنا یہ موقف دہرایا کہ امریکا دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی حمایت کرتا ہے لیکن اس میں ثالث کا کردار ادا نہیں کرے گا۔ 
قبل ازیں بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ مذاکرات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران امریکی صدر نے کشمیر سے متعلق امریکا کے موقف کے بارے میں ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے ایک بار پھر واضح کیا کہ امریکا دونوں ملکوں کے درمیان کسی طرح کی ثالثی میں ملوث نہیں ہو،گا،تاہم امریکا دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی دونوں ملک جلد بات چیت شروع کریں گے۔ تاہم بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے اس قسم کی پیشکش کو فوری طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم مسئلہ کشمیر پر بات کرنے سے خوفزدہ نہیں،تاہم مذاکرات اور دہشت گردی کے مشن اکٹھے نہیں چل سکتے، پاکستان کو اس سے الگ ہونا ہو گا۔ منموہن نے کہا کہ بھارت کشمیر پر بات چیت سے خوفزدہ نہیں ،ایک مستحکم خوشحال اور اعتدال پسند پاکستان بھارت ہی نہیں پوری دنیا کے مفاد میں ہے۔ 
امریکی صدر نے کہا کہ جوہری دھماکے کے بعد بھارت کے خلاف نافذ کی گئی حساس ٹیکنالوجی کی برآمد پر پابندی ہٹا لی گئی ہے اور اب بھارت کے اہم سائنسی اور دفاعی ادارے امریکا سے اعلیٰ ٹیکنالوجی کا ساز و سامان برآمد کر سکیں گے۔ اس سے قبل دونوں رہنماوٴں نے حیدر آباد ہاوٴس میں تنہا اور وفود کی سطح پر باہمی اور علاقائی سوالوں پر بات کی۔


خبر کا کوڈ : 43489
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش