0
Friday 15 May 2009 11:30

حکومت عالمی اتحاد سے فی الفور باہر آئے ،سوات آپریشن بند کیا جائے،24 دینی جماعتوں کی قومی کانفر نس

حکومت مالاکنڈ ،فاٹا اور بلوچستان میں آپریشن بند کرے : دینی جماعتوں کی کانفرنس میں مطالبہ
حکومت عالمی اتحاد سے فی الفور باہر آئے ،سوات آپریشن بند کیا جائے،24 دینی جماعتوں کی قومی کانفر نس
لاہور :جمعیت علماء پاکستان کے زیر اہتمام ملک کی 24 دینی جماعتوں کی قومی کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت نام نہاد دہشتگردی کیخلاف عالمی اتحاد سے فی الفور باہر آئے ،سوات، فاٹا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کیا جائے۔قومی کانفرنس، نفاذ شریعت و نظام مصطفی کیلئے جدوجہد کرنے والی قوتوں کو پیغام دیتی ہے کہ غیر مسلح جدوجہد ہی ملک میں نفاذ اسلام کا پائیدار ذریعہ ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق حق رائے شماری کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر حل کیا جائے۔ قومی کانفرنس میں شامل تمام دینی جماعتیں امت مسلمہ کے اس موٴقف کا اعادہ کرتی ہیں کہ افغانستان اور عراق پر امریکی حملہ اور وہاں امریکہ اور نیٹو فورسز کی موجودگی پوری امت کی آزادی اور اس کی دینی اقدار پر حملہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن،جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد،اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ سید ساجد علی نقوی،مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر ،وفاق المدارس کے سربراہ مولانا حنیف جالندھری،تحفظ ناموس رسالت محاذ کے سربراہ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی،جمعیت علماء پاکستان (نفاذ شریعت ) کے سربراہ انجینئر سلیم اللہ،جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر،جنرل سیکرٹری قاری زوار بہادر،تحریک منہاج القرآن کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق عباسی،پاکستان امن کونسل کے مفتی صفدر علی قادری سمیت 17سے زائد دینی جماعتوں کے قائدین نے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عالمی قوتیں ہماری رٹ کو چیلنج کر کے ہماری عوام کو نشانہ بنا رہی ہیں اور دہشتگردی کی جنگ ہم پر مسلط کی جا رہی ہے تو پھر حکومت کیوں خاموش ہے ۔ انہوں نے کہا کہ
آج فرقہ وارانہ تنازع کھڑا کیا جا رہا ہے۔ اس لئے ہم سب کو چاہیے کہ متحد ہو کر دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔ڈیرہ اسماعیل خان اور کرم ایجنسی میں فسادات کی کوششیں کی گئی ہیں۔حکومت بتائے کہ اگر صوفی محمد کے مطالبات درست نہیں تھے تو پھر ان سے معاہدہ کیوں کیا گیا تھا اور اب اس معاہدے کو کیوں توڑا گیا۔انہوں نے کہا کہ ہم شروع دن سے کہتے ہیں کہ طاقت کے استعمال کی بجائے مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اگر حکومت جمہوریت پر یقین رکھتی ہے تو ان کو پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کروائی جانیوالی قرارداد پر عمل کرنا ہوگا۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ سوات اور دیگر علاقوں میں فوجی آپریشن دہشتگردوں اور عسکریت پسندوں کے خلاف نہیں بلکہ معصوم لوگوں کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ امریکہ جو مقاصد فوج کی حمایت کر کے حاصل کر سکتا ہے وہ سویلین حکومت سے ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو بچانے اور امریکی مداخلت کو روکنے  کے لئے ہم سب کو ایک محاذ پر کھڑا ہونا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ صوفی محمد نے سوات میں نظام عدل قائم کرنے سے انکار کر دیا تھا اصل میں حکمرانوں کی نیت ہی درست نہیں تھی۔ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ جب تک ہم امریکہ سے امداد لینا بند نہیں کرتے، اس وقت تک امریکی مداخلت کو بھی نہیں روکا جا سکتا۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کا اگلا نشانہ پنجاب ہو سکتا ہے۔ اس لئے صوبائی حکومت کو بھی سیکورٹی کے انتظامات کرنا ہونگے۔ علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ ہم جب تک ایک پلیٹ فارم پر متحد نہیں ہوتے اس وقت تک مسائل کا حل ممکن نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عالم اسلام اور اسکے وسائل پر قبضے کیلئے امریکہ اور اسکے حواری کوششیں کر رہے ہیں۔ 
حکومت مالاکنڈ ،فاٹا اور بلوچستان میں آپریشن بند کرے : دینی جماعتوں کی کانفرنس
میں مطالبہ

لاہور : جمعیت علماء پاکستان (نورانی) کے زیر اہتمام دینی جماعتوں کی قومی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت مالاکنڈ، فاٹا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کرے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کروایا جائے، حکومت بیرونی  استعماری ڈکٹیشن قبول کرنے کی بجائے آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے قومی سلامتی کیلئے پالیسی پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کے مطابق تشکیل دے اور پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد پر عمل درآمد کیا جائے۔ رہنمائوں نے کہا کہ طاقت کسی مسئلے کا حل نہیں،آزاد خارجہ پالیسی کی از سر نو تشکیل کی جائے،ڈرون حملے حکومتی رٹ کے خلاف کھلا چیلنج ہیں،مذاکرات اور جرگے کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔ قومی کانفرنس سے جمعیت علماء اسلام (ف) کے مولانا فضل الرحمن،جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد،مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میر،جمعیت علماء پاکستان نورانی کے سربراہ صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر زبیر،تحریک اسلامی پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد میر،ڈاکٹر سرفراز نعیمی،انجینئر سلیم اللہ خان،پیر میاں عبدالخالق،مولانا اجمل قادری،قاری حنیف جالندھری،مولانا عبدالغفور حیدری،مولانا عبدالرئوف فاروقی،علامہ زبیر احمد ظہیر،مولانا مجیب الرحمن انقلابی،حافظ طاہر محمود اشرفی،پیر عتیق الرحمن،ڈاکٹر رحیق عباسی،مفتی محمد خان قادری نے خطاب کیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ آپریشن عراق، افغانستان کی طرح پاکستان میں امریکی جارحیت کا تسلسل ہے۔ صوفی محمد کے ووٹ کو حرام قرار دینے اور آئین، جمہوریت، پارلیمنٹ کے بارے میں خیالات کو ہم نہیں مانتے ان کی اپنی رائے ہے،ہمارے اکابرین نے آئین،جمہوریت اور پارلیمنٹ کے ذریعے نتیجے پر پہنچنے کی راہ دکھائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی
تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کو مل کر عالمی استعمار اور ان کے گماشتوں کی سازش کو ناکام بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی رٹ چیلنج نہیں ہونی چاہیے اور مملکت میں مملکت نہیں بننی چاہیے۔ قاضی حسین احمد نے کہا کہ فوجی آپریشن لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا ایکشن ری پلے ہے، جو کہ اس آپریشن سے بہت زیادہ بڑے پیمانے پر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن عسکریت پسندوں کے خلاف نہیں بلکہ معصوم بے گناہ لوگوں کے خلاف ہے جس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے آسرا ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سارا کھیل امریکہ کا ہے۔ انہوں نے اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکی یلغار قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ زرداری حکومت کی امریکہ نواز پالیسی میں حکومت اور فوج دونوں شامل ہیں اس پالیسی کو تبدیل کرنے کیلئے ہمیں متحدہ محاذ بنانا چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ متحدہ محاذ میں شامل ہونے والی جماعتوں میں سے کوئی حکومت کا حصہ ہے تو حکومت سے الگ ہو جائے کیونکہ حکومت میں شامل رہ کر حکومت کے خلاف دبائو پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ معاہدات پر عمل نہیں کیا گیا اور ہتھیاروں کا سہارا لیا گیا جو درست نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے امریکی دبائو پر ٹوٹتے رہے۔ امریکہ اور بھارت نے ہمارے علاقے میں آگ لگائی ہے اور اب آگ بجھانے کیلئے شور مچا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ کی ڈکٹیشن پر مزید عمل کیا گیا تو حالات اور بھی خراب ہو جائیں گے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا دشمن قوتوں کا اگلا ٹارگٹ پنجاب ہو گا۔ علامہ سید ساجد نقوی نے کہا کہ دینی قوتوں کو اکٹھا کر کے جمہوری طریقے سے حکمرانوں کی اصلاح کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی نئے اتحاد یا فورم کے متحمل نہیں ہو سکتے کیونکہ پہلے بننے والے اتحادوں، ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل سے ہمیں کچھ
حاصل نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے شیعہ سنی کا شاخسانہ تھا اب نیا شاخسانہ دیو بندی، بریلوی کا اٹھایا گیا ہے۔ صاحبزادہ ڈاکٹر ابوالخیر زبیر نے کہا کہ ’’آپریشن‘‘ امریکہ کو خوش کرنے کیلئے شروع کیا گیا ہے اور اس کا مقصد ملک میں خانہ جنگی کروانا ہے۔ صوفی محمد کے آئین، پارلیمنٹ کے خلاف بیانات آپریشن کا جواز اور مسلمانوں کے نقصان کا سبب بنے۔ ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے کہا کہ بونیر، دیر، سوات میں پیدا شدہ صورتحال پر پوری قوم کو تشویش ہے لیکن مزارات پر بمباری اور مشائخ عظام کے قتل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے خلاف یکطرفہ سرکاری کارروائی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انجینئر سلیم اللہ خان نے کہا کہ نظام عدل معاہدہ خرابیوں کے باوجود قبول کیا گیا لیکن حکومت نے اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ پیر میاں عبدالخالق نے کہا کہ مزارات کا تحفظ ہونا چاہیے۔ مشائخ عظام کے خلاف کارروائیاں بند کی جانی چاہئیں۔ حکومت بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ نہ اتارے۔ مولانا اجمل قادری نے کہا کہ عدلیہ کی طرح مقننہ اور انتظامیہ کو بھی آزاد کیا جائے۔ قاری حنیف جالندھری نے کہا کہ دینی مدارس کے خلاف یکطرفہ سرکاری کارروائی ہوئی تو اس کی مزاحمت کی جائے گی۔ مولانا عبدالغفور حیدری،مولانا عبدالرئوف فاروقی،علامہ زبیر احمد ظہیر،مولانا مجیب الرحمن انقلابی اور حافظ طاہر محمود اشرفی نے بھی فوجی آپریشن بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ پیر عتیق الرحمن،ڈاکٹر رحیق عباسی،انجینئر سلیم اللہ خان،مفتی محمد خان قادری نے بھی مزارات پر حملوں اور مشائخ عظام کے قتل کے واقعات کی شدید مذمت کی۔ دریں اثناء دینی سیاسی جماعتوں کی قومی کانفرنس نے اپنے مشترکہ اعلامیہ میں مطالبہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد پر عمل کیا جائے۔ طاقت کا استعمال
مسئلے کا حل نہیں۔ مذاکرات اور جرگے کے ذریعے مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔ مالاکنڈ ڈویژن اور بلوچستان میں فوجی آپریشن بند کیا جائے۔ مزارات پر حملے اور مشائخ عظام کے قتل کی مذمت کی گئی۔ صوفی محمد کے بیانات دینی مشترکات کے منافی ہیں۔ کانفرنس مدارس کو سرکاری کنٹرول میں لینے کی مزاحمت کرے گی۔ حکومت بیرونی ڈکٹیشن قبول کرنے کی بجائے آزاد و خودمختار ملک کی حیثیت سے قومی سلامتی کیلئے پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد پر عمل کرے۔ وکلاء تحریک کے دوران 12 مئی اور 19 اپریل کے واقعات کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے اس کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ قومی کانفرنس میں جمعیت علماء پاکستان کے صاحبزادہ ابوالخیر زبیر،پیر اعجاز ہاشمی،قاری زوار بہادر،علامہ شبیر ہاشمی،چودھری یعقوب،ڈاکٹر جاوید اعوان،علی حیدر نور خان نیازی،جماعت اسلامی کے منور حسن، لیاقت بلوچ،جمعیت علماء اسلام (ف) کے امجد خان،حافظ ریاض درانی،اسلامی تحریک پاکستان کے عبدالجلیل نقوی،زوار حسین نقوی،قیصر بخاری،جمعیت علماء اسلام (س) کے یوسف شاہ،مولانا شاہ عبدالعزیز ،مولاناعبدالرئوف فاروقی،مرکزی جمعیت اہلحدیث کے رانا نصر اللہ،مرکزی جماعت اہلسنّت کے پیر میاں عبدالخالق،جمعیت علماء جموں و کشمیر کے پیر عتیق الرحمن،کاروان اسلام کے محبوب الرسول قادری،وفاق المدارس کے مولانا فضل الرحیم،مولانا حنیف جالندھری،وفاق المدارس شیعہ کے قاضی نیاز حسین نقوی،مولانا افضل حیدری،تحریک منہاج القرآن کے ع غ کراروی،اسلامی شریعہ کونسل کے مولانا زاہد الراشدی،قاری جمیل الرحمن،جمعیت اہلحدیث کے مولانا ابتسام الٰہی ظہیر، تدکرہ اسلاف کونسل کے مولانا اکرم کشمیری،مولانا مجیب الرحمن انقلابی،پاکستان امن کونسل کے مفتی صفدر علی قادری،میاں شبیر قادری نے شرکت کی۔


خبر کا کوڈ : 4943
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش