0
Friday 8 Apr 2011 00:33

بحرین میں سعودی عرب کی مداخلت سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے، انٹرنیشنل کرائسس گروپ

بحرین میں سعودی عرب کی مداخلت سے فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے، انٹرنیشنل کرائسس گروپ
واشنگٹن:اسلام ٹائمز۔انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے بحرین میں سعودی عرب کی مداخلت کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ بحرین کی آبادی میں اکثریت شیعوں جبکہ اقتدار پر سنیوں کا غلبہ ہے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی نئی رپورٹ میں بحرین کے اندر سیاسی بے چینی میں اضافے پر سعودی اندیشوں کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں بحرین کی حکومت کی جانب سے  پرامن مظاہرین کے خلاف کارروائی کو بھی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔
 وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بعض عرب ممالک میں تبدیلی کے مطالبات پر سعودی عرب کی ناخوشی کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ اس نے ہمسایہ ملک بحرین میں ملٹری فورس بھیجی ہے، تاکہ بحرین کی حکومت احتجاج کو کچل سکے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس اقدام کی وجہ سعودیوں کا یہ خوف تھا کہ یہ احتجاج ایران کی ایما پر کیے گئے ہیں۔ لیکن میں یہ کہوں گا کہ سعودی عرب کمرے میں موجود دو ٹن کے ہاتھی کی طرح ہے، جس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ گڑ بڑ کا اصل امکان اس وقت ہو گا جب شیعہ آبادی والے مشرقی صوبے میں نہیں بلکہ جدہ جیسے مقام پر احتجاج ہونے لگیں۔
مشرقِ وسطی کے بہت سے ملکوں میں سیاسی تبدیلی کے لئے ہنگامے جاری ہیں لیکن سعودی عرب میں حالات نسبتا ًپرسکون رہے ہیں۔ تاہم وہاں بھی سیاسی بے چینی پھوٹ پڑنے کے بارے میں تشویش موجود ہے۔ یمن میں امریکہ کی سابق سفیر بابرا بوڈینی نے کہا ہے کہ ان ملکوں میں جو اب تک مصر اور تیونس جیسے سیاسی احتجاجوں اور انکے نتیجے میں آنے والی تبدیلیوں سے بچے ہوئے ہیں، انہیں سب سے زیادہ تشویش سعودی عرب کے بارے میں ہے۔ وہاں تبدیلی لانے والے وہ تمام عوامل موجود ہیں جو ہم نے دوسرے ملکوں میں دیکھے ہیں۔ وہاں قیادت بہت بوڑھی ہو چکی ہے اور اپنے خول میں بند ہے۔ آبادی میں نوجوانوں کا تناسب بہت زیادہ ہے اور آمدنی میں فرق اور بےروزگاری کی شرح بہت اونچی ہے۔
سعودی حکام نے سیاسی مظاہروں کو سختی سے دبا دیا ہے۔ مارچ کے شروع میں ملک کے مشرقی صوبے میں شیعہ اقلیت نے چھوٹے چھوٹے مظاہرے کیے تھے لیکن سیکورٹی فورسز نے انہیں جلد ہی کچل دیا۔ سی آئی اے میں ”سیاسی اسلام “نامی  شعبہ کے سابق سربراہ ایمیلے نک حلہی نے کہا ہے کہ خطرے کی علامت جس پر کڑی نظر رکھنی چاہیے یہ ہے کہ مشرقی صوبے کے باہر احتجاج شروع نہ ہو جائیں۔ میں یہ کہوں گا کہ سعودی عرب کمرے میں موجود دو ٹن کے ہاتھی کی طرح ہے جس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ گڑ بڑ کا اصل امکان اس وقت ہو گا جب شیعہ آبادی والے مشرقی صوبے میں نہیں بلکہ جدہ جیسے مقام پر احتجاج ہونے لگیں۔ تبدیلی کے مطالبات پر سعودی عرب کی ناخوشی کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ اس نے ہمسایہ ملک بحرین میں ملٹری فورس بھیجی ہے تاکہ بحرین کی حکومت احتجاج کو کچل سکے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس اقدام کی وجہ سعودیوں کا یہ خوف تھا کہ یہ احتجاج ایران کی ایما پر کیے گئے ہیں لیکن انٹرنیشنل کرائسس گروپ کی ایک نئی رپورٹ میں سعودی اندیشوں کو بے بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں بحرین کی حکومت کی کارروائی اور سعودی مداخلت کو خطرناک اقدامات کہا گیا ہے جن کے نتیجے میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے کیوں کہ بحرین کی آبادی میں اکثریت شیعوں کی ہے جب کہ حکومت پر سنیوں کا غلبہ ہے۔ ایمیلے نے کہا ہے کہ جن عرب ملکوں نے لیبیا پر نوفلائی زون کے قیام کی حمایت کی تھی، انہوں نے بحرین میں سعودی عرب کی کارروائی کی حمایت نہیں کی۔ یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ بہت سے عربوں نے لیبیا پر مغربی ملکوں کے نوفلائی زون اور لیبیا پر مغربی فوجی حملوں کی حمایت کی ہے، لیکن بحرین میں سعودی عرب کی مداخلت کی مخالفت کی ہے کیوں کہ بحرین میں سعودی مداخلت کو شیعہ مخالف چیز سمجھا جاتا ہے، جس کا مقصد بحرین کی حکومت کی حفاظت نہیں بلکہ فرقہ پرستی کا فروغ ہے۔ اس علاقے میں سعودی عرب امریکہ کا قریبی اتحادی ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ اگر ملک میں سیاسی ہنگامہ آرائی ہوئی اور بادشاہت میں تبدیلی کے آثار ظاہر ہوئے تو امریکہ کا رویہ کیا ہو گا۔ یہ اندیشے بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اگر سعودی عرب میں ہنگامے ہوئے، تو تیل کی قیمت میں زبردست اضافہ ہو جائے گا۔ تیل پیدا کرنے والے ملکوں میں سعودی عرب کا نمبر روس کے بعد دوسرا ہے۔
خبر کا کوڈ : 63828
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش