0
Wednesday 8 Jun 2011 11:33

سینیٹ،اپوزیشن کا دوسرے روز بھی احتجاج، قائد حزب اختلاف کے تقرر پر نظرثانی تک بائیکاٹ

سینیٹ،اپوزیشن کا دوسرے روز بھی احتجاج، قائد حزب اختلاف کے تقرر پر نظرثانی تک بائیکاٹ
 اسلام آباد:اسلام ٹائمز۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف کی تقرری کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں نے دوسرے روز بھی شدید احتجاج کیا اور تقرر کے فیصلے پر نظرثانی تک بائیکاٹ کرتے ہوئے ایوان سے واک آﺅٹ کر دیا۔ سینیٹر اسحاق ڈار کی جانب سے آزاد ارکان کے ووٹ کے حوالے سے قانونی نکات نے ایوان بالا میں نئی بحث چھیڑ دی۔ منگل کے روز سینٹ کا اجلاس چیئرمین سینٹ فاروق ایچ نائیک کی زیرصدارت آدھے گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا تو سینٹ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحاق ڈار نے نقطہ اعتراض پر بات کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین سینٹ نے قائد حزب اختلاف کی تقرری کے حوالے سے جو ترتیب دی ہے وہ متنازعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ شجاعت حسین کی درخواست پر جن 9 سینیٹرز کو انکے ووٹ سے محروم کیا گیا ہے انہیں چیئرمین سینٹ نے پہلے خود اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کی اجازت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ ممبران پر پارٹی ایکٹ لاگو نہیں ہوتا۔ ق لیگ کے 9ارکان کو اپوزیشن کا حصہ تسلیم کر لیا گیا لیکن انہیں ووٹ دینے کا حق نہیں دیا گیا جو بڑی عجیب بات ہے، انہیں انکا آئینی حق دیا جائے۔ حافظ رشید اور ولی محمد بادینی حکومتی الائنس کا حصہ ہیں۔ ولی محمد بادینی پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان بھی کر چکے ہیں، ایسے حالات میں انکے ووٹ کو کس طرح شامل کیا جا سکتا ہے۔ سینیٹر نعیم حسین چٹھہ نے کہا کہ ہمیں اپوزیشن کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے تو پھر ہمیں ووٹ دینے کا حق بھی ملنا چاہئے تھا۔ 
سینیٹر میاں رضا ربانی نے کہا کہ یہ بہت حساس اور اہم نوعیت کے سوالات ہیں لہٰذا چیئرمین سینٹ اس پر جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ دیں۔ ایوان کو قانونی ماہرین کی رائے ضرور لینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی پارٹی کے چند ارکان کو چیئرمین نے اپوزیشن میں بیٹھنے کی اجازت دی ہے تو انکی حیثیت کو بھی دیکھنا پڑیگا۔ ہمیں ایک دو دن دئیے جائیں تاکہ اس معاملے پر تیاری کی جا سکے اور پھر ایوان میں قانونی بحث کی جائے۔ قائد ایوان سید نیئر حسین بخاری نے کہا کہ چیئرمین کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے سے پہلے اس بات کا تعین کر لینا چاہئے کہ آیا نظرثانی کیلئے ضابطہ موجود بھی ہے کہ نہیں۔ راجہ ظفر الحق نے کہا کہ چیئرمین سینٹ کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ جب تک فیصلے پر نظرثانی نہیں ہوتی واک آﺅٹ کرتے ہیں۔ شجاعت حسین نے کہا کہ حکومت کے ارکان قائد حزب اختلاف کیلئے کس قانون کے تحت ووٹ دے سکتے ہیں۔ ایس ایم ظفر نے کہا کہ بھارت میں ایسی صورتحال کیلئے قانون سازی کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت نہیں۔ (ق) لیگ کے ارکان پارٹی چھوڑ کر اپوزیشن کیلئے ووٹ کر سکتے ہیں۔ لشکری رئیسانی نے کہا کہ چیئرمین سینٹ قائد حزب اختلاف کی تقرری کے معاملے میں شفافیت لائیں اور اپوزیشن جو نقاط اٹھا رہی ہے اس کو زیرغور لایا جائے۔ 
قائد حزب اختلاف عبدالغفور حیدری نے کہا کہ لگتا ہے مسلم لیگ (ن) حوصلہ ہار چکی ہے وہ جمہوریت پر نہیں لوٹا کریسی پر یقین رکھتی ہے اور آمریت کیلئے کام کر رہی ہے۔ ہارون اختر خان نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 63/A سینٹ پر اپلائی نہیں ہوتا۔ پارٹی لیڈر کسی رکن کو اسکے ووٹ کے حق سے محروم نہیں کر سکتا، پارٹی اپنے ارکان کو شوکاز کر سکتی ہے۔ نعیم حسین چٹھہ نے کہا کہ ہم پاکستان مسلم لیگ میں ہیں (ق) لیگ میں ہرگز نہیں ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد نے کہا کہ ہم ضابطے کی بات کر رہے ہیں، شخصیات کی ہرگز نہیں۔ مولانا عبدالغفور حیدری کو حکومت کی حمایت ہے۔ انہیں قائد حزب اختلاف کی بجائے قائد ایوان بنایا جائے۔ اعظم سواتی، مولانا عبدالغفور حیدری، حاجی غلام علی اور دیگر نے قائد حزب اختلاف کی تقرری کا دفاع کیا اور اپوزیشن کو جمہوری طرزعمل اختیار کرنے کی اپیل کی۔ واک آﺅٹ میں (ق) لیگ کے آزاد سینیٹر محمد علی درانی نے ساتھ نہیں دیا۔ ریڈیو مانیٹرنگ کے مطابق سینیٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ سینٹ میں مولانا عبدالغفور حیدری کو اکثریت کی حمایت حاصل تھی وہ قائد حزب اختلاف منتخب ہو گئے۔ 
علاوہ ازیں بجٹ پر بحث کا آغاز ایم کیو ایم کے محمد احمد علی نے کر دیا، بحث کے ابتداءمیں ہی ق لیگ کے سینیٹر جمال لغاری نے کورم کی نشاندہی کر دی، جس کے بعد بحث پر کاروائی روک دی گئی۔ چیئرمین سینٹ فاروق ایچ نائیک نے گھنٹیاں بجوائیں اس دوران رضا ربانی اور سینیٹر صلاح الدین ڈوگر کے ایوان میں واپس آنے پر کورم پورا ہو گیا، جس کے بعد محمد احمد علی نے بجٹ پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قوم کا مزاج ایسا ہے کہ کوئی ٹیکس دینا ہی نہیں چاہتا ہے، خرچ زیادہ ہے اور آمدن کم ہے کسی گھر میں بھی اگر آمدن سے خرچ زیادہ ہو تو قرض لینا پڑتا ہے۔ سینٹ کے اخراجات میں کمی کی بجائے اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ 30 ہزار روپے کمانے والے کو ٹیکس نیٹ میں لانا چاہئے، اجلاس آج صبح ساڑھے 10 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ آن لائن کے مطابق سینٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس اپوزیشن ارکان کے بائیکاٹ اور حکومتی ارکان کی عدم دلچسپی کے باعث منعقد نہ ہو سکا، کورم پورا نہ ہونے کے باعث چیئرمین کمیٹی کو اجلاس ملتوی کرنا پڑا۔
خبر کا کوڈ : 77512
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش