2
1
Tuesday 16 Apr 2024 08:34

اسرائیل کا دفاع فارغ ہے

اسرائیل کا دفاع فارغ ہے
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

دیہات میں تقریباً ہر جگہ وڈیرے کے بیٹے، پوتے یا نواسے کی صورت میں ایک کردار موجود ہوتا ہے۔ یہ اپنے ہم عمر لڑکوں پر رعب جما کر رکھتا ہے اور ان بن ہونے کی صورت میں تھپڑ بھی مار لیتا ہے۔ گلی محلے کے لڑکے اس کے باپ یا نانا دادا کے ڈر سے اسے کچھ نہیں کہتے۔ جب یہ کسی سے لڑتا ہے تو کچھ دیگر معاشرتی بے حیثیت لڑکے بھی اس کے پیچھے کھڑے ہو کر شیخیاں مار رہے ہوتے ہیں۔ اگر اسرائیل کی صورتحال کا جائزہ لیں تو وہ یہی ہے۔ امریکہ و یورپ کی پشت پناہی میں علاقے کے ممالک کو ڈرا کر رکھا ہوا ہے اور مسلسل پچاس سال سے جس پر جی کرتا ہے، چڑھ دوڑتا ہے، اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ جیسے ہی کوئی اسے لگام ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو امریکہ اور یورپ کی صورت میں باپ، نانا، دادا میدان میں آجاتے ہیں کہ یہ ہمارا برخوردار ہے، کوئی اس کے نزدیک آیا تو یہ کریں گے، وہ کریں گے۔ ہاں کچھ مقامی بے حیثیت ممالک بھی اسرائیل کے پشت پناہ بن جاتے ہیں، جن کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، بس وڈیرے اور اس سے متعلقہ ہر چیز کی چاکری میں اپنی نام نہاد عزت محسوس کرتے ہیں۔

تعجب ہوتا ہے، وہ بھی ایران کے اسرائیل پر اعلانیہ حملے کا مذاق اڑا رہے ہیں، کہہ رہے ہیں، جو حملہ بتا کر کیا جائے، وہ کونسا حملہ ہے۔؟ یہ جن کی دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا، وہ اس غیرت مندانہ  فیصلے کو سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ جو دشمن چھپ کر حملہ کرے، اسے بزدل شمار کیا جاتا ہے اور سب کو بتا کر اعلانیہ حملہ کرنا بڑی جرات کا کام ہوتا ہے۔ امریکہ، فرانس، برطانیہ، اردن، سعودی عرب اور دیگر دسیوں ممالک نے براہ راست اپنی پوری قوت لگا دی، اس کے باوجود حملے کو مکمل روک نہیں سکے۔ ایک مستند رپورٹ ملاحظہ کریں:"امریکی آفیشلز نے ABC نیوز اور وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا ہے کہ پانچ ایرانی میزائلوں نے، جنوبی نیواتیم ایئربیس (اسرائیل) کو نشانہ بنایا ہے۔ ایک میزائل نے ایک ٹرانسپورٹ طیارہ تباہ کر دیا جبکہ باقی چار میزائلوں نے دوسری بیسز کو نشانہ بنایا ہے۔

اقوام متحدہ کے سابق ہتھیاروں کے ماہر سکاٹ رٹر کا کہنا ہے کہ ایران نے ٹھیک جواب دیا ہے۔ رٹر کی ٹویٹ کا اردو ترجمہ: "آنکھ کے بدلے آنکھ۔ ایران نے کم از کم سات نئے ہائپر سونک میزائلوں سے نیواتیم ایئر بیس کو نشانہ بنایا۔ نیواتیم F-35 لڑاکا طیاروں کا گھر ہے، جنہوں نے دمشق میں ایرانی قونصل خانے پر حملہ کیا۔ ایک بھی ایرانی میزائل کو روکا نہیں جاسکا۔ اب اس خبر کو ہضم کرو۔ اسرائیل کا دفاع فارغ ہے۔ یہ خبر بھی دیکھ لیں، ایران کے حملے کو جی-7 کی سربراہی کانفرنس نے “بے مثال” قرار دیا گیا ہے، جو دمشق میں اس کے قونصل خانے پر اسرائیل کے حملے کے جواب میں پہلا براہ راست حملہ ہے۔

معروف صحافی ثقلین امام نے لکھا کہ اس سے قبل ایران نے 13 اپریل کے حملے میں اپنی ٹیکنالوجیکل، فوجی حکمت عملی اور سفارتی چالوں کے ذریعے اپنی شہرت اور اثر و رسوخ کو مضبوط کیا ہے اور اسے مزید بڑھایا ہے۔ یہ ایک قابل ذکر پیش رفت ہے۔ حالیہ ایرانی حملے نے اسرائیل میں مشرق وسطیٰ کے طاقت کے توازن پر نئی بحث کو جنم دیا ہے اور امکان ہے کہ جلد ہی اس تبدیلی کو تسلیم کر لیا جائے گا۔ ثقلین امام صاحب نے بالکل درست لکھا ہے، اب اس کے اثرات دیرپا ہوں گے۔ اگر مسلم ممالک غیرت کریں تو فلسطین کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور اگر انہوں نے امریکی اور اسرائیلی کاسہ لیسی کو ہی اختیار کیا، جیسا کہ نظر آرہا ہے، وہ ایسا ہی کر رہے ہیں تو یہ تنازع مزید آگے بڑھے گا۔

مبشر زیدی امریکہ میں ہیں اور سکیورٹی حالات پر تجزیئے کرتے ہیں۔ انہوں نے  ایران کے اسرائیل پر حملے اور اس کے اثرات پر خوب لکھا، کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ایران کا مقصد اسرائیل کو جانی و مالی نقصان پہنچانا نہیں، صرف یہ بتانا تھا کہ ایرانی ہتھیار اسرائیلی حدود میں پہنچ سکتے ہیں۔ ذرا سوچیں کہ ایران کا ایٹمی وارہیڈ والا میزائل چل پڑے تو اردن یا کوئی اور ملک اسے اپنی فضا میں روکنے کی کوشش کرے گا؟ پھر اسرائیل اسے فضا میں نشانہ بنائے یا زمین پر گرنے دے، انجام ایک ہی ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایران کے پاس جوہری طاقت ہے؟ بظاہر تو نہیں ہے۔ لیکن "بظاہر" تو اسرائیل کے پاس بھی نہیں ہے۔ ایرانی حملے کے دو اثرات سامنے آسکتے ہیں۔ ایک، عرب ملکوں کے دل مضبوط ہوں گے اور وہ اسرائیل کے خلاف محاذ بنانے کا سوچیں گے۔ دو، عرب ملکوں کا یہ خوف بڑھ سکتا ہے کہ ان کے ایک طرف کنواں ہے اور دوسری طرف کھائی، یعنی وہ دو طاقتور دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ یہ احساس پہلے سے موجود ہے۔خدا کرے کہ ان کے دل مضبوط ہوں اور اسلامی اتحاد کی طرف آئیں۔

مغربی ممالک نے ایران کے اس جائز حملے کی مذمت کی ہے۔ وہی ممالک جو سفارتخانے پر حملے کی مذمت کے لیے تیار نہیں تھے، تمام اصول و ضوابط کو فالو کرکے کیے گئے حملے کی مذمت کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی جنگ کو شروع کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے امریکہ، برطانیہ اور جرمنی سمیت اسرائیل کے مغربی اتحادیوں نے اسے تحمل کا مشورہ دیا ہے۔ بظاہر اسرائیل بھی اسی کا دکھاوا کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سابق سفیر ڈینی ڈینن نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کا ملک ایران کے ساتھ "مکمل جنگ کا آغاز" نہیں کرنا چاہتا، لیکن سنیچر کو کیے گئے ڈرون اور میزائل حملے کے جواب میں "کارروائی کا دانشمندانہ طریقہ تلاش کرے گا۔" اس حملے کے اثرات آہستہ آہستہ سامنے آئیں گے، اسرائیل اور اس کے اتحادی اتنی آسانی سے طاقت کے توازن کو اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے، مگر مکمل حملے کی صورت میں مکمل جنگ کا خدشہ انہیں ایسا کرنے سے روکے رکھے گا۔
خبر کا کوڈ : 1128977
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
سلام
کالم کی ہیڈنگ تو ٹھیک کر دیجئے۔ "اسرائیل کا دفاع فارغ ہے" یہ ہیڈنگ درست نہیں۔
United States
دفاع فارغ ہے، کا کیا مطلب ہے؟
منتخب
ہماری پیشکش