1
Wednesday 26 Apr 2023 00:28

سوڈان کا بحران، اسرائیل اور مغربی طاقتیں

سوڈان کا بحران، اسرائیل اور مغربی طاقتیں
تحریر: ڈاکٹر سعداللہ زارعی
 
سوڈان میں جاری بحران سے متعلق چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ کرنل محمد حمدان دقلو یا حمیدتی کی سربراہی میں سوڈان کی ریپڈ ری ایکشن فورس 2003ء میں اس وقت تشکیل پائی جب عمر البشیر سوڈان کے صدر تھے اور ان کے خلاف بغاوت ہوئی تھی۔ یہ فورس سوڈان کے مغربی قبائل کے جنگجووں پر مشتمل ہے۔ اس وقت کرنل حمیدتی کو ڈارفور میں باغیوں کو کچلنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ لیکن بعد میں کرنل حمیدتی عمر البشیر کے مخالفین یعنی غاصب صیہونی رژیم، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے کیمپ میں شامل ہو گیا اور سوڈان آرمی کی مدد سے 11 اپریل 2019ء کے دن عمر البشیر کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دوسری طرف سوڈان کے آرمی چیف جنرل عبدالفتاح البرہان نے عمر البشیر کا تختہ الٹنے کے بعد وسیع پیمانے پر فوج میں تبدیلیاں کیں جن سے فوج کمزور ہوئی۔
 
2)۔ کرنل حمیدتی نے گذشتہ بیس برس کے دوران مرکزی حکومت سے ہٹ کر اپنے طور پر اسرائیل اور روس سمیت بعض مغربی اور عرب ممالک سے گہرے تعلقات استوار کئے۔ یہ تعلقات اقتصادی اور سکیورٹی شعبوں میں تھے۔ امریکہ اور یورپی ممالک کرنل حمیدتی کی حمایت کر کے ایک طرف سوڈان میں سونے کی کانوں پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں جبکہ دوسری طرف دریائے نیل، جو کئی اسلامی ممالک کی شاہرگ جانی جاتی ہے، پر صیہونی رژیم کے تسلط کا زمینہ فراہم کرنے کے درپے ہیں۔ مزید برآں، افریقی شاخ اور سوڈان کی زراعت پر اسرائیلی قبضے کو ممکن بنا کر خطے میں روز بروز طاقت پکڑتی اسلامی مزاحمت کا مقابلہ کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یاد رہے گذشتہ دو برس سے سوڈان میں سونے کی کانیں کرنل حمیدتی کے کنٹرول میں ہیں۔
 
متحدہ عرب امارات، جو عرب دنیا میں موجود تمام بحرانوں میں دکھائی دیتا ہے، سوڈان میں بھی اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم سے تعاون جاری رکھے ہوئے ہے۔ متحدہ عرب امارات نے کرنل حمیدتی سے بہت قریبی سکیورٹی اور اقتصادی تعلقات استوار کر رکھے ہیں اور سوڈان میں موجود سونے کے ذخائر پر نظریں جما رکھی ہیں۔ یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ مغربی ممالک، اسرائیل اور بعض عرب حکومتیں خود کو خرطوم میں ایک ایسی جارح قوت کا محتاج تصور کرتے ہیں جس کے ذریعے وہ سوڈان اور اس کے اردگرد ممالک میں اسلامی مزاحمت کے اثرورسوخ کا مقابلہ کر سکیں۔ لہذا انہوں نے سوڈان میں کرنل حمیدتی کو اس کام کیلئے چن لیا ہے کیونکہ ایک طرف کرنل حمیدتی کی زیر کمان فورسز جنرل برہان کی فوج سے زیادہ تجربہ کار ہیں جبکہ دوسری طرف انہیں شہری جنگ میں بھی زیادہ مہارت حاصل ہے۔
 
3)۔ اسرائیل کو اندرونی اور بیرونی سطح پر مسلسل ناکامیوں، خاص طور پر ابراہیم معاہدے کی ناکامی اور عرب ممالک سے سازباز پر مبنی منصوبے کی شکست کے بعد علاقائی سطح پر ایک ایسے موقع کی تلاش تھی جس سے فائدہ اٹھا کر گذشتہ ناکامیوں کا ازالہ کر سکے۔ یہ موقع اسے سوڈان میں فراہم ہو چکا ہے۔ اگرچہ کرنل حمیدتی اور جنرل برہان دونوں عوامی رائے عامہ کے برخلاف اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن کرنل حمیدتی اس بارے میں زیادہ جری ہیں۔ انہوں نے گذشتہ کئی سال سے اپنے بھائی کو اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا مشن سونپ رکھا ہے۔ وہ اب تک صیہونی رژیم کے حق میں کئی افریقی ممالک جیسے لیبیا اور یمن میں فوجی سرگرمیاں بھی انجام دے چکے ہیں۔ لہذا اسرائیل کرنل حمیدتی اور ان کی زیر کمان فورسز کو اپنے لئے سنہری موقع تصور کرتا ہے۔
 
4)۔ سوڈان کی حالیہ خانہ جنگی میں جنرل عبدالفتاح برہان کے مقابلے میں کرنل حمیدتی کی پوزیشن بھی زیادہ مضبوط ہے۔ کرنل حمیدتی رزقیات قبیلے کے سربراہ ہیں جو سوڈان میں موجود کل 117 قبائل میں سے طاقتور ترین دس قبائل میں شامل ہے۔ گذشتہ 70 سال کے دوران رزقیات قبیلے اور ختمیہ قبیلے کے درمیان طاقت کی رسہ کشی رہی ہے اور حکومت انہی دو قبیلوں میں گھومتی رہی ہے۔ سوڈان میں سونے کی کانوں والے علاقوں پر کرنل حمیدتی کا قبضہ ان کیلئے بڑا نقطہ قوت سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب سوڈان کی معیشت کا 40 فیصد حصہ سونے سے حاصل آمدن پر منحصر ہے۔ کرنل حمیدتی نے اب تک ہمیشہ امریکہ، اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے مفادات کیلئے کام کیا ہے۔ یوں وہ ان کی نظر میں بہترین آپشن ہیں۔
 
5)۔ اگرچہ کرنل حمیدتی کو امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس، اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم اور متحدہ عرب امارات کی بھرپور سیاسی، مالی اور فوجی حمایت حاصل ہے لیکن وہ اب تک دارالحکومت میں اہم مراکز پر اپنا قبضہ جمانے میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ خانہ جنگی میں انہوں نے صدارتی محل، ٹی وی اسٹیشن، ریڈیو اسٹیشن اور ایئرپورٹ جیسی حساس تنصیبات پر قبضہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ دارالحکومت کے علاوہ سوڈان کے دیگر شہروں کی صورتحال فی الحال پرامن ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آئندہ ہفتوں میں بھی ایسا ہی رہے گا۔ اگر جھڑپوں کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے تو بیرونی مداخلت کا امکان بھی بڑھ جائے گا۔ موجودہ صورتحال میں سوڈانی عوام خاص طور پر اسلام پسند قوتیں غیر جانبداری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ لیکن انہیں قومی سلامتی اور ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کیلئے میدان میں آنا چاہئے۔
خبر کا کوڈ : 1054306
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش