0
Tuesday 25 Oct 2011 12:04

اسلامی نظریاتی کونسل تعارف، ڈھانچہ اور ذمہ داریاں

اسلامی نظریاتی کونسل تعارف، ڈھانچہ اور ذمہ داریاں
تحریر:سید ذکی عباس 
اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جو مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو قوانین کے بارے میں بتاتا ہے کہ آیا یہ قوانین قرآن و سنت سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل 1962ء کے آئین کی اسلامی دفعات کے نتیجے میں آرٹیکل 204 کے تحت بنایا گیا۔ اس وقت اس ادارے کا نام ’’اسلامی مشاورتی کونسل ‘‘ رکھا گیا۔
1973ء کے آئین کے مطابق اس ادارے کا نام تبدیل کر کے اسلامی نظریاتی کونسل رکھ دیا گیا۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 228 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈھانچے کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 228 کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران آٹھ سے کم نہیں ہوں گے اور 20 سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ ممبران کا تقرر صدر پاکستان کی صوابدید پر ہو گا اور وہ ایسے افراد کو نامزد کریں گے جو اسلامی قوانین اور فلسفے کو قرآن پاک اور سنت نبوی ص کے تحت سمجھتے ہوں اور انھیں پاکستان کے اقتصادی، معاشی، معاشرتی، سیاسی اور انتظامی معاملات کے زمینی حقائق کے بارے میں مکمل آگاہی ہو۔
اسی طرح 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 229 اور آرٹیکل 230 میں اسلامی نظریاتی کونسل کے مقاصد اور اس کی عملداری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کو صدر، صوبے کے گورنر یا وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کی 2/5اکثریت اگر کسی قانون کی شرعی و غیر شرعی حیثیت کے بارے میں پوچھے تو اسے متعلقہ ادارے کو پندرہ یوم کے اندر جواب دینا ہو گا۔ اگر صدر ، گورنر یا اسمبلی یہ سمجھے کہ یہ قانون انتہائی اہم نوعیت کا ہے تو اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے جواب کا انتظار کیے بغیر بھی اس آئین کو منظور کیا جاسکتا ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے جواب آنے کے بعد آئین پر نظرثانی کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کے 1973ء کے آرٹیکل 230 کے کلاز 4 میں یہ بات درج ہے کہ اپنے قیام کے سات سال کے اندر یہ ادارہ مجلس شوریٰ کو اپنی رپورٹ پیش کرے گا اور اس کے بعد ہر سال دونوں ایوانوں اور صوبائی اسمبلیوں کو اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔ اس آرٹیکل کے مطابق دونوں ایوان اور تمام صوبائی اسمبلیاں رپورٹ موصول ہونے کے چھ ماہ کے اندر اندر اس رپورٹ پر بحث کرنے کی مجاز ہیں۔ رپورٹ کی وصولی کے دو سال کے دورانیہ میں وفاقی و صوبائی مجالس شوریٰ ان سفارشات کی روشنی میں آئین سازی کریں گی، جو رپورٹ میں پیش کی جائیں گی۔
26 ستمبر 1977ء کو ضیاء الحق کے دور حکومت میں اس کونسل کی دوبارہ تشکیل ہوئی۔ ضیاء الحق کی اس کونسل کی تاریخی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ اس کے 17 ممبر ضیاء الحق کے نامزد کردہ تھے۔ 11 ممبران جو جید علما تھے، کا تعلق مختلف مسالک سے تھا۔ دو ممبران جج تھے اور دو ممبران قانونی ماہر تھے۔ 26 ستمبر 1977ء تک کونسل کا دفتر لاہور میں تھا۔ اس کے بعد یہ دفتر اسلام آباد میں منتقل ہو گیا اور ستمبر 1995ء میں کونسل کا دفتر اپنی ذاتی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔
1962ء سے لے کر اب تک کونسل نے 72 سے زائد رپورٹیں مجلسِ شوریٰ کو دی ہیں اور بہت سے قوانین کے لیے سفارشات کی ہیں۔ اس ادارے کی اب تک تقریباً 156 میٹنگز ہو چکی ہیں۔
29 ستمبر 1977ء سے 20 دسمبر 1978ء تک اس کونسل نے اقتصادی، تعلیمی، معاشی اور ذرائع ابلاغ سے متعلق قوانین کے ڈرافٹ تیار کیے۔ ان خصوصی شعبہ جات کے علاوہ کونسل نے عدلیہ کے ساتھ ساتھ عمومی معاملات پر بھی اپنی سفارشات مجلس شوریٰ کو بھجوائیں۔
ان قوانین کی ڈرافٹنگ کے سلسلے میں کونسل نے شام کے سابق وزیراعظم، ورلڈ مسلم لیگ کے پریذیڈنٹ اور سعودی شاہ خالد بن عبدالولید کے ایڈوائزر ڈاکٹر ماروف ال دوالبی (Dr.Ma'ruf Al Dawalibi) سے مدد لی گئی۔ ان قوانین کی ڈرافٹنگ پہلے عربی زبان میں کی گئی، اس کے بعد اردو اور انگریزی میں تراجم ہوئے۔ بدقسمتی سے اب تک اس شوریٰ کی جانب سے بھیجی گئی کسی رپورٹ کو دونوں ایوان نمائندگان میں بحث میں نہیں لایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ادارہ خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہو سکا، جس کی اس سے امید کی جا رہی تھی۔
اسلامی نظریاتی کونسل پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ یہ ادارہ اسلامائزیشن کے لیے بنایا گیا تھا مگر اس میں تمام مکاتب فکر کو نمائندگی نہیں دی جاتی۔ اس اعتراض کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کو نامزد کیا جاتا ہے ان مسالک کے افراد ان کو اپنا نمائندہ نہیں سمجھتے اور ان کی نامزدگی پر اعتراضات کرتے ہیں۔
حال ہی میں صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے وزیراعظم کی سفارش پر آٹھ اہم شخصیات کو اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن منتخب کیا۔ ان شخصیات میں علامہ سید افتخار حسین نقوی (پنجاب)، مولانا زبیر احمد ظہیر (پنجاب)، صاحبزادہ پیر خالد سلطان القادر (بلوچستان)، مفتی محمد اقبال حسین شاہ فیضی (سندھ)، سید فیروز جمال شاہ (کے پی کے)، جسٹس (ریٹائرڈ) مشتاق اے میمن (سندھ) اور قاری محمد حنیف جالندھری (پنجاب) شامل ہیں۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے ان نامزد ارکان کو دینی مدارس میں بہتری لانا ہو گی، تاکہ ایسے جید علماء پیدا کیے جاسکیں جو دینی و دنیاوی تعلیم میں ماہر ہوں اور قانون سازی میں اہم کردار ادا کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پارلیمان کی یہ بھاری ذمہ داری ہے کہ وہ کونسل سے قانون سازی کے عمل میں مشاورت کرے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے بھیجی جانے والی رپورٹس پر پالیمان کے سیشن میں بحث کرے اور کونسل کی طرف سے پیش کردہ سفارشات کی روشنی میں آئین سازی کرے۔
خبر کا کوڈ : 109083
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش