3
1
Saturday 10 Feb 2024 03:14
پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کا ایم ڈبلیو ایم میں شمولیت کا امکان

علامہ راجہ ناصر کی کامیاب سیاسی حکمت عملی پر ایک نظر

وفاق میں ایم ڈبلیو ایم کی حکومت کے واضح امکانات
علامہ راجہ ناصر کی کامیاب سیاسی حکمت عملی پر ایک نظر
رپورٹ: علی احمد واحد

معروف ٹی وی اینکر، صحافی اور تجزیہ کار ندیم ملک نے کہا ہے کہ کرم مجلس وحدت مسلمین کو قومی اسمبلی کی ایک نشست جتنے سے جو کامیابی ملی ہے، یہ پاکستان تحریک انصاف کے لیے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ معروف صحافی نے الیکشن ٹرانسمشن کے دوران جب کرم سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 37 سے مجلس وحدت مسلمین کے امیدوار حمید حسین کی کامیابی کی خبر سنی تو بے ساختہ کہا کہ حمید حسین نے مجلس وحدت مسلمین کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور انہیں پاکستان تحریک انصاف کی مکمل حمایت حاصل تھی، یہ یہ رکن اسمبلی پی ٹی آئی کے لیے نہایت اہم ہیں۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف نے اپنے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو مشاورت کے بعد کسی دوسری جماعت (ایم ڈبلیو ایم) میں شامل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس کی باقاعدہ منظوری کور کمیٹی کے اجلاس میں دی جائے گی۔ 

ذرائع نے بتایا ہے کہ پارٹی کی اعلٰی قیادت نے پارٹی کے جیتے ہوئے آزاد اُمیدواروں کو دوسری جماعت میں شامل کرنے کے لیے باقاعدہ مشاورت مکمل کر لی ہے اور یہ فیصلہ سیاسی اور پارٹی کے بہتر مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مشاورت مکمل کرنے کے بعد اب اس کی باقاعدہ منظوری کے لیے معاملہ کور کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ پارٹی ذرائع نے مزید بتایا ہے کہ اہم امور پر مشاورت اور فیصلےکے لیے کور کمیٹی کا اجلاس ہفتہ کے روز اسلام آباد میں طلب کیا گیا ہے، جس کے لیے بیرسٹر گوہر علی خان آبائی گاؤں بونیر سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا چاہے گی، جس کا پارلیمان اور صوبے میں کوئی مضبوط وجود نہ ہو تاکہ پی ٹی آئی پارلیمانی سیاست میں فیصلوں کرنے میں آزاد ہو اور بلیک میل نہ ہو۔ ماضی میں ایسا ہو بھی چکا ہے،  فاٹا انضمام کے قبائلی اضلاع میں انتخابات ہوئے تو ضلع خیبر سے شاہ جی گل آفریدی کے خاندان سے 2 امیدوار کامیاب ہوئے جو بعد میں بلوچستان کی باپ پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور خواتین کی مخصوص نشست بھی حاصل کر لی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے پی ٹی آئی اب بھی ایسا ہی کر رہی ہے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف کے پاس زیادہ وقت اور آپشنز نہیں ہیں۔ ان کی اپنی جماعت میں دوبارہ انٹر پارٹی الیکشن نہیں ہوئے اور الیکشن کمیشن قوانین کے مطابق مقررہ مدت میں ان کے منتخب ہونیوالے اراکین کو فیصلہ کرنا ہو گا۔ بہترین آپشن یہی ہے کہ کسی دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کریں اور حکومت بنا لیں۔ دوسری جماعت میں شمولیت سے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں ملیں گی اور ان کے اراکین وفاداریاں تبدیل نہیں کر سکیں گے، ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر پی ٹی آئی نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ پی ٹی آئی ذرائع نے بتایا کہ کور کمیٹی میٹنگ کے فوراً بعد باقاعدہ اعلان کیا جائے گا، کور کمیٹی اجلاس میں شیر افضل مروت بھی شرکت کریں گے۔ واضح رہے کہ ایم ڈبلیو ایم میں پی ٹی آئی کے منتخب شدہ اراکین کی شمولیت سے مجلس وحدت مسلمین وفاق میں حکومت بنائے گی، مخصوص نشستوں پہ اپنے اراکین کی ایک تعداد قومی اسمبلی میں لانے میں کامیاب ہو جائیگی اور وفاقی کابینہ میں ایم ڈبلیو ایم کی نمائندگی ہو گی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ علامہ راجہ ناصر عباس اور ان کی رفقا کی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے مجلس وحدت مسلمین ایک چھوٹی جماعت ہونیکے باوجود نمایاں ترین حیثیت میں سامنے آئی ہے۔ جب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت رجیم چینج آپریشن کے ذریعے گرائی گئی ہے، علامہ راجہ ناصر عباس نے ہر موقع پر عمران خان کیساتھ کھڑے ہو کر حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح ایم ڈبلیو ایم نے پاکستان تحریک انصاف کیساتھ ایک سیاسی معاہدہ میں سائن کیا، پی ٹی ائی کے کارکنوں اور قائدین کیخلاف سخت ایکشن شروع ہوا تو علامہ راجہ ناصر عباس نے گرفتاری دی، جب عمران خان کو مقدمات میں پھنسا کر نااہل قرار دیا گیا تب ان کی حمایت میں بیانات جاری کیے، رجیم چینج آپریشن کو ملکی وقار اور قومی غیرت کے منافی قرار دیتے ہوئے عمران خان کو پاکستان کا مستقبل قرار دیتے رہے۔ حال ہی میں الیکشن سے قبل انہوں نے جیل میں عمران خان سے ملاقات کی اور عمران خان کو دلیر، شجاع اور بابصیرت لیڈر قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے رہنے کے موقف کو دہرایا۔ 

علامہ راجہ ناصر عباس کی طرف سے عمران خان کی کھلی اور مسلسل حمایت پر ان کے مسلکی حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور تکفیری ٹولے نے پی ٹی آئی کو مطعون کیا۔ ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس کی پی ٹی آئی اور عمران خان کی مکمل حمایت کے متعلق مبصرین نے اسے ان کی کامیاب سیاسی حکمت عملی قرار دیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ملکی وقار کے لیے عمران خان کے امریکہ اور یورپ کو ابسولوٹیلی ناٹ کہنے پر حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے عمران خان کے اس جملے کو عرب سربراہوں کے لیے مثال قرار دیتے ہوئے انہیں اس کی پیروی کرنیکا کا بیان جاری کیا۔ اسی طرح جب عمران خان کی حکومت قائم ہوئی تو حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بننے والی نئی حکومت یمن، امریکہ اور فلسطین کے معاملے پر مناسب پالیسی اختیار کریگی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ اساسی نکتہ ہے، جس وجہ سے ایم ڈبلیو ایم نے عمران خان کیساتھ سیاسی اتحاد کیا اور ساتھ دیا۔ 

دوسری جانب پاکستان میں اڈے دینے سے متعلق عمران خان کے انکار اور مقاومتی محاذ کی فلسطین پر پالیسی اور جد و جہد کی تائید میں اسرائیل کے بارے میں کھل کر موقف بیانات کو بھی اہمیت حاصل رہی۔ اسی طرح پاکستان میں عمران خان کی بے مثال عوامی حمایت اور خود عمران خان کی استقامت نے امریکی اور سعودی لابی کے ہوش ٹھکانے لگا دیئے۔ رہی سہی کسر علامہ راجہ ناصر عباس کی عمران خان اور بعد میں تکفیری بل پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے اور قومی اسمبلی سے منظور ہونیکے بعد صدر عارف علوی کیساتھ تصاویر نے نکال دی۔

اس دوران ایم ڈبلیو ایم کو اس سے بہت زیادہ سیاسی فائدہ ہوا، مجلس وحدت مسلمین اپنے اصولی موقف سے بھی نہیں ہٹی۔ راجہ ناصر عباس، عمران خان کے اتنے قریب ہو گئے کہ تکفیری ٹولہ پی ٹی آئی کے سیاسی وزن کو، وسیع اور مضبوط ووٹ بینک ہونے کے باوجود، اپنے حق میں استعمال کرنیکی پوزیشن میں نہیں رہا، شیعہ عمامہ پوش لیڈر کی موجودگی میں ان کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی کہ وہ پی ٹی آئی سے سیاسی اتحاد، سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا عارضی بھائی بندی بنا سکیں۔ اسی طرح شیعہ ووٹر بالخصوص شیعہ یوتھ کی حمایت بھی عمران خان کی وجہ سے ایم ڈبلیو ایم کو مل گئی۔ اب اس بات کا واضح امکان ہے کہ ایم ڈبلیو ایم حکومت تشکیل دے، اگر ایسا نہ بھی ہو تو یہ پاکستان کی تاریخ میں منفرد سیاسی کامیابی ہے، جس کی نظیر تحریک پاکستان کی کامیابی میں اہل تشیع کے نمایاں کردار سے کم نہیں۔ مسئلہ پاکستان کی بقا، استحکام اور غلطیوں کی نشاندہی کیساتھ ملکی اداروں اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی اور فرقہ واریت سے پاک پاکستان کے حوالے سے شیعہ قیادت کے عمدہ اور موثر کردار کا ہے، جس میں علامہ ناصر عباس جعفری کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔
خبر کا کوڈ : 1115198
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
سلام
غلط بیانی سے گریز کیا جائے۔ کرم کی نشست پہلے بھی یہاں کی اکثریتی آبادی کے نمائندے کے پاس تھی۔ جس پارٹی کا نمائندہ جیتتا تھا، اس کے ساتھ راجہ صاحب اسلام آباد رالپنڈی میں ساتھ بیٹھتے رہے اور پی ٹی آئی کا کوئی کریڈٹ نہیں، آپکی اکثریتی آبادی میں آپکی سیٹ جتوانے میں۔ یہ بلاوجہ کی مشہوری نہ کریں۔ اگر یہ مجلس وحدت کا اپنا ہے تو بہت اچھی بات ہے اور مبارکباد بنتی ہے، لیکن اگر پی ٹی آئی والے کو خیمہ نشان سے جتوایا گیا ہے تو پھر کوئی فرق نہیں پڑتا، سیٹ ہماری نہیں ہے یہ۔ یہ وہاں کے لوگ بتائیں کہ کیا دونوں امیدوار مجلس وحدت کے اپنے ہیں یا پی ٹی آئی کے لوگوَں کو جتوایاگیا ہے۔ دوسرا یہ کہ اس مرتبہ الحمدللہ راجہ صاحب اینڈ کمپنی اور کمپنی میں انکے دوستوں سرپرستوں پر اتنا دبائو بڑھ گیا تھا کہ شیعہ اسلامی نشان پر شیعہ جماعت کو اکا دکا نشست پر کامیابی سے روکنے کی دھاندلی کرنے سے باز رہے۔
عمران خان نے میڈیا انٹرویو میں ابسولیوٹلی ناٹ کہا تھا، جو میٹنگوں میں ابسولیوٹلی ناٹ کہہ چکا تھا، وہ بھی جیت چکا ہے۔
Iran, Islamic Republic of
ما شاء اللہ
بڑھتے رہیں یونہی قدم
حی علی خیر العمل
قائد وحدت کی بصیرت کو سلام
United Kingdom
اتفاقات کو حکمت عملی کا نام دینا سمجھ سے بالا تر ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
ہماری پیشکش