0
Monday 12 Feb 2024 15:44

مسئلہ فلسطین اور انقلاب اسلامی ایران

مسئلہ فلسطین اور انقلاب اسلامی ایران
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

مسئلہ فلسطین امت مسلمہ کا دیرینہ ترین مسئلہ ہے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمے اور برطانوی استعمار کے قبضے کے بعد فلسطین میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جانے لگا۔ مسلمان علاقوں کو جان بوجھ کر پسماندہ اور تعلیم سے دور کھا گیا۔مسلمان بطور امت بکھر چکے تھے اور ان کا اقتدار زوال کا شکار ہو چکا تھا۔ امت کے سچے رہنماؤں کی جگہ مفاد پرستوں نے لے لی تھی۔ عرب خطے کو چھوٹے چھوٹے خطوں میں تقسیم کردیا گیا تھا اور ان پر اپنے فرمانبردار لوگوں کو حکمران بنا دیا گیا تھا۔ ان لوگوں کو کسی چیز سے کوئی غرض نہیں تھی یہ صرف اپنی حکومتوں کا استحکام چاہتے تھے۔ آپ دیکھ لیں اردن نے اسرائیل کے خلاف اتنا اسلحہ استعمال نہیں کیا جتنا اسلحہ خود فلسطینیوں کےخلاف استعمال کیا۔ مصر نے بھی فلسطینیوں کی مخبریاں ہی کی ہیں اور اتنے شدید حالات کے باوجود صرف اسرائیلی اجازت سے ہی بارڈر سے کچھ سامان جانے دیا ہے۔

آپ غلامی کی حد دیکھیں کہ فلسطین اور مصر کا بارڈر ہے مگر وہ کھلتا اسرائیل کی مرضی سے ہے۔ اس میں کون سا ٹرک جائے گا اور کسے اجازت نہیں ہے؟ اس کا فیصلہ اسرائیل کرتا ہے۔ مصر بھوکے ننگے فلسطینیوں کو پانی اور کپڑے دینے کے لیے بھی تیار نہیں ہے، مصر نے خود تو کیا دینے تھے جو پوری امت نے بھجوائے ہیں انہیں بھی گزرنے نہیں دیا جا رہا۔ اپنوں کی سادگی اور غیروں کی عیاری کی وجہ سے اسرائیل ن  تیزی سے ڈیموگرافی تبدیل کی۔ اس وقت کوئی موثر آواز نہ تھی کچھ کوششیں ہوئیں صرف قارئیں کی یاد دہانی کے لیے عرض کیے دیتا ہوں کہ دنیا بھر کے مسلمان اس وقت بھی اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے کوشاں تھے۔ آپ قرارداد پاکستان کو مکمل پڑھیے آپ کو پتہ چلے گا کہ غلام ہندوستان کے آزادی پسند مسلمانوں نے اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود برطانوی استعمار سے یہ مطالبہ کیا تھا۔

ہندوستان کے مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے اور ان کے حوالے کیا جائے اس میں کوئی خیانت نہ کی جائے، قبلہ اول مسلمانوں کی میراث ہے اور اس کی بندر بانٹ کسی صورت میں قبول نہیں ہے۔ ان تمام ترکوششوں کا کیا نتیجہ نکلا؟ ہمیشہ کی طرح مسلمانوں کی آواز کو ہوا میں اڑا دیا گیا اور ان کے جذبات کا کوئی خیال نہ رکھا گیا۔ مسجد اقصی کو آگ لگنے کا واقعہ ہوتا ہے تو مسلمان امت میں ایک حرکت پیدا ہوتی ہے۔ قریب تھا کہ مسلمان کوئی اقدام کریں، استعمار ی نظام کے محافظ اکٹھے ہوتے ہیں اور او آئی سی کے نام سے ایک تنظیم بنا دی جاتی ہے۔اس تنظیم کی امت مسلمہ کے لیے کل خدمت یہ ہے کہ اس نے ہر معاملے میں مسلمانوں کو مایوس و رسوا کیا ہے۔ دنیا اس کے اجلاسوں اور اس کی قراردادوں کو سیریس ہی نہیں لیتی۔ اس کا کام اب ایک دو عرب ممالک کے مفادات کا تحفظ رہ گیا ہے۔

ان حالات میں انقلاب اسلامی ایران آتا ہے اور امام خمینیؒ سب سے پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ اسرائیل کے سفارت کاروں کو نکال دیا جاتا ہے اور اسرائیلی سفارتخانہ اہل فلسطین کے حوالے کردیا جاتا ہے کہ یہ فلسطین کے اصل مالک ہیں۔ اس کے بعد ایران کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون فلسطینیوں کے حمایت  قرار پاتا ہے۔ امام خمینیؒ فرماتے تھے کہ اگر تمام مسلمان ملکر اسرائیل کی طرف ایک ایک بالٹی پانی پھینک دیں تو یہ سیلاب میں بہہ جائے گا۔ اس کے بعد فلسطینیوں کی مدد کا آغاز ہوتا ہے۔ اسرائیل لبنان پر قابض تھا ایسی حکمت عملی تشکیل دی جاتی ہے کہ اہل لبنان اپنے ملک کو آزاد کرائیں۔ امل کے نام سے ایک تحریک موجود ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حزب اللہ کے نام سے نئی جماعت بنائی جاتی ہے۔ یہ جماعت بڑے بڑے کارنامے انجام دیتی ہے اور اپنے ملک سے اسرائیل  کے قبضے کو ختم کرانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ اسرائیل کو مسلسل فلسطین ہڑپ کرنے سے روکتی ہے۔

آج اہل یمن نے بحر احمر کو اسرائیلیوں کے لیے بند کر رکھا ہے۔ اسرائیلی تجارت اور اسلحہ کی ترسیل بند ہو چکی ہے۔ یہ حوثی کون ہیں؟ ان کے خلاف پروپیگنڈا تک کیا گیا کہ یہ ایران کی شہ پر مکہ اور مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں۔ ہم اس وقت بھی دہائی دیتے رہے مگر جہاں دولت کی چمک ہو وہاں حقیقت اندھیروں میں چلی جاتی ہے۔ آج اہل یمن کا کردار چودہویں کے چاند کی طرح واضح ہوچکا ہے۔ ملت اسلامیہ دیکھ رہی ہے کہ حرمین کا محافظ کون ہے اور حرمین کے دشمنوں بالخصوص قبلہ اول کے غاصبوں کا ساتھی کون ہے؟ اہل یمن کی ناکہ بندی کو ناکام کرنے کے لیے دبئی اور اردن سامنے آئے ہیں اور اب اسرائیل جانے والا سامان براستہ اردن اور پھر دبئی سے دنیا کی طرف آ جا رہا ہے۔ بقول شاعر:
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

عراق کی مزاحمتی تنظیمیں اسرائیل پر حملہ کر رہی ہیں۔ ان کے خلاف آئے روز حملے ہو رہے ہیں اور ان کے درجنوں لوگ شہید ہو چکے ہیں، انہوں نے اسرائیل کے لیے زمین کو گرم کیا ہوا ہے۔ یہ لوگ اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر جنگ میں کود گئے ہیں۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ انہیں اہل فلسطین کی حمایت کی قیمت ادا کرنی پڑے گی مگر پھر بھی مظلوم کی حمایت میں میدان عمل میں ہیں۔ حزب اللہ تو پہلے دن سے میدان عمل میں ہے۔ حزب اللہ نے پوری جنگ نہیں چھیڑی اور ایسی حکمت عملی اپنا رکھی ہے جس میں ایک ماہ بعد حساب کتاب کیا جاتا ہے تو حزب اللہ اسرائیل کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا چکی ہوتی ہے اور فوجیوں کی بڑی تعداد کو انگیج کر رکھا ہے۔ اب تک سینکڑوں کی تعداد میں شہداء قبلہ اول کی آزادی اور اپنے فلسطینی بھائیوں کی حمایت میں لڑتے ہوئے شہید ہو چکے ہیں۔

اہل فلسطین کو اسرائیل جب چاہتا تھا روند دیتا تھا۔ فلسطینیوں کے پاس لڑنے کے لیے غلیل اور پتھر ہی ہوتے تھے۔ اب یہ اپنے میزائل اور راکٹ بنا رہے ہیں اور ان کے ڈرونز نے بھی تباہی مچا رکھی ہے۔ آپ کے خیال میں اہل فلسطین کو یہ اسلحہ اور یہ قوت مغرب یا خطے کے عرب ممالک نے اپنے تحفظ کے لیے دی ہے؟ وہ عرب ممالک جو پانی اور کھانا اسرائیل سے پوچھے بغیر نہیں دے رہے وہ اسلحہ اور تربیت خاک دیں گے۔ یہ سب اسلامی انقلاب کے برکات ہیں کہ وہ اسرائیل جو چھ دن میں پوری عرب دنیا کو پچھاڑ دے اب چار ماہ میں بھی غزہ کو فتح نہیں کر سکا۔
خبر کا کوڈ : 1115712
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش