0
Wednesday 14 Feb 2024 17:26

ڈونلڈ ٹرمپ اور نیٹو آمنے سامنے

ڈونلڈ ٹرمپ اور نیٹو آمنے سامنے
تحریر: سید رضا میر طاہر

امریکہ کے سابق صدر اور اس ملک کے آئندہ صدارتی انتخابات کے لیے ریپبلکن پارٹی کے مضبوط امیدوار "ڈونلڈ ٹرمپ" نے خبردار کیا ہے کہ جو ممالک نیٹو معاہدے کی لاگت کے حوالے سے اپنا مالی حصہ ادا کرنے کے لیے کافی تعاون نہیں کرتے نیٹو کے ان ارکان کے ساتھ۔ روس جو چاہے کرے کرسکتا ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ جنوبی کیرولائنا میں ہفتہ (10 فروری) کو ایک سیاسی ریلی سے خطاب کے دوران، ٹرمپ نے کہا: نیٹو رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں، ایک "بڑے ملک" کے صدر نے ان سے پوچھا: "جناب، اگر ہم نیٹو میں اپنا مالی جصہ نہیں ڈالتے اور روس ہم پر حملہ کردیتا ہے تو کیا آپ اس معاملے میں ہمارا ساتھ دیں گے؟" میں نے اس سے کہا، "آپ نے ادائیگی نہیں کی؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ قصوروار ہیں؟ میں آپ کی حمایت نہیں کروں گا۔

میں ان کی حوصلہ افزائی اور حمایت کروں گا کہ وہ آپ کے ساتھ جو چاہیں کریں، آپ کو ادائیگی کرنی ہوگی، آپ کو اپنے بل ادا کرنے ہوں گے۔" گزشتہ ماہ ٹرمپ نے لاس ویگاس میں اپنے حامیوں سے کہا: "امریکہ نیٹو کے لئے ادائیگی کرتا ہے حالانکہ اس سے ہمیں زیادہ فائدہ نہیں ملتا، اگر ہمیں نیٹو کے رکن ممالک کی کبھی مدد کی ضرورت پڑی یا فرض کریں کہ ہم پر حملہ کیا جائے تو مجھے نہیں لگتا کہ یورپی ہماری مدد کے لیے آئیں گے۔ "

نیٹو ارکان پر روس کے ممکنہ حملے کے حوالے سے ٹرمپ کے نئے موقف اور اس بارے میں امریکہ کی بے حسی نے ایک بار پھر نیٹو اور اس کے ارکان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کے مسئلہ کو اہم ایشو بنا دیا ہے۔ اپنی صدارت کے دوران، ٹرمپ نے بارہا شمالی اوقیانوس معاہدہ تنظیم (NATO) کے ارکان پر الزام لگایا کہ انہوں نے اپنی مجموعی قومی پیداوار کا دو فیصد حصہ دفاع کے لیے مختص نہیں کیا اور نیٹو کے اخراجات میں خاطر خواہ تعاون نہیں کیا۔ اس کے علاوہ، ٹرمپ نیٹو کو بھی ایک فرسودہ تنظیم سمجھتے تھے جو اب مفید نہیں رہا۔

ٹرمپ نے اس فوجی تنظیم کے یورپی ممبران کی شرکت خاص کر اس کے اخراجات فراہم کرنے اور فوجی امور کے لیے کافی فنڈز مختص کرنے کے بارے میں بارہا شکایت کی ہے۔ ٹرمپ نے بارہا تنقید کی ہے کہ امریکہ غیر منصفانہ طور پر نیٹو کو اپنے حصے سے زیادہ رقم دیتا ہے۔ مارچ 2018ء کے اواخر میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نیٹو کے کم از کم 10 رکن ممالک کے سربراہان کو الگ الگ خطوط میں خبردار کیا کہ وہ اپنی جی ڈی پی کا کم از کم 2 فیصد فوجی اخراجات پر خرچ کرنے کے وعدوں کو نظر انداز نہ کریں۔ ان خطوط میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ "وہ مزید ان ممالک کی طرف سے فوجی اخراجات اور نیٹو کے اخراجات کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص کرنے کی کمی کو برداشت نہیں کریں گے۔"

ڈونلڈ ٹرمپ، جو نومبر 2024ء کے صدارتی انتخابات کے لیے ریپبلکن پارٹی کے حتمی امیدوار ہیں اور ان کا ذکر نومبر کے انتخابات جیتنے کے مختلف پولز میں نمایاں ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی تقریر میں ایک بار پھر امریکہ کے اس مسئلے پر تاکید کی ہے اور کہا ہے کہ اگر وہ دوبارہ منتخب ہوگئے اور یورپی ممالک نے مغربی عسکری تنظیم ناٹو کے اخراجات میں حصہ ڈالنے کی ان کی درخواست کو نظر انداز کیا تو وہ نیٹو ارکان کے خلاف ممکنہ روسی حملے کی صورت میں ردعمل ظاہر نہیں کریں گے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ اجتماعی اور مشترکہ دفاع کا اصول نیٹو کا مرکزی نقطہ ہے، جس کا ذکر اس تنظیم کے آئین کے آرٹیکل 5 کی شکل میں موجود ہے۔

اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے: "اس معاہدے کے فریقین اس بات پر متفق ہیں کہ یورپ یا شمالی امریکہ میں کسی ایک یا زیادہ رکن ممالک کے خلاف مسلح حملہ ان سب کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا۔" اس آرٹیکل کے تسلسل میں، اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اگر اتحاد کے ارکان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا جاتا ہے، تو نیٹو کو "شمالی بحر اوقیانوس کے علاقے کی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے مسلح  اور مکمل فوجی قوت کے استعمال کے زریعے ضروری کارروائی" کرنی ہوگی۔ اس معاملے میں ٹرمپ کے حالیہ متنازعہ موقف کے خلاف اہل مغرب میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے:

وائٹ ہاؤس کے ترجمان اینڈریو بیٹس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے تبصروں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا: "قاتل حکومتوں کو اپنے قریبی اتحادیوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دینا پاگل پن اور خوفناک ہے اور اس سے امریکہ کی قومی سلامتی، عالمی استحکام اور ہماری معیشت کو اندر سے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔" تاہم ٹرمپ کے بیانات پر سب سے زیادہ اور سخت ردعمل یورپیوں میں سامنے آیا ہے۔ نیٹو کے سکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر تنقید کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ نیٹو کے کسی بھی ایسے رکن کی مدد نہیں کریں گے جو اپنی مالی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا، چاہے اس پر روس کی طرف سے حملہ ہو۔ "

نیٹو اتحادیوں کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات کے بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے تنقیدی بیانات کے بعد یورپی کونسل کے صدر چارلس مشیل نے فوری طور پر یورپی یونین کی اسٹریٹجک خود مختاری حاصل کرنے اور دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی کے بارے میں جرمن اعلیٰ حکام کی بڑھتی ہوئی تشویش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا: ’’برلن اور دیگر یورپی دارالحکومتوں میں غیر رسمی بات چیت جاری ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ان مذاکرات کا محور نیٹو کی ممکنہ تحلیل ہے،  یہ سوچ فروری 2022ء میں یوکرین پر روس کے حملے کے وقت سے 180 درجے مختلف ہے، جس میں اتحاد پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔

اس ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف امریکہ اور وائٹ ہاؤس کے اندر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے اور ملکی اور غیر ملکی میدانوں میں ان کے اقدامات کے بارے میں تشویش پائی جاتی ہے بلکہ واشنگٹن کے یورپی شراکت داروں کو بھی ویسے ہی خدشات لاحق ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ٹرمپ کا دوبارہ صدر منتخب ہونا  نہ صرف امریکہ اور یورپی تعلقات میں ایک بار پھر دراڑیں ڈالنے کا باعث بنے گا بلکہ  اس سے بھی بڑھ کر، نیٹو کے بارے میں ٹرمپ کے نقطہ نظر کی وجہ سے، اس مغربی فوجی تنظیم (نیٹو) کے تحلیل ہونے کا بھی امکان پیدا ہو جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 1116188
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش