1
Wednesday 14 Feb 2024 22:23

نیتن یاہو، اپنی نجات کیلئے فلسطینیوں کی نسل کشی پر اصرار

نیتن یاہو، اپنی نجات کیلئے فلسطینیوں کی نسل کشی پر اصرار
تحریر: علی احمدی
 
کم از کم دو مہینے پہلے اسرائیلی اور امریکی سیاست دانوں اور حکومتی رہنماوں میں یہ اتفاق رائے پیدا ہو چکا تھا کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اپنی سیاسی زندگی کی بقا غزہ کے خلاف جنگ اور فلسطینیوں کی نسل کشی جاری رہنے میں دیکھتا ہے۔ اسی طرح وہ اس بات پر بھی متفق تھے کہ نیتن یاہو نے محض اپنے اقتدار کی بقا کیلئے غزہ کے خلاف فوجی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں خطے، عالمی رائے عامہ اور ملکی رائے عامہ میں امریکی حکومت کو بہت زیادہ نقصانات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں جبکہ مقبوضہ سرزمین کے اندر صیہونی حکومت بھی شدید چیلنجز سے روبرو ہو چکی ہے لیکن نیتن یاہو نے ان سب کو نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو 7 اکتوبر کے دن حماس کی جانب سے کامیاب طوفان الاقصی فوجی آپریشن انجام پانے اور اسرائیل کی ذلت آمیز شکست کا اصل ذمہ دار ہے۔
 
اس بنجمن نیتن یاہو غزہ جنگ رک جانے کو اپنی سیاسی زندگی اور حیثیت ختم ہو جانے کے مترادف تصور کرتا ہے لہذا اس نے صیہونی معاشرے نیز اپنے فوجی اور انٹیلی جنس اداروں پر یہ سوچ مسلط کر رکھی ہے کہ حماس کی نابودی اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی یا جنگ بندی سے زیادہ اہم ہے۔ نیتن یاہو خیال کرتا ہے کہ موجودہ حالات میں حماس کی شرائط مان کر جنگ بندی کر لینے کا مطلب اسرائیل کو درپیش خطرے کا تسلسل ہو گا لہذا اس کی نظر میں کسی قیمت پر جنگ بندی یا قیدیوں کا تبادلہ انجام نہیں دیا جا سکتا اور غزہ کی ناکہ بندی بھی ختم کرنا ممکن نہیں ہے۔ بنجمن نیتن یاہو چاہتا ہے کہ جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ انجام نہ پائے بلکہ غزہ کے جنوبی شہر رفح پر بھی فوجی چڑھائی کر دی جائے۔
 
امریکی صدر جو بائیڈن نے اگرچہ نیتن یاہو سے ٹیلی فون پر رابطے میں رفح پر حملے کی مخالفت کی ہے لیکن عملی طور پر اسے سبز جھنڈی لہرا دی ہے۔ جو بائیڈن کی جانب سے نیتن یاہو کو سبز جھنڈی لہرانے کا مقصد عنقریب انجام پانے والے مذاکرات میں بالادستی حاصل کرنا ہے۔ یاد رہے آئندہ کچھ دنوں میں ویلیم برنز خطے کا دورہ کرنے والا ہے جس کا مقصد اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس سے جنگ بندی کے بارے میں مذاکرات کرنا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ رفح پر فوجی حملہ کر کے حماس کی چار بریگیڈز کا خاتمہ کر دے گا۔ اسی طرح نیتن یاہو سمجھتا ہے کہ رفح پر فوجی کاروائی کے ذریعے وہ اسرائیلی یرغمالیوں کو بھی آزاد کروا سکتا ہے۔
 
رفح میں اس وقت 15 لاکھ فلسطینی شہری موجود ہیں جن میں غزہ کے شمالی اور مرکزی حصوں سے نقل مکانی کر کے آنے والے مہاجرین بھی شامل ہیں۔ نیتن یاہو کی نظر میں ان 15 لاکھ فلسطینی شہریوں کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ چونکہ رفح غزہ کا آخری شہر ہے جو ممکنہ اسرائیلی حملے کا نشانہ بنے گا لہذا توقع کی جا رہی ہے کہ حماس اس شہر میں سب سے زیادہ مزاحمت کا مظاہرہ کرے گی۔ یوں سمندر، خشکی اور فضا سے اسرائیلی بمباری اور گولہ باری میں بھی مزید شدت آنے کا امکان ہے جس کا نتیجہ عام فلسطینی شہریوں کی زیادہ تعداد میں شہادت اور نسل کشی کی شدت میں اضافے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ اسی طرح زندہ حالت میں اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی کا امکان بھی بہت کم ہو جائے گا اور ان کی ہلاکت کا قوی امکان پایا جاتا ہے۔
 
نیتن یاہو نے حتی تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی ہلاکت کا قوی امکان پائے جانے کے باوجود جنگ جاری رکھنے کی حکمت عملی اس لئے اپنا رکھی ہے تاکہ جس طرح بھی ممکن ہو خود کو جنگ کا فاتح ظاہر کر کے رائے عامہ کی نظر میں ایک مجرم کی بجائے ہیرو بن کر ظاہر ہو۔ خاص طور پر ایسے میں جب امریکی حکمران بھی نیتن یاہو سے زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتے اور اپنی سفارتی سرگرمیوں میں اپوزیشن لیڈرز جیسے بنی گانتز کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ نیتن یاہو چاہتا ہے کہ غزہ جنگ اتنا طول پکڑ لے کہ وائٹ ہاوس میں جو بائیڈن کی مدت صدارت ختم ہو جائے۔ اس طرح وہ مستقبل میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے امید لگائے بیٹھا ہے۔ نیتن یاہو کی اس حکمت عملی سے خطے کی سطح پر جنگ پھیل جانے کا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔
 
بنجمن نیتن یاہو کو امید ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ آئندہ صدارتی انتخابات میں کامیاب ہو کر اسرائیل میں دائیں بازو کی شدت پسند جماعتوں کی حمایت کرے گا اور یوں وہ اقتدار میں باقی رہ پائے گا۔ لیکن نیتن یاہو اس حقیقت سے غافل ہے کہ غزہ کے خلاف فوجی جارحیت جاری رہنے کی صورت میں عالمی عدالت انصاف کی نظر میں اس کا مجرم ہونا ثابت ہو جائے گا۔ عالمی عدالت انصاف نے پہلے فیصلے میں نیتن یاہو حکومت کو غزہ میں نسل کشی سے پرہیز کرنے کی تاکید کی ہے۔ غزہ میں نیتن یاہو کے مجرمانہ اقدامات کا تسلسل اس تاثر سے تضاد رکھتا ہے جو امریکی حکمران خود سے ظاہر کر رہے ہیں۔ امریکی حکمران عالمی رائے عامہ کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ خطے میں جاری جنگی حالات کو کنٹرول کرنے کے درپے ہیں۔ اس تاثر کا مقصد نیتن یاہو کو غزہ میں مزید نسل کشی کرنے کا موقع فراہم کرنا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1116240
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش