0
Wednesday 6 Mar 2024 20:10

علمی ترقی کا منفرد سفر

علمی ترقی کا منفرد سفر
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

سائنسی پیشرفت کو جانچنے کے لیے کئی قابل اعتماد معیارات ہیں، جن میں سے ایک "ترقی کی سرعت" ہے۔ علمی ترقی کی یہ رفتار بعض اوقات ملک دشمنوں کے لیے بہت زیادہ پریشان کن ہوتی ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں سائنس کی ترقی کی رفتار اس قدر بڑھی ہے کہ اس سے نہ صرف ایران کے دشمن ممالک کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے بلکہ انہوں نے پابندیوں سے لے کر اندرونی دہشتگری تک سے استفادہ کیا۔ دشمن اب بھی اپنے تئیں اس سرعت کو جاری رکھنے سے روک رہا ہے۔ اس علمی ترقی اور ان پیش رفتوں کی وجہ سے ایران دشمن طاقتوں نے جوہری ٹیکنالوجی اور ایٹمی میزائل میں ترقی کو بہانہ بنا کر ایران کے خلاف نہ صرف عالمی دباؤ بڑھایا بلکہ رکاوٹیں اور پابندیاں بھی تیز کر دیں۔

معاشرے کی علمی سطح کو بہتر بنانا، شرح خواندگی میں اضافہ، اسکولوں اور یونیورسٹیوں کے سائنسی مراکز کی ترقی نیز مختلف سائنسی شعبوں میں طلباء کی تعداد میں اضافہ، سائنسی مقالات اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالوں کی تعداد میں ایران کا سرفہرست مقام۔ اسی طرح نینو، جوہری، خلائی اور سٹیم سیل ٹیکنالوجی میں کامیابیاں اس کی چند مثالیں ہیں۔ ان کامیابیوں کو انقلاب اسلامی کی اہم ترین سائنسی اور تکنیکی کامیابیوں میں سے قرار دیا جاسکتا ہے۔ البتہ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ انقلاب کے بعد ان میں سے کون سے شعبہ میں سب سے اہم اور زیادہ سائنسی کامیابیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں سب سے پہلے اسلامی انقلاب کی سائنسی کامیابیوں کا ایک جامع جائزہ لینا ہوگا، تاکہ ہم ان شعبوں کے درمیان موازنہ کرکے مطلوبہ نتیجے پر پہنچ سکیں۔

خصوصی سائنسی شعبوں تک پہنچنے سے پہلے، معاشرے میں سائنسی ترقی کا پہلا مرحلہ شرح خواندگی میں اضافہ تھا۔ انقلاب سے پہلے معاشرے میں ناخواندہ افراد کی تعداد تقریباً 14 ملین افراد تک پہنچ گئی تھی، جو کہ ملک کی آبادی کا تقریباً نصف تھی۔ لیکن انقلاب کے بعد آٹھ سال کی مسلط کردہ جنگ کے باوجود معاشرے کی خواندگی کو بڑھانے کے لیے ایک ہمہ جہت تحریک چلی اور اس تحریک میں لاکھوں لوگ خواندہ ہوئے۔ انقلاب سے تین سال پہلے معاشرے میں خواندگی کی شرح تقریباً 47 فیصد تھی اور یہ شرح دس برس میں اٹھاسی فیصد تک پہنچ گئی۔ انقلاب سے پہلے ملک میں صرف پندرہ بڑے یونیورسٹی یونٹس تھے اور انقلاب کے بعد ان یونٹوں کی تعداد 2,640 سے زیادہ ہوچکی ہے۔ سکولوں کی تعداد 47,000 یونٹس سے بڑھ کر 220,000 تک پہنچ چکی ہے۔ تعلیمی انفراسٹرکچر میں اس اضافے سے تربیت یافتہ فارغ التحصیل افراد کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے انقلاب سے پہلے کے مقابلے میں طلباء کی تعداد میں اضافے کے بارے میں فرمایا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں، انقلاب کے آغاز سے اب تک طلباء کی تعداد میں 25 گنا اضافہ ہوا ہے۔ انقلاب کے آغاز میں ملک میں تمام طلباء کی تعداد دو لاکھ کے لگ بھگ تھی، آج ملک میں تقریباً پچاس لاکھ طلباء زیر تعلیم ہیں۔ آئی ایس آئی ڈیٹا بیس کے مطابق سائنس کے مضامین میں علمی مقالات کی تعداد میں ایران کو خطے میں پہلا اور دنیا میں 15 واں نمبر دیا گیا ہے۔معاشرے میں خواندگی کی سطح میں اس اضافے اور ملک میں سائنس سیکھنے کے عمل کے پھیلنے کے بعد ہمیں اس پیشرفت کی پہلی کامیابیوں کا انتظار کرنا پڑا۔ پڑھے لکھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا اپنے تعلیمی میدان میں داخل ہونا یقینی طور پر خوش آئند ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ علم کی چوٹیوں کو سر کریں گے۔ اس وقت ملک میں نینو کے شعبے کو فعال بنا دیا گیا ہے۔

نینو ٹیکنالوجی میں جوہری بنیادوں پر ذرات کو کنٹرول کرنے کے لیے ان کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی کی تحقیق کا بنیادی مقصد نئے مرکبات بنانا یا موجودہ مواد میں تبدیلیاں لانا ہے۔ علم کے اس شعبے کی ترقی اور پختگی ایران میں اس کے عالمی ظہور کے ساتھ ساتھ پروان چڑھی ہے۔ اس شعبے میں موثر اور بروقت داخلے نے ایران کو نینو ٹیکنالوجی کی پیداوار کے میدان میں دنیا کا چھٹا سرکردہ ملک بنا دیا۔ نینو کے شعبے میں خصوصی داخلے کے لیے مختلف ایپلی کیشنز ہوسکتی ہیں، جیسے کہ ادویات کی پیداوار، بیماریوں کی تشخیص، پانی کی صفائی، زراعت میں پیداواری صلاحیت میں اضافہ، زرعی مصنوعات و خوراک کو زخیرہ کرنا، کیڑوں پر قابو پانا اور سینیٹائزیشن وغیرہ شامل ہیں۔

یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ سائنسی علوم میں تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا ہونا ضروری نہیں ہوتا اور اکّثریت کی ان علمی  سرحدوں میں داخل ہونے کی توقع بھی نہیں کی جاتی۔ نینو کے شعبے میں ملک میں مصنوعات کی تیاری کے ساتھ ساتھ  اب ہم برآمدی شعبے تک بھی پہنچ چکے ہیں اور تیار ہونے والی نینو مصنوعات دوسرے ممالک کو  بھی برآمد کی جاتی ہیں۔ انقلاب کے بعد، شاید ملک کی سب سے اہم اور اسٹریٹجک ٹیکنالوجی جوہری صنعت تھی اور اب بھی ہے، جس میں داخلے نے مغربی ممالک کی حساسیت کو جنم دیا بلکہ دشمنی کی اصل اور حقیقی بنیاد کو اجاگر کر دیا۔ ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کا قیام انقلاب سے پانچ برس پہلے عمل میں آیا اور "بوشہر" نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر کا معاہدہ طے پایا، لیکن اس وقت سے لے کر 2002ء تک کوئی قابل ذکر امور انجام نہیں پائے اور آخر کار 2002ء کو ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے بعد ملک کے صدر نے ماہرین کے ذریعے ایران کے جوہری پاور پلانٹس کے لیے جوہری ایندھن کی تیاری کا اعلان کیا۔

 ایران کی ایٹمی سرگرمیوں کے جاری رہنے کے بہت سے نتائج برآمد ہوئے اور ایٹمی شہداء نے اپنی جانوں سے اس راستے کو جاری رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔ جوہری ٹیکنالوجی کا حصول اور اس سے فائدہ اٹھانا ایران کے لیے ممنوعہ بنا دیا گیا تھا۔ لہذا جب دشمن ممالک کو یہ احساس ہوا کہ وہ ایران کی جوہری پیش رفت کو نہیں روک سکتے تو انھوں نے علم کے اس میدان میں پابندیاں عائد کرنا شروع کر دیں۔ ان تمام حدود کے باوجود ایران نے 20 فیصد افزودگی کا ہدف حاصل کیا۔ 15 فروری 2012ء کو اسلامی ایران نے 20 فیصد افزودہ جوہری ایندھن کی راڈ بنانے اور اسے 55 میگاواٹ کے ریسرچ ری ایکٹر میں لوڈ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

 مغربی پابندیوں اور دھمکیوں کے سائے میں کی جانے والی تمام کوششوں کے باوجود ایران جوہری ایندھن کا سائیکل یعنی ایٹمی فیول سائیکل بنانے والے ممالک کے گروپ میں شامل ہوچکا ہے۔ وہ ممالک جن کی تعداد 20 سے زیادہ نہیں اور ان ممالک میں ایران بھی شامل ہے، جو یورینیم کی افزودگی، زرد کیک کی پیداوار اور اسے "UF6" گیس میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ رہبر معظم نے متاثر کن جوہری پیش رفت کے بارے میں فرمایا: "تمام تر دشمنیوں کے باوجود انہیں کہنا پڑا کہ ایران ان دس ممالک میں شامل ہے، جو ایٹمی ایندھن کا سائیکل تیار کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے، یہ اہم پیش رفت اسلامی نظام کی بدولت ہوئی ہے۔" انھوں نے یہ بھی کہا: "مغربیوں اور خاص طور پر امریکیوں کے پروپیگنڈے میں جوہری توانائی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا مقصد ایرانی قوم کو سائنسی اور تکنیکی ترقی سے محروم کرنا ہے۔"

میزائل ٹیکنالوجی اور خلائی ٹیکنالوجی کا براہ راست تعلق
نیوکلیئر انڈسٹری کے بعد اب فضائی اور خلائی صنعت یعنی ائیرو اسپیس کی باری تھی۔ اس صنعت کی ترقی کا براہ راست تعلق میزائل صنعتوں کی ترقی سے تھا اور مغربی ممالک کا دباؤ صرف ایٹمی صنعتوں تک محدود نہیں تھا۔ میزائل صنعت کے میدان میں ایران کی سائنسی پیشرفت کے حوالے سے مغربی ممالک کی تشویش کم نہ تھی اور یہ بہاؤ ایران کی خلائی سرگرمیوں کو روکنے کا بہانہ تھا، تاہم ایران نے خلاء کے میدان میں مطالعہ اور تجربات کو اس وقت تک بند نہیں کیا، جب تک کہ وہ دنیا کے گیارہ خلائی ممالک کے گروپ میں شامل نہ ہوگیا۔ یہاں سے ایران کے بارے میں دیگر خدشات مزید سنگین ہوگئے اور پڑوسی ممالک ایران کو ایک سنگین خطرہ کے طور پر دیکھنے لگے۔ جن ممالک کی سیٹلائٹ انڈسٹری تک رسائی نہیں ہے، انہیں دنیا میں نابینا ممالک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آجکل دنیا مصنوعی سیاروں اور سیٹلائیٹس کو بنی نوع انسان کی تیسری آنکھ تسلیم کرتی ہے۔

 ایران نے 2005ء میں اپنے سیٹلائٹ ٹیسٹ شروع کیے اور "سینا 1" سیٹلائٹ لانچ کیا۔ یہ تجربات یہاں تک جاری رہے کہ بالآخر 2012ء میں ایران نے ایک جاندار کو خلاء میں بھیج کر حیاتیاتی تحقیق کا ایک اور مرحلہ طے کیا اور 2013ء میں دوسرے خلائی بندر کو لے جانے والے "ریسرچ" پروب کے آغاز کے ساتھ ہی یہ تحقیق جاری رہی۔ خلائی صنعت ایران کے لیے اہم "ہائی ٹیک" صنعتوں میں سے ایک کے طور پر بہت اہم ہے، جسے بلاشبہ ترقی کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان دلائل کے ساتھ ایران کو دنیا کے دس بڑے خلائی ممالک، جن میں چین، روس، امریکہ جیسے بڑے ممالک شامل ہیں، شمار کیا جاتا ہے۔مغربی پابندیوں اور دھمکیوں کے سائے میں کی جانے والی تمام کوششوں کے باوجود ایران جوہری ایندھن کا سائیکل یعنی ایٹمی فیول سائیکل بنانے والے ممالک کے گروپ میں شامل ہوچکا ہے۔ وہ ممالک جن کی تعداد 20 سے زیادہ نہیں اور ان ممالک میں ایران بھی شامل ہے، جو یورینیم کی افزودگی، زرد کیک کی پیداوار اور اسے "UF6" گیس میں تبدیل کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔

مغربی ذرائع ابلاغ کے تجزیاتی رجحانات اور ایران کی خلائی ترقی کے بارے میں ان کے مؤقف کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو ایک دفاعی صنعت کے طور پر دیکھتے تھے۔ اس تجزیہ کے ساتھ، اس صنعت کی ترقی کی رفتار کو سست کرنا قابل فہم نہیں تھا۔ تاہم اس صنعت کی ترقی کی رفتار کو سست کرنے کا عمل اس وقت شروع ہوا، جب ایران نے 5+1 ممالک کے ساتھ معاہدہ کیا۔ ایٹمی معاہدہ  JCPOA کے معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ کی بدعہدی اور رکاوٹوں تک، خلائی ترقی کے بارے میں زیادہ خبریں سامنے نہیں آئیں۔ جے سی پی او اے میں امریکہ کی بدعہدیوں کے بعد ایران کی خلائی صنعت میں ایک نئی روح پھونک دی گئی ہے اور "ناہید 1" سیٹلائٹ  کی لانچنگ کے خبریں سب سے زیادہ نمایاں ہوگئیں۔

 اس وقت سے ایران کی خلائی ترقی کے بارے میں روسیوں کے تبصرے بہت اہم تھے۔ روسی خلاباز اور خلائی سائنس دان، امید نامی ایرانی سیٹلائٹ کی لانچنگ کے بعد سے ایران کی خلائی سرگرمیوں میں خصوصی دلچسپی لینے لگے۔ مثال کے طور پر عظیم روسی خلاباز الیگزینڈر الیگزینڈروف نے ایران کی پیشرفت کے بارے میں کہا کہ اقتصادی محاصرے کے شکار ملک کے طور پر ایران کی خلائی پیش رفت قابل تعریف ہے۔ نامور روسی خلائی میگزینوں کے کئی شماروں میں ایران کی خلائی صنعتوں کو خصوصی طور پر زیر بحث لایا گیا۔ طبی میدانوں میں سائنس کی ترقی مغربی ممالک کی رکاوٹوں سے وابستہ رہی ہے، تاہم طبی میدانوں میں سائنس کی ترقی کا مغربی ممالک کی رکاوٹوں سے کم تعلق رہا ہے اور اس شعبے میں ایران کی راہ میں طب اور صحت کے شعبے میں جدید آلات تک رسائی کو روکنا رہا ہے۔ ادویات اور طبی آلات کی عالمی منڈیوں تک رسائی نہ ہونے کے باوجود کورونا کے دور میں یہ طبی پیش رفت ملک کی مدد کو پہنچی۔

طبی میدان میں سے ایک شعبہ اسٹیم سیلز کا شعبہ ہے۔ سٹیم سیلز جسم کے خلیوں کو دوبارہ تخلیق کرنے کی صلاحیت فراہم کرتے ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ خلیے خون، دل، اعصاب یا کارٹلیج کے خلیات ہوں۔ اس طریقہ سے جسم کے مختلف خراب ٹشوز کی بحالی اور مرمت ممکن ہے۔ اس وقت ایران دنیا کے ان دس سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے، جو ISP تحقیق کے میدان میں خطے میں ترقی یافتہ ممالک میں پہلے نمبر پر ہیں۔ اسٹیم سیلز کے شعبے میں ایران نے دماغ اور ہڈیوں کی پیوند کاری، جلد اور دل کی ٹوٹے ہوئی بافتوں کی مرمت جیسی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور یہاں تک کہ ان خلیوں کی کلوننگ کرنے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے۔ کینسر یا دل کے بافتوں اور کارنیا کے ٹرانسپلانٹ میں ان خلیوں کا استعمال، اعصاب اور ہڈیوں کے خلیوں کی چوٹوں کے علاج کے لیے ناف کے خلیوں کا استعمال، ریڑھ کی ہڈی کے زخم کی مرمت، جنین کے خلیہ کی کلوننگ اور پیداوار وغیرہ اسٹیم سیلز کی دیگر کامیابیوں میں شامل ہیں۔

مذکورہ کامیابیوں کا ذکر بڑی علمی کامیابیوں کا صرف ایک حصہ تھیں اور لیزر، مائیکرو الیکٹرانکس، روبوٹکس، ہارڈ ویئر، سافٹ ویئر، بائیو ٹیکنالوجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دیگر شعبوں میں ملک کی ترقی کا جائزہ لینے کے لیے بہت زیادہ وقت درکار ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں سے کس کامیابی کو ملک کی سب سے اہم سائنسی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے؟ ان میں سے کسی ایک سائنسی شعبے کو بہترین قرار دینا دوسرے شعبوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔لیکن ملک کی سب سے اہم سائنسی کامیابی ایک سائنسی ماحولیاتی نظام اور ایک ایسے علمی کلچر تشکیل  دینا ہے، جو اس تمام ترقی کا باعث بنے۔ اگر یہ ماحولیاتی نظام موجود نہ ہوتا تو ان میں سے کوئی بھی علمی و سائنسی ترقی حاصل نہ ہوتی۔
خبر کا کوڈ : 1120846
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش