4
0
Thursday 7 Mar 2024 01:38

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، ان کے جیسا کوئی ایک

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، ان کے جیسا کوئی ایک
تحریر: ارشاد حسین ناصر

پروردگار پیغمبر آخر ؐ پر نازل کردہ اپنی پاک کتاب قرآن مجید میں فرماتا ہے: "وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ"، "اور جو لوگ راہ خدا میں قتل ہو جاتے ہیں، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں، لیکن تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے۔" (سورہ آل عمران:169) شہادت عربی زبان میں حضور اور مشاہدہ کے معنی میں ہے۔ اس اعتبار سے شہادت نام رکھنے کی کچھ وجوہات ذکر ہوئی ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں: "رحمت الہیٰ کے فرشتے اس کی فداکاری اور جانبازی کے گواہ ہیں۔"، "خدا اور فرشتے اس کے بہشت میں داخل ہونے کی گواہی دیں گے اور وہ اپنے پرودگار کے نزدیک زندہ اور حی ہے۔"، "وہ ایسی چیزوں کو مشاہدہ کرتا ہے، جو دوسرے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔"، "قیامت کے دن شہید دوسروں کے اعمال پر شاہد ہے۔"

آیات اور روایات میں شہادت کے لئے کچھ آثار ذکر ہوئے ہیں، جن میں سے بعض درج ذیل ہیں: زندہ رہنا: قرآنی آیات کی روشنی میں، جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہ مرتے نہیں ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے ہاں سے رزق پاتے ہیں۔ شفاعت کا حق: شہید قیامت کے دن انبیاؐ اور علماء کے ساتھ شفاعت کریں گے۔ گناہوں کی مغفرت: امام باقرؑ سے منقول ایک روایت میں منقول ہے کہ جب شہید کے بدن سے خون کا پہلا قطرہ جاری ہوتا ہے، اس کے حق الناس کے علاوہ باقی تمام گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ شہید پر باقی حق الناس کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ اگر اس کے ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی ہے تو اللہ اس حق کو جبران کرتا ہے اور حق والا اس سے راضی ہو جاتا ہے۔ بہشت میں داخلہ: قیامت کے دن جو سب سے پہلے بہشت میں داخل ہوگا، وہ شہید ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں شہداء کے مقام و مرتبہ کے بارے بیان ہوئی ہیں۔

اسی وجہ سے حق کے پیروان و طرفداران اس مقام و مرتبہ کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں، اللہ کی خوشنودی، اس کے دین اور اسلامی سرزمین کے دفاع و بقاء کیلئے راستہ طے کرتے ہوئے اس مقام و مرتبہ کو پانے کی خواہش و تڑپ ہر ایک کو ہوتی ہے۔ بعض لوگ اسے معیار اور میرٹ سے ممکن بناتے ہیں، یعنی ان کا اخلاص، ان کا کام، ان کی جدوجہد، ان کا چلنا، پھرنا، ان کے شب و روز، ان کے معاملات اس معیار و میرٹ پر ہوتے ہیں کہ پروردگار انہیں اس انعام سے نوازتا ہے، یہ خاصان خدا ہوتے ہیں، ان پر پروردگار کی نوازشات کی بارش ہوتی ہے، ان کی محبت لوگوں کے دلوں میں راسخ ہو جاتی ہے۔

گذشتہ چالیس برس میں پاکستان کے طول و عرض میں مکتب جعفری سے تعلق رکھنے والے، آل محمد ؑکے پروانوں نے ہزاروں کی تعداد میں دشمنان محمد و آل محمد ؑ، نواصب، خوارج کے حملوں میں اپنے پاک لہو کے نذرانے پیش کیے ہیں اور اپنے پاک لہو سے اس مکتب کے چراغ کو روشن رکھا ہے، اس کی لو کو بجھنے نہیں دیا، یہ پاک لہو پہچان کیساتھ بہایا گیا ہے، اس کی پہچان کرنے والوں نے انہیں کربلا سے متمسک پا کر بہایا ہے، اس کو بہانے والوں نے ان شہداء کے جرم کی فہرست میں فقط میدان غدیر میں رسول خدا ؐکی دی گئی صدا اور پیغام ولایت پر لبیک کہتے ہوئے مولائے کائنات علی ابن ابی طالب ؑکی ولایت کے اقرار کو قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے ان کی شہادت کسی بھی میدان جنگ میں شہید ہونے والوں سے کم نہیں۔ ان کا درجہ کسی بھی جنگ جو اسلامی سرزمین، دین و مذہب کی بقاء و دفاع کیلئے لڑی جائے، سے کم نہیں ہے۔

پاکستان میں دشمنان اہلبیت، نواصب و خوارج نے گذشتہ چالیس برس سے تسلسل کیساتھ دشمنان اسلام یہود و ہنود و نصاریٰ کیساتھ ساز باز کرکے ان کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے، ان کے اشاروں پہ ناچتے ہوئے ایک الگ انداز و رنگ کا میدان جنگ بنایا اور اس میں بے گناہ، بے قصور لوگوں کو شہید کیا، ہزاروں بچوں کے سروں سے ان کے والدین کا سایہ چھینا، خواتین کے سروں سے ان کے سر کا تاج چھینا، والدین کے ارمانوں و امنگوں کا قتل کیا، قوم و ملت کے نگینوں اور قیمتی ترین مربی و مہربانوں کو چھینا، ملت کی تعمیر، ترقی، تہذیب، تعلیم میں اپنا تن، من، دھن نچھاور کرنے والوں کو چھینا اور ایک ایک شخص کے قتل سے کبھی ایسا محسوس ہوا کہ پوری ملت و مکتب یتیم ہوگیا ہے، ہم نے ان چالیس پینتالیس برسوں میں ایسا بارہا محسوس کیا۔

ساتویں مارچ کی دم صبح بھی ہم نے ایسا ہی محسوس کیا تھا، جب لاہور میں یتیم خانہ چوک کے پاس ملت میں روح کا کردار ادا کرنے والے ڈاکٹر محمد علی نقوی کو ان کے ایک ساتھی تقی حیدر کیساتھ سینکڑوں لوگوں کی موجودگی میں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ وہ ایک مسیحا تھے اور اس وقت بھی اپنے مریضوں کی مسیحائی کا فریضہ سرانجام دینے جا رہے تھے، ساتویں مارچ کی دم صبح فقط سیدہ زہراء نقوی، سید سلمان نقوی، سید دانش نقوی، سید موسیٰ نقوی نے یتیمی کی دستار نہیں باندھی، اس قوم کے ہر باشعور نوجوان کو یتیمی کا احساس ہوا تھا، ہر فعال تنظیم کارکن کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا تھا، مقاومت اسلامی و مزاحمت اسلامی سے خود کو مرتبط رکھنے والے ہر مخلص برادر و خواہر، حریم اہلبیت ؑکے دفاع کا علم اٹھانے والے ہر جانباز نے اس لہو کے بہنے پر اپنے سر کو دیواروں سے ٹکرایا تھا کہ ان کا واحد آسرا ان سے چھن گیا تھا۔

ہر ایک احساس کرتا تھا کہ جس شمع کو ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اب تک روشن رکھا ہوا تھا، وہ شمع اب تیز ہواءوں کی زد پر آجائے گی اور تیز آندھیاں اب اس چراغ کو بجھا دیں گی۔ دشمن کامیاب ہو جائے گا، اس لیے کہ ان کے جیسا تو کوئی ایک بھی نہ تھا، یہ سب جانتے تھے، پہچانتے تھے اور اس کا ادراک و احساس سب کو تھا۔ اگرچہ ان کے پاک لہو سے اس چراغ کی لو کو تیز ہونا چاہیئے تھا، جسے انہوں نے اپنی زندگی دی تھی، مگر تمام تر احساسات و جذبات کے باوجود شاید ایسا نہیں ہوا۔ ہم محروم رہ گئے، ہمیں تسلیم کرنا چاہیئے کہ ہم سب مل کر بھی ایک ڈاکٹر جیسا نہیں بن سکے۔ اس کی وجہ کیا ہے، اس بارے بحث و مباحثہ ہوسکتا ہے، مگر میں یہی محسوس کرتا ہوں، بے شک ہم ان کی برسی مناتے ہیں، ان کو آئیڈیالایز کرتے ہیں، ان سے محبت اور اس کی تجدید کا عہد کرتے ہیں، مگر اس حقیقت کو کسی بھی طور رد نہیں کیا جا سکتا کہ "سب مل کر بھی ایک نہیں بن سکے۔" شہید تو یہ کہہ گئے کہ۔۔
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا


مگر ان کے جیسا کوئی ایک بھی نہ ہوا۔۔۔ سب اپنی اپنی انجمن سجائے ہوئے ہیں، جو انجمن آرائی شہید کرتے تھے، وہ اب کہیں دکھائی ہی نہیں دیتی، وہ اعتماد، وہ یقین کس پر کیا جائے، ایسا تو کوئی نہیں۔۔۔
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے

ان کے جانے کے بعد پتا پتا، ڈالی ڈالی، بوٹا بوٹا بکھر گیا، جیسے وہی تھے ملت کا بھرم، ملت کی یکجہتی، ملت کا اتحاد، ملت کا وقار، ملت کا شرف، تاریخ سامنے ہے کہ ان کے جانے کے بعد ہم سے یہ سب کچھ چھن گیا، روٹھ گیا، ناجانے کیوں یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید ہم نے ان کی قدر نہ کی اور ہم سے سب کچھ جاتا رہا، یہ ان کی عظمت و شرف ہے کہ انتیس برس گزر جانے کے بعد بھی ہم ان کی خوشبو محسوس کرتے ہیں، مگر ان کے جیسا کسی کو نہیں پاتے۔۔
رونق تو وہی ہے پھر بھی جیسے
اک شخص کی شہر میں کمی ہے
خبر کا کوڈ : 1120849
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

علی صفدر
Australia
اگر ہم پاکستان میں شیعہ شھداء کا تصور کریں تو ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک عام شھداء جو سڑک پر، دکان پر، اپنے افس پر، مجلس جلوس سے واپسی پر شھید ہوئے۔ دوسری قسم ان شھداء کی ہے، جو راہ عمل میں شھید ہوئے، جنہیں معلوم تھا کہ دشمن کسی وقت شھید کرسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب بھی ان میں ایک تھے، جو راہ عمل میں شھید کئے گئے۔
مگر یہ کہنا کہ وہ ایک ہئ تھے تو باقی راہ عمل کے شھداء سے زیادتی ہوگی۔ شھید حسن ترابی، شھید مظفر کرمانی، شھید سبط جعفر اور بہت سے نام اس لسٹ میں موجود ہیں، طوالت کے پیش نظر نام لکھنا ممکن نہیں، البتہ ایک شھید کا تذکرہ کرونگا، شھید ڈاکٹر حیدر کشمیری جنہوں نے صرف چند ساتھیون سمیت نوے کی دھائی میں بدترین قتل عام میں وسائل سے بھرپور دشمن کے سامنے بند باندھا۔ شھید گمنام تھے، کسی تنظیم ادارے سے مدد کے بجائے خود اپنی فیملی اور چند دوستون کی مدد سے دس سال کراچی میں دشمن کو پسپا کیا اور 3 نومبر 2001ء دشمن پر کاروائی کرتے ہوئے شھید ہوئے۔
48 دن بعد شھید کی قبر پوسٹ مارٹم کے لئے اداروں نے کھولی تو شھید کا جسم تازہ تھا، ماتھے پر پسینہ تھا، جسم کاٹنے پر خون جاری ہوا، جسے بہت ساری روئی رکھ کر بند کر دیا گیا۔ ڈاکٹرز اور جناح اسپتال کی پوسٹمارٹم رپورٹ کے مطابق انہون نے زندہ شخص کا پوسٹ مارٹم کیا۔ یہ واقعہ بعد میں کراچی کے ہر بڑے منبر سے بیان کیا گیا۔
Pakistan
سلام
مگر ان کے جیسا کسی کو نہیں پاتے!!!!! حالانکہ کروفر میں تو سب ایسے ہیں گویا انہوں نے تو ڈاکٹر شھید رح سے بھی بالاتر درجے کی حیات طیبہ گذار لی۔ مزے ہیں بھئی مزے!!
Pakistan
شھید ڈاکٹر رح کا موازنہ آئی ایس او کے اس مکتب سے کیا جاتا ہے، جو آئی ایس او, آئی او کے حاضرین سابقین پر مشتمل ہے، نہ کہ تحریک کے شھداء سے نہ ہی ان دیگر شھداء سے۔ ویسے شھید ترابی رح ایک معمم نامور ہستی تھیں۔ کرمانی رح و دیگران کا تنظیمی دائرہ ملک گیر نہ تھا، حالانکہ کرمانی رح بہت ہی بلند پایہ شخص تھے اور اپنے شہر میں انکا بھی کوئی ثانی نہ تھا۔ دوسرا یہ کہ کراچی اور کسی حد تک صوبے کے چند علاقے اور دوست احباب کے توسط سے دیگر علاقے، زاویہ نگاہ درست رکھیں۔

شھید ڈاکٹر رح کا فوکس و موجودگی پنجاب رہی، لیکن دیگر صوبوں میں بھی انکا فعال رابطہ رہا ہے۔ تو یہ بہرحال کسی حد تک منفرد ضرور تھے۔ بیک وقت کئی صفات حسنہ جمع تھیں ان میں اور موازنہ درست کریں۔ کیونکہ جتنے بھی آپ نام لیتے ہیں، ان میں سبھی کی خاص صفات کا حامل بھی دوسرا نہ دیکھا جاسکا۔ لیکن انکا ایک دوسرے سے موازنہ کب کس نے کیا ہے؟ یہ تحریر بعد کی ویسی مرکزی شخصیت سے متعلق ہے۔ حال سے موازنہ بہت واضح لکھا ہے۔ امید ہے کہ نادانستہ طور آپ نے یہ کمنٹ اس زاوہے سے لکھ ڈالا ہے کہ جو اس تحریر پر بنتا نہیں ہے۔
Pakistan
زبردست آزادی ہے، یعنی دو کمنٹس بے ضرر سے نہیں شایع ہوئے تاحال۔ کیا کہنے اس چھوٹے سے اختیار کے غلط استعمال کے۔
ہماری پیشکش