0
Sunday 1 Nov 2009 15:59

حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی علمی شخصیت پر ایک نظر

حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی علمی شخصیت پر ایک نظر
حضرت امام علی رضا علیہ السلام اپنے عظیم آباء و اجداد کی طرح علم کے اعلی مدارج پر فائز تھے حتی کہ آپ علیہ السلام کو "عالم آل محمد ص" کا لقب دیا گیا۔ جناب اباصلت محمد بن اسحاق بن موسی بن جعفر علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اپنے فرزندان سے فرمایا کرتے تھے: "آپ کا بھائی علی بن موسی خاندان پیغمبر ص کا دانا ترین فرد ہے۔ اپنے دینی مسائل اور سوالات کے جواب کیلئے اس سے رجوع کریں۔ وہ جو کچھ بھی آپ لوگوں کو سکھائے اس کو اچھی طرح سیکھیں۔ میرے والد امام صادق علیہ السلام نے کئی بار مجھ سے فرمایا ہے کہ: خاندان پیغمبر ص کا دانا ترین فرد تمہاری نسل سے ہے اور اے کاش میں اس سے ملاقات کر سکتا"۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ائمہ معصومین علیھما السلام کے درمیان امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کو علمی محافل کے تشکیل دینے اور علوم اہلبیت ع کو پھیلانے کیلئے سب سے زیادہ مواقع فراہم ہوئے اور امام علی رضا علیہ السلام کو اس حوالے سے تھوڑی فرصت مہیا ہوئی لیکن پھر بھی آپ کو "عالم آل محمد ص" کا لقب ملا، یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ مناظرے اور علمی بحثیں جن میں امام علی رضا علیہ السلام نے حصہ لیا اس قدر اہمیت کی حامل تھیں کہ انکی وجہ سے آپ علیہ السلام کو "عالم آل محمد ص" کا لقب دیا گیا۔
امام علی رضا علیہ السلام کے مناظرے:
خلفای عباسی خاص اہداف کے تحت مختلف مذاہب اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ علمی مناظروں کی دعوت کرتے تھے۔ مامون عباسی کی شخصیت، افکار اور خصوصیات کا مطالعہ کرنے پر واضح ہوتا ہے کہ وہ ایسی علمی محافل کا انعقاد خاص سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے کرتا تھا۔ اگرچہ مامون عباسی خود بھی علمی بحثوں اور مناظروں میں دلچسپی رکھتا تھا لیکن وہ خلیفہ وقت کی حیثیت سے ایسا شخص نہیں تھا جو ایسے مناظروں اور مباحثوں سے خاندان پیغبر ص کی عظمت اور
حقانیت کو ظاہر کرنا چاہتا ہو یا علویون کی محبوب اور اہم شخصیت کو معاشرے میں متعارف کروانا چاہتا ہو یا اسکی لیاقت اور علمی برتری کو دوسروں پر آشکار کرنا چاہتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام علمی سرگرمیوں کے پیچھے سیاسی اہداف چھپے ہوئے تھے۔ اور بعید نہیں ہے کہ وہ کم از کم ایک دفعہ ہی سہی امام علی رضا علیہ السلام کو علمی حوالے سے مغلوب دیکھنے کی خواہش رکھتا ہو۔ بہرحال، مامون کے پس پردہ اہداف سے ہٹ کر ان مناظروں اور علمی مباحثوں کے نتائج امام علی رضا علیہ السلام کی عظمت اور علمی شان و شوکت میں اضافے کی صورت میں سامنے آتے تھے اور تشیع کی علمی اور عقیدتی بنیادوں کے مضبوط ہونے کا باعث بنتے تھے۔ عبدالسلام ھروی جو اکثر علمی مناظروں میں موجود تھا کہتا ہے: "میں نے کسی کو بھی امام علی رضا علیہ السلام سے زیادہ دانا نہیں پایا۔ کوئی بھی دانشمند ایسا نہیں ہے جس نے امام علی رضا علیہ السلام کو دیکھا ہو اور انکی علمی برتری کی گواہی نہ دی ہو۔ ایسی علمی محافل میں جن میں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے دانشمند، فقیہ اور علماء موجود تھے، امام علی رضا علیہ السلام ان سب پر غالب تھے۔ حتی کہ وہ اپنی علمی کمزوری اور امام علی رضا علیہ السلام کی علمی برتری کا اعتراف کرتے تھے"۔ ابراہیم بن عباس جو ان علمی محافل کا ایک اور عینی شاہد ہے کہتا ہے: "حضرت امام علی رضا علیہ السلام کسی بھی مسئلے کو جواب دیئے بغیر نہیں چھوڑتے تھے۔ علم و دانش میں میں نے کسی کو ان سے زیادہ دانا نہیں پایا۔ مامون جو سوال بھی اٹھاتا تھا اس کا مکمل جواب اس کو مل جاتا تھا۔ حضرت امام علی رضا علیہ السلام جو کچھ بھی فرماتے تھے قرآن سے فرماتے تھے"۔
مختلف ادیان اور مذاہب کے بارے میں امام علی رضا علیہ السلام کی آگاہی:
امام علی رضا علیہ السلام مختلف ادیان اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے علماء کے سوالات کا جوابات دینے کے علاوہ انکے دین کے مطابق دلائل پیش کرتے تھے۔ یہ امام علی رضا علیہ السلام
کی علمی استعداد کا ایک اور پہلو ہے۔ امام علی رضا علیہ السلام اہل تورات کے ساتھ تورات کے مطابق، اہل انجیل کے ساتھ انجیل کے مطابق، اہل زبور کے ساتھ زبور کے مطابق اور مختصر کلام یہ کہ ہر فرقے کے افراد کے ساتھ انکے اپنے فرقے کے اعتقادات اور دستورات کے مطابق استدلال کرتے تھے۔ محمد بن حسن نوفلی، امام علی رضا علیہ السلام کا صحابی، کہتا ہے: "جب امام علی رضا علیہ السلام مرو پہنچے تو مامون عباسی نے اپنے وزیر فضل بن سھل کو حکم دیا کہ مختلف مذاہب کے سربراہوں اور بڑے بڑے علماء کو جو مناظرے کے علم میں دوسروں سے برتر ہوں بلاو اور ایک علمی مناظرے کا اہتمام کرو۔ فضل بن سھل نے ستارہ پرستوں کے علماء، جاثلیق اور راس الجالوت، زتشتوں کے علماء، قسطاس رومی، اور کچھ دوسرے فرقوں کے علماء کو دعوت دی۔ ایک جلسہ تشکیل دیا گیا جس میں خلیفہ وقت مامون عباسی نے بھی شرکت کی۔ سب علماء کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مامون عباسی نے کہا: آپ لوگ اس وقت کے مشہور و معروف ترین علمی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔ اس جلسے کا مقصد یہ ہے کہ آپ لوگ حجاز کے اس مہمان [امام علی رضا علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے] کے ساتھ بحث اور گفگو کریں اور اپنے اپنے دلائل پیش کریں"۔ جلسے کے حاضرین نے اپنی آمادگی کا اعلان کیا اور وعدہ کیا کہ اپنی تمام تر علمی استعداد کو بروئے کار لائیں گے۔
اس واقعے کا نقل کرنے والا شخص محمد بن حسن نوفلی کہتا ہے: "میں امام علی رضا علیہ السلام کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ یاسر خادم آیا اور مامون کی طرف سے امام علیہ السلام کو اس مناظرے میں شرکت کی دعوت دی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "مامون کو میرا سلام پہنچا دو اور کہو کہ مجھے علم ہے تمہارا مقصد کیا ہے۔ انشاءاللہ کل صبح تمہارے پاس آوں گا"۔
اس کے چلے جانے کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: "تمہارا اس جلسے کے بارے میں جس میں مشرکین اور مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہیں کیا خیال ہے؟"۔
میں نے کہا: "اس جلسے میں جن کو دعوت دی گئی ہے وہ علماء سے مختلف ہیں کیونکہ علماء دلیل کے سامنے سر تسلیم خم کر لیتے ہیں لیکن یہ افراد منکر کے طور پر مشہور ہیں اور انکا کام مغالطہ کرنا ہے اور حق کی بات کو نہیں سنتے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ ان سے دوری اختیار کریں"۔ امام علی رضا علیہ السلام نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا: "کیا تم پریشان ہو کہ میں کافی حد تک دلائل نہیں دے پاوں گا؟"۔ میں نے عرض کی: "امیدوار ہوں کہ خداوند آپ کو ان پر کامیابی عطا کرے"۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "کیا تم جاننا چاہتے ہو کہ مامون کب اپنے کام سے پشیمان ہو گا؟"۔ میں نے کہا: جی۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "اس وقت جب وہ یہ سنے گا کہ میں اہل تورات کے ساتھ تورات کے مطابق، اہل انجیل کے ساتھ انجیل کے مطابق، اہل زبور کے ساتھ زبور کے مطابق، ستارہ پرستوں کے ساتھ عبری زبان میں، زرتشتی، موبدوں اور ھرابذوں کے ساتھ فارسی میں، رومیوں کے ساتھ رومی میں اور ہر فرقے اور مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ انکی اپنی زبان میں دلائل پیش کروں گا اور ان سے بحث و گفتگو کروں گا۔ جب تمام گروہوں کو لاجواب کر دوں گا اور وہ اپنے دلائل کے بطلان کو دیکھ لیں گے اور خاموش ہو جائیں گے اور میرے سامنے تسلیم ہو جائیں گے تو اس وقت مامون کو سمجھ آئے گی کہ جو اسکے دماغ اور سوچ میں ہے اسے ہر گز نہیں پا سکتا"۔ راوی کہتا ہے کہ اسی طرح ہوا اور یہ مناظرہ شرکاء کی ناکامی اور خلیفہ کی شرمندگی پر منتج ہوا۔
مختلف زبانوں پر امام علی رضا علیہ السلام کا عبور:
امام علی رضا علیہ السلام کی علمی شخصیت کا ایک اور شاہکار جو اردگرد کے افراد کی حیرت کا باعث تھا وہ مختلف زبانوں پر آپ علیہ السلام کا مکمل عبور تھا۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام علمی محافل اور مناظروں میں دوسرے ممالک سے آنے والے افراد کے ساتھ انکی زبان میں گفتگو فرماتے تھے۔ جناب اباصلت ھروی کہتے ہیں: "امام علی رضا
علیہ السلام لوگوں کے ساتھ انکی زبان میں بات کرتے تھے۔ خدا کی قسم وہ ہر زبان اور ثقافت کی نسبت عالم ترین اور فصیح و بلیغ ترین انسان تھے"۔ اسی طرح وہ مزید کہتے ہیں کہ میں نے امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی: "اے فرزند رسول خدا ص، میں مختلف زبانوں پر آپ کی اس قدر مہارت پر سخت حیران ہوں"۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: "میں لوگوں پر خدا کی حجت ہوں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا کسی کو لوگوں پر اپنی حجت قرار دے اور وہ انکی زبان نہ سمجھ سکتا ہو۔ کیا امیرالمومنین علی علیہ السلام کی یہ بات تم تک نہیں پہنچی کہ انہوں نے فرمایا: ہمیں "فصل الخطاب" عطا کیا گیا ہے جو زبانوں کی پہچان کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے"۔
مخالفین کا امام علی رضا علیہ السلام کی علمی برتری کا اعتراف کرنا:
جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے مامون عباسی علمی مناظرون کی تشکیل سے خاص اہداف حاصل کرنا چاہتا تھا جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
۱۔ عوام کی توجہ علمی بحثوں میں مبذول کر کے موجودہ سیاسی صورتحال سے ہٹانا، بالخصوص جب ملک کے گوشہ و کنار میں مختلف تحریکیں جنم لے چکی تھیں،
۲۔ خلیفہ وقت ہونے کے ناطے اپنی اور حکومت کی سرگرمیوں کو ایک ثقافتی رنگ دینا،
۳۔ یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ وہ خاندان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عظمت کا خواہاں ہے امام علی رضا علیہ السلام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرنا،
۴۔ امام علی رضا علیہ السلام کو علمی سرگرمیوں تک محدود کرنا،
۵۔ امام علی رضا علیہ السلام کو کم از کم ایک بار مغلوب کرنے کا زمینہ فراہم کرنا۔
بہر حال کسی ایک علمی محفل میں بھی مامون اپنے دلخواہ نتائج حاصل نہ کر سکا اور امام علی رضا علیہ السلام کی عظمت کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو گیا۔ تاریخ میں ایسے اعترافات کا موجود ہونا قابل توجہ ہے۔ ایک ایسے مناظرے کے دوران نماز کا وقت آنے پر امام علی رضا علیہ السلام نماز ادا کرنے کیلئے محفل سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔ مامون نے امام علیہ السلام کے چچا
محمد بن جعفر کو خطاب کرتے ہوئے کہا: "اپنے بھتیجے کو تم نے کیسے پایا؟"۔ انہوں نے جواب دیا: "وہ عالم اور دانشمند ہیں"۔ مامون نے کہا: "تمہارا بھتیجا خاندان پیغمبر ص سے ہے۔ ایسا خاندان جس کے بارے میں خود پیغمبر ص نے فرمایا: اے لوگو ہوشیار رہو، میرے خاندان کے نیک افراد اور میرے وجود کی شاخیں بچپن میں ہی سب سے عقلمند اور بڑے ہو کر سب سے زیادہ دانا ہوتے ہیں۔ انہیں پڑھانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ تم سے زیادہ دانا ہیں۔ وہ کبھی بھی تم لوگوں کو ہدایت کے دروازے سے باہر نکال کر گمراہی کی طرف نہیں لے جائیں گے"۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ مامون عباسی نے امام علی رضا علیہ السلام سے کچھ سوالات پوچھے اور امام علیہ السلام نے ان سب کے صحیح جواب اس کو دیئے۔ مامون نے کہا: "خدا مجھے تمہارے بعد زندہ نہ رکھے، خدا کی قسم صحیح علم سوائے خاندان پیغبر ص کے کہیں اور سے نہیں مل سکتا۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ نے اپنے آباء و اجداد کا علم ورثہ میں پایا ہے اور ان کا تمام علم آپ کو ملا ہے"۔
مامون عباسی کے اہداف سے ہٹ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام علی رضا علیہ السلام کا وسیع علم ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف کرنے پر دوست اور دشمن مجبور ہیں۔
علمی محفلوں کی تشکیل پر مامون کی پشیمانی:
مامون امام علیہ السلام کے ساتھ علماء کی علمی محفلوں اور مناظروں کے انعقاد کا اصرار کرتا تھا، لیکن بعد میں اپنے اس کام پر سخت پشیمان ہو گیا۔ مامون نے یہ کام صحیح محرکات اور علم دوستی کے تحت انجام نہیں دیا تھا۔ وہ امام علیہ السلام کی علمی شخصِت کو بھی متعارف کروانے کے درپے نہیں تھا۔ اس کا مقصد امام علیہ السلام کی تحقیر کرنا اور عوام کو ایسی علمی سرگرمیوں میں مشغول کرنا تھا۔ کیونکہ وہ اپنے ان تمام اہداف میں شکست کھا چکا تھا لہذا سخت شرمندہ تھا۔ اکثر محققین کی نظر میں یہی واقعات اس بات کا سبب بنے کہ مامون امام علی رضا علیہ السلام کو شہید کرنے کا منصوبہ بنائے۔
خبر کا کوڈ : 14229
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش