0
Saturday 7 Apr 2012 23:57

حماس کبھی الفتح نہیں بنے گی (2)

حماس کبھی الفتح نہیں بنے گی (2)
تحریر:زاہد مرتضیٰ

اسرائیلی وزیر دفاع ایہود بارک نے القیسی کے قتل کی جو توجیہہ پیش کی وہ یوں ہے کہ القیسی اسرائیل کے خلاف ایک بڑے حملے کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ غیر سرکاری ذرائع نے یہ دعویٰ کیا کہ القیسی اسرائیل اور مصر کی سرحدی علاقے سینائی میں جنگجوؤں کا ایک گروپ بھیجنے میں ملوث تھا تاکہ اسرائیل پر حملہ کیا جائے، پچھلے سال اس علاقے ایلات کے نزدیک اسرائیلی پٹرولنگ ٹیم پر ایک حملے میں 7صیہونی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ قبل ازیں القیسی کے پیشرو کمال نیرب پر اس حملے کا الزام تھا جنہیں تحقیقات شروع ہونے سے قبل ہی چھ ماہ پہلے اسرائیل نے نشانہ بنا دیا تھا۔

بعض مبصرین نے نیتن یاہو کی امریکہ یاترا کو ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم ایران کے ایٹمی پروگرام پر حملے کی دوبارہ سے جاری مہم میں امریکہ کی مدد و حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں اور انہیں واشنگٹن سے خالی ہاتھ واپس لوٹنا پڑا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ امریکہ نے اسرائیل کے ایران پر حملے کے منصوبے کو فی الحال ناقابل عمل قرار دے کر مسترد کر دیا ہے اور ممکنہ طور پر امریکی صدارتی انتخابات کے بعد شاید اس پلان پر امریکی ہدایت کے مطابق عمل کیا جائے گا لیکن نیتن یاہو امریکہ کے حالیہ دورے کو اپنی بڑی فتح قرار دیتا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ اسرائیل انتظامیہ نے درحقیقت پوری دنیا کو ایران کے ایٹم بم کے خطرے (جس کا کوئی وجود نہیں ) کی طرف متوجہ کر دیا ہے جبکہ دوسرا اہم پہلو جو باعث فخر ہے وہ یہ ہے کہ اس نے دورہ امریکہ کے دوران فلسطین ایشو کو پورے منظر عام سے یکسر غائب کر دیا ہے یعنی اس دورے کے دوران کسی بھی پلیٹ فارم پر فلسطین ایشو پر بات نہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ نیتن یاہو نے اپنی حکمت عملی سے مسئلہ فلسطین کو پس منظر میں دھکیل دیا اور امریکہ کو مسئلہ فلسطین کے کسی پہلو پر کوئی یقین دہانی تو دور کی بات ہے۔ اس مسئلہ کو کہیں بھی زیر بحث نہیں لایا گیا۔

لیکن دوسری طرف پوری دنیا یہ واقعات اپنی آنکھوں کے سامنے ملاحظہ کرتی ہے کہ امریکہ سے واپسی کے دو دنوں بعد ہی اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو غزہ پر چڑھ دوڑتے ہیں اور چار روز تک غزہ کے باسیوں، معصوم بچوں، خواتین کو اپنی بمباری کا نشانہ بنانا شروع کر دیتے ہیں۔ پوری دنیا اسرائیلی بربریت کا مشاہدہ کرتی ہے اور اسے قابل مذمت بھی ٹھراتی ہے، غزہ پر اسرائیلی حملے نے ثابت کر دیا کہ مسئلہ فلسطین اب بھی زندہ ہے اور اسرائیلی انتظامیہ کی اس غلط فہمی کو پاؤں کی ٹھوکر رکھتا ہے کہ اس نے مسئلہ فلسطین کو پس پردہ دھکیل دیا ہے۔ کیا کوئی عقلمند شخص نیتن یاہو اور باراک کی اس منطق سے قائل ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی بہترین حکمت عملی سے مسئلہ فلسطین کو دفن کر دیا۔ مسئلہ فلسطین ایک ایسا سلگتا ہوا دھماکہ خیز مواد ہے جو کسی بھی وقت علاقے کے امن و اما ن کو بھک سے اڑ سکتا ہے۔

اسرائیل کے رہنما ایک طرف مسئلہ فلسطین کو پس منظر میں دھکیلنے پر مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔ دوسری طرف خود ہی غزہ پر حملہ کرکے اسے پھر سے عالمی مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ درحقیقت نیتن یاہو نے ایران پر حملہ کے ایشو پر جنگ کی سفارتکاری میں ناکامی کے بعد مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرنے کا ایشو اٹھا کر عالمی سطح پر ہونے والی سبکی کی تلفی کم کرنے کی کوشش کی ہے۔

اسرائیل کی حالیہ جنگ کرنے کی وجوہات کیا تھیں؟
نیتن یاہو نے پچھلے دنوں لیکوڈ پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایم پیز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسلامک جہاد نے اسرائیل کے جنوب میں سب سے زیادہ راکٹ فائر کئے ہیں، اسلامک جہاد کو ایران کی سرپرستی حاصل ہے جو اسے اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ اس نے کہا اسلامک جہاد مکمل طور پر ایران کی ذیلی تنظیم ہے پس نہ صرف اس نے جنوبی اسرائیل کے امن کو تہہ و بالا کیا بلکہ ایران کو بھی عالمی دباؤ سے نکالنے کی کوشش کی تاکہ راکٹ باری کرکے اسرائیل کی تمام تر توجہ غزہ کی طرف مبذول کرا دی جائے، اس کا کہنا تھا کہ غزہ اور ایران ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں جب تک ایران کا خطرہ ٹالا نہیں جاتا، جنوبی اسرائیل پر غزہ سے ہونے والے میزائل حملوں کو روکا نہیں جا سکتا۔

نیتن یاہو نے یہ گفتگو جنوبی اسرائیل کے ان اسلامک جہاد کے راکٹوں سے متاثرہ جنوبی شہروں اشکلون، اشدود اور بیئر شیوا کا دورہ کرنے کے دوران کہی۔ درحقیقت نیتن یاہو کے اس موقف کے پیچھے حقائق یہ ہیں کہ اسرائیل کی ایک بڑی آبادی ایران پر حملے کے حق میں نہیں ہے۔ سوشل میڈیا اور مختلف سروے اس بات کا اظہار کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے شہری اسرائیل کی جنگ پسندی کی پالیسی کی زبردست مخالف ہیں۔ تل ابیب میں کئی ایک مظاہرے ہوئے ہیں جس میں اسرائیلی حکومت کی ایران پر حملے کی پالیسی کی مخالفت کی گئی ہے۔ غزہ پر بمباری کا ایک مقصد فلسطینی مزاحمت کاروں کو جواب دینے کیلئے انگیزہ فراہم کرنا تھا اور اسرائیلی ایسے ہی ردعمل کی توقع کر رہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ فلسطینی مزاحمت کار تنظیمیں غزہ پر حملے کا بھرپور اور جلد از جلد جواب دیں تاکہ اسرائیل اس ردعمل کو اپنی عوام اور عالمی برادری کے سامنے اپنے موقف کے جواب میں ایک دلیل کے طور پر پیش کرے اور عوامی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کر سکے جو ایران پر حملے کی مخالفت کر رہی ہے۔

اسرائیل یہ بھی چاہتا تھا کہ فلسطینیوں کو دانستہ طور پر مشتعل کرے تاکہ ایران اور فلسطینی جہادی تنظیموں کے درمیان قائم تعلق کا پراپیگنڈہ کر سکے۔ یہودی کالمسٹ اضحاک ہاروف " ہارتیز" میں لکھے اپنے ایک آرٹیکل میں کہتا ہے کہ ایران کے سپاہ پاسداران کے مجاہدین غزہ اور سینائی میں لڑ رہے ہیں، یہ جنگجو سوڈان اور مصر کے راستے سے غزہ میں داخل ہوئے۔ اسرائیل کے جنوبی علاقوں میں فائر کیے گئے حالیہ راکٹس لانچنگ سسٹم ایرانی سرپرستی میں بنائے جا رہے ہیں۔ اسلامک جہاد اور پاپولر کمیٹی نے جنگ بندی کے بعد ہی راکٹ حملے جاری رکھے، جو ان گروپس پر ایران کا دباؤ ظاہر کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 150209
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش