1
0
Sunday 29 Apr 2012 00:14

گلگت بلتستان میں قیام امن کا واحد حل

گلگت بلتستان میں قیام امن کا واحد حل
 تحریر: منظور حسین پروانہ
  
آج گلگت بلتستان کے بیس لاکھ انسان اپنے بنیادی حقوق سے یکسر محروم ہیں۔ گلگت بلتستان کی سرحدیں بیک وقت پاکستان، بھارت، چین اور وسطی ایشیائی ملکوں سے ملتی ہیں، جس کی وجہ سے اس خطے کو پوری دنیا میں اہمیت حاصل ہے۔ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ کے طور پر معروف ہے، جو انتظامی طور پر پاکستان کے کنٹرول میں ہے۔ یہ انتظامی کنٹرول اقوام متحدہ کی قرارداوں کے مطابق پاکستان کو تفویض کئے گئے ہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام گزشتہ 65 سالوں سے تمام تر انسانی حقوق سے محروم چلی آ رہی ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی شناخت اور حق حکمرانی سے بھی محروم ہیں۔ پاکستان کی انتظامی تحویل میں آنے کے بعد گلگت بلتستان میں مذہبی دہشتگردی کے بیج بوئے گئے تھے، جو آج ایک تناور درخت بن چکی ہے، اور اس درخت سے یہاں کے باسیوں کی زندگیاں پھل کی طرح وقتاً فوقتاً گرتی رہتی ہیں۔
 
گلگت بلتستان میں مذہبی دہشتگردی کوئی پرانی بات نہیں۔ فرقہ واریت کی جنم بومی سے پہلے یہاں تمام مسالک کے لوگ بھائیوں کی طرح رہتے تھے، ایک گھر میں اگر چار بھائی ہیں تو ایک شیعہ، ایک اہل سنت، ایک اسماعیلی اور ایک نوربخشی مکتب فکر کو اختیار کرتا اور آپس میں پیار و محبت سے رہتے تھے۔ پاکستان کے زیرانتظام آنے کے بعد جہاں لوگوں کی روزمرہ زندگی پر مثبت معاشی اثرات مرتب ہوئے، وہاں ان کے خیالوں کی دنیا بھی بدل گئی۔ شاہراہ قراقرم کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ آمد و رفت میں آسانی پیدا ہوئی تو لوگوں نے روزگار اور تعلیم کے لئے پاکستان کے شہروں کا رخ اختیار کیا اور پاکستان کے حکمرانوں نے بھی گلگت بلتستان پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لئے یہاں غیر مقامی لوگوں کو انتظامی عہدوں پر لانا شروع کیا۔ گلگت بلتستان میں اعلٰی انتظامی عہدے یہاں کے باسیوں کے لئے شجر ممنوعہ قرار پائے، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ گلگت بلتستان میں نو آبادیاتی نظام حکومت کی جڑیں مضبوط تر ہوتی گئی اور مقامی آبادی کے اندر احساس محرومی دن بہ دن بڑھنے لگا۔
 
گلگت بلتستان میں غیر مقامی سول اور ملٹری انتظامیہ کے ذریعے غیر مقامی لوگوں کو بسایا گیا، جس کا مقصد مقامی آبادی کی طرف سے کسی بھی ممکنہ بغاوت کو روکنے کے لئے پیشگی اقدام کرنا تھا۔ تمام مکاتب فکر کے علماء اور مذہبی تنظیموں کی سرپرستی سرکاری ایجنسیوں نے اپنے ہاتھوں میں لے لی اور مسجدوں کے اندر بھی اپنے اہلکار بھرتی کئے گئے۔ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے لئے پاکستان آنے والے دینی طلباء نے اپنے اپنے مکتب فکر کے مدارس میں داخلہ لیا اور مروجہ تعلیم کی غرض سے آنے والوں کو بھی مذہبی طلباء جماعتوں کا سہارا لینا پڑا کیونکہ کسی طلباء جماعت سے وابستگی کے بغیر ان کا داخلہ اور تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ممکن نہیں تھا۔ یہ کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہو گا کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو پاکستان میں بطور پاکستانی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی بلکہ اپنے اپنے مسلک میں پناگاہیں مل گئی۔
 
آج پاکستان کے دینی مدارس اور مساجد میں امامت کے فرائض انجام دینے اور مساجد کی دیکھ بھال کرنے والوں میں اکثریت کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ کراچی سے لے کر خیبر تک مذہبی جماعتوں کے جلسہ جلوس کو کامیاب بنانے اور دنیا کے دیگر ملکوں اور انسانوں سے نفرت کا اظہار کرنے کی پوری پوری ذمہ داری گلگت بلتستان کے لوگوں کا دینی اور قومی فریضہ بن چکی ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے لئے کمک کے طور پر کام کرتے ہیں۔
 
مختلف مکاتب فکر کے مدارس اور مختلف مذہبی جماعتوں کے زیرتربیت رہنے کے بعد گلگت بلتستان کی طرف لوٹنے والوں کی اکثریت نے اپنے اپنے حلقہ و احباب میں مسلکی وابستگی کو فروغ دینا شروع کیا، جس سے گلگت بلتستان میں صدیوں سے قائم مذہبی ہم آہنگی اور اخوت، فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ حکومتی اداروں کی سرپرستی اور مذہبی جماعتوں کی مدد سے گلگت بلتستان کے لوگوں کو مذہبی انتہا پسندی کی طرف دھکیلا گیا۔ سرکاری اداروں کی سرپرستی میں ہر مکتب فکر کے جہادی گروپ بنائے گئے اور ان کو تربیت کے ساتھ ساتھ انکے گھر والوں کو خرچہ بھی ملتا رہا۔

1988ء کی لشکر کشی نے گلگت بلتستان میں فرقہ واریت کو نئی شکل دی۔ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے اور گلگت بلتستان میں "نوگو ایریاز" قائم ہوئے اپنی برتری، فتح کی ہوس اور عدم تحفظ نے اسلحے کی خرید و فروخت کا بازار گرم کر دیا۔ سرکاری اداروں نے یا تو اپنی آنکھیں بند رکھی یا ان لوگوں کو گلگت اسلحہ پہنچانے میں تعاون کیا۔ گلگت بلتستان کو دنیا سے ملانے والا واحد راستہ شاہراہ قراقرم ہے جہاں جگہ جگہ سکیورٹی چیک پوسٹیں موجود ہونے کے باوجود تباہ کن اسلحوں کی کھیپ در کھیپ گلگت پہنچتی رہی۔
 
گلگت بلتستان میں معاشی مفادات، زبان و کلچر، تہذیب و تمدن اور قومی تشخص کے لئے کام کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ گلگت بلتستان کو ایک قومیت کا تصور دے کر بھائی چارگی اور امن و محبت کی بات کرنا جرم قرار دیا گیا اور علاقے کے حقوق کی بات کرنے والے غدار اور باغی قرار دئیے گئے اور مذہبی منافرت پھیلانے والوں کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی گئی۔ جس کی وجہ سے گلگت بلتستان میں آج فرقہ واریت کا آتش فشاں بے قابو ہو گیا ہے۔ اگر گلگت بلتستان کے حقوق کے لئے بننے والی پرامن سیاسی پارٹیوں کو کچلنے کی کوشش نہ کرتی اور گلگت بلتستان میں قومی جماعتوں کو فروغ دیا جاتا تو آج دہشت کا راج دیکھنا نہیں پڑتا اور سرکاری اداروں کی ناکامی اور نااہلی آشکار نہ ہوتی۔
 
گلگت بلتستان کے لوگ گزشتہ جن لوگوں کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے، انہی قوتوں نے آج گلگت بلتستان کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا اور یہ قوتیں اپنی کارستانیوں کی پردہ پوشی کے لئے یہاں کے لوگوں کو ہی مشق ستم کا نشانہ بنا رہے ہیں، گلگت بلتستان گزشتہ دو مہینوں سے جہنم بنا ہوا ہے۔ 28 فروری 2012ء کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع کوہستان میں شاہراہ قراقرم پر دہشتگردوں نے راولپنڈی سے گلگت بلتستان جانے والی مسافر گاڑی کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے 18 مسافروں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔
 
حکومت پاکستان ان دہشتگردوں کے خلاف موثر کارروائی کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی، جس کی وجہ سے دہشتگردوں نے 3 اپریل 2012ء کو شاہراہ قراقرم پر چیلاس کے قریب راولپنڈی سے گلگت بلتستان جانے والی بسوں کو روک کر مسافروں کو گاڑیوں سے نیچے اتارا اور شناخت کے بعد شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے 12 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور 6 بسوں کو مسافروں کے سازو سامان کے ساتھ آگ لگا دی گئی۔ سانحہ چیلاس سول انتظامیہ اور سکیورٹی ادارں کی ناکامی کا ایک اور منہ بولتا ثبوت ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگوں کی باہمی ہم آہنگی، اخوت اور انسانی ہمدردی کی جھلکیاں ان پرتشدد حالات میں بھی سامنے آئی۔ چیلاس میں مقامی لوگوں نے 200 سے زائد مسافروں کو زندہ چھوڑ دیا جبکہ نگر اور بلتستان کے عوام نے اپنا حق ادا کر کے سینکڑوں بے گناہ لوگوں کی جانوں کو تحفظ فراہم کیا۔
 
گلگت بلتستان کی صوبائی طرز والی حکومت نے چیلاس اور گلگت شہر میں اپنی انتظامی نااہلی کا اعتراف کرتے ہوئے گلگت شہر کو فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ فوج نے گلگت شہر کا کنٹرول سنبھالتے ہی کرفیو کا نفاذ کر دیا، جو عوام کی قوت برداشت سے باہر ہو رہا ہے۔ حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان میں مواصلاتی نظام کو جام کیا ہوا ہے۔ گلگت شہر میں مہینے سے کرفیو ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو خوراک، پانی اور ادویات کی فراہمی معطل ہو چکی ہے۔ لوگ علاج و معالجے کے حق سے بھی محروم ہے۔ طلباء تعلیم سے محروم ہیں، لوگوں سے کاروبار کرنے اور محنت مزدوری کرنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ جان بچانے والی ادویات اور اشیائے خورد و نوش کی عدم فراہمی سے خواتین اور بچوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہو گئی ہیں۔ گلگت میں کرفیو کی وجہ سے خطے کے تمام اضلاع متاثر ہو رہے ہیں۔ خطے میں عوام کی نقل و حمل اور گفت وشنید اور اجتماعات پر پابندی انسانی حقوق کی پاسداری کے اصولوں کی نفی کرتی ہے۔ 

حکومت نے مسجدوں کو سیل کر کے علماء پر پابندیاں لگانے کا اعلان کیا ہے جو کہ مذہبی آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے۔ یہ اقدامات وقتی طور پر حالات کو پرامن بنانے کے لئے شاید درست ہوں لیکن اس طرح کے سطحی اور مصنوعی اقدامات دیرپا ثابت نہیں ہو سکتے۔ یہ اقدامات دباؤ اور مجبوری کے تحت کئے ہونگے، اس طرح کے اقدامات کا نتیجہ بھی تباہ کن ہو گا۔ اگر مریض کے سر میں درد ہو اور اسے دل کی تکلیف کی دوا دی جائے تو وہ کیسے صحت یاب ہو گا۔ حکومتی ادارں نے گلگت بلتستان میں فرقہ واریت اور انتہاپسندی کی مہلک بیماری سے تدارک کے لئے کوئی سنجیدہ تشخیص نہیں کی، کیونکہ گلگت بلتستان میں امن انکے مفادات کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ وزیراعلٰی کا اپنے عہدے پر براجمان رہنا بھی امن کے عمل کو سبوتاژ کرسکتا ہے کیونکہ وہ ریاستی امور چلانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔
 
گلگت بلتستان جیسے جغرافیائی اہمیت کے حامل متنازعہ خطے میں اپنی طاقت کا لوہا منوانے کی دوڑ میں شامل مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو لگام دینے کی ضرورت ہے، پاکستان کے اندر سرگرم مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی گلگت بلتستان میں سرگرمیوں کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنا ہونگے، کیونکہ ان مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی وجہ سے گلگت بلتستان کے لوگوں میں احساس محرومی میں اضافہ ہو رہا ہے اور سادہ لوگ ان جماعتوں کے آلہ کار بن کر خطے میں مذہبی اور سیاسی منافرت پھیلاتے ہیں۔ 

گلگت بلتستان میں موجود غیرمقامی سول بیوروکریسی بھی اپنی کرسی بچانے کے لئے ہمیشہ ان لوگوں کا سہارا لیتی رہی۔ لہذا گلگت بلتستان میں تمام تر اعلٰی انتظامی عہدوں پر مقامی لوگوں کو تعین کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ گلگت بلتستان کی قومی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر پابندی اور غیر قومی اور غیر مقامی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی سرکاری سرپرستی میں نشو و نما جاری رکھنے کا سلسلہ جاری و ساری رہا تو گلگت بلتستان میں امن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔
 
گلگت بلتستان میں پائیدار امن کے لئے گلگت بلتستان میں قومیت اور اسلامیت کے تصور کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ کہ گلگت بلتستان میں بسنے والے ایک قوم ہیں، انکے معاشرتی، معاشی اور سیاسی مفادات ایک ہیں، ان کا جینا مرنا گلگت بلتستان سے وابستہ ہے، اگر گلگت بلتستان میں قومیت اور اسلامیت کے تصور کو پڑوان چڑھایا گیا تو مسلکی منافرت کی حوصلہ شکنی ہو گی۔ پاکستان میں سرگرم سیاسی و مذہبی جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کی خدمت میں دھرتی ماں گلگت بلتستان کی التجا ہے کہ
اگر نہیں کوئی چارہ گر، مجھے چھوڑ دے میرے حال پر
یہ تیری نوازش مختصر میرا درد اور بڑھا نہ دے
خبر کا کوڈ : 156871
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

kia ap khul kar bata sakte he keh 1988 me lahkar kashi kin logon ne ki the, or is waqt mazhabi jamatoon ka to ap ne tazkira kia lakin jo log bahar se (other than GB) se akar abad huwe he kusosan Gilgit or Chilas me ap ne un ka tazkira nahi kia, asl me wahi log GB me halt kharab karne ke zimadaar he yani Taliban / Al Qaeda borned millitants of Gilgit & Chilas
ہماری پیشکش