1
0
Monday 30 Apr 2012 23:20

امارات عرب میں بندہ مزدور کے اوقات(2)

یکم مئی کی مناسبت سے خصوصی تحریر
امارات عرب میں بندہ مزدور کے اوقات(2)
تحریر: سید اسد عباس تقوی 

گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے اوقات کار کچھ اس طرح تھے کہ اس میں چھٹی یا سکون کا تصور ہی محال تھا۔ ایک دن کی چھٹی ماہانہ اجرت کے طور پر ملنے والے ہزار درہم پر کچھ اس انداز سے بجلی بن کر گرتی کہ درہموں کی تعداد نو سو یا آٹھ سو رہ جاتی، جس میں امارات میں زندگی کے اخراجات کو پورا کرنا اور اور رقم پس انداز کرکے لواحقین کو بھیجنا ممکن نہیں رہتا تھا۔
بہرحال دبئی میں رہنے والے ہر مزدور کی اپنی کہانی، اپنی داستان اور اپنی روایت تھی۔ کوئی ادھار لے کر دبئی پہنچا تھا، تو کوئی زیوروں کے سر چڑھ کر ریت میں سونا تلاش کر رہا تھا۔ دبئی میں اپنے قیام کے دوران میں نے کسی ایسے مزدور کو نہیں دیکھا جو اپنی حالت سے خوش ہو۔ جب میں سوال کرتا کہ تم واپس کیوں نہیں چلے جاتے تو مختلف جوابات سامنے آتے۔ جنھیں اگر مجتمع کیا جائے تو اس کا خلاصہ یہی بنتا ہے کہ معاشی مجبوریاں واپس نہیں جانے دیتیں۔ میں نے اکثر ساتھی مزدوروں سے سنا کہ اس سے زیادہ تو میں پاکستان میں کما رہا تھا، گھر کی آسائش بھی تھی اور روزگار بھی، تاہم اب نہ گھر ہے اور نہ روزگار، ایک بیگار ہے جس میں زبردستی جکڑا گیا ہوں، خدا جانے کب رہائی ملے۔

کام کام اور کام سے اکتائے ہوئے مزدور جب کبھی کام پر نہ جاتے تو شام کے وقت مٹر گشتی اور عرب بینی کا پروگرام بنایا جاتا۔ اس مٹر گشتی کے دوران میں نے اکثر پاکستانی مزدوروں کو دیکھا کہ جب بھی وہ فضا میں کوئی جہاز اڑتا دیکھتے تو ہاتھ بلند کر کے پنجابی زبان میں اسے گالیاں دیتے، توں سانوں لے آیاں، ہن تیرے تے کدوں بواں گے (تو ہمیں لے تو آیا ہے اب دوبارہ کب تجھ پر سوار ہوں گے اور وطن واپس جائیں گے)۔ 

جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ عرب امارات اسلامی ریاستیں ہیں اور دیگر عرب اسلامی ممالک کی مانند وہاں کے دفاتر اور سرکاری اداروں میں جمعہ کے روز تعطیل ہوتی ہے، تاہم مزدور اس عنایت سے بھی محروم ہیں۔ سال میں کوئی ایسا دن نہیں کہ جب امارات میں کام کرنے والے مزدوروں کو چھٹی ملے۔ یوم مزدور یعنی یکم مئی تو ایک جانب عید کے روز بھی مزدور کام پر جاتے ہیں۔ ہندو، مسلم، سکھ، بدھ مت اور عیسائی کارکنوں کو بھرتی کرنے کا مقصد بھی شاید یہی ہو، کہ کام کسی صورت رکنے نہ پائے۔ ہندو دیوالی منائیں تو مسلمان کام کریں، مسلمان عید منائیں تو ہندو اور عیسائی کام کریں، عیسائی کرسمس کے موقع پرحاضر نہ ہوں تو مسلمان اور ہندو صنعت کا پہیہ چلاتے رہیں۔ امارات میں کام کرنے والے مزدوروں کی مذہبی رگ بھی کچھ کمزور پڑ جاتی ہے یا شاید وہ صنعتی دنیا کے اس چکر میں اس قدر گم ہو جاتے ہیں کہ دھرم، دین اور مذہب ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی لیے عید کے دن قریبی مساجد میں نماز عید ادا کرنے کے بعد مزدور دوڑے دوڑے اپنے کام پر پہنچتے ہیں، تاکہ آج کا دن ضائع نہ ہو جائے۔ محرم اور صفر کے مراسم کی نوعیت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ 

ان مجبور و محروم انسانوں کے برعکس ان کے عرب آقاﺅں کے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ جس کا کوئی حدو حساب نہیں۔ گھوڑوں، کتوں اور عقابوں پر خرچ کیے جانے والے پیسے کا ہی اندازہ لگایا جائے تو آپ کی حیرت کا کوئی ٹھکانا نہ رہے۔ امارات عرب میں ایک مزدور کی قیمت (جو حکومت کو بطور ٹیکس ادا کی جاتی ہے) پچیس سو درہم جبکہ ایک شکاری عقاب کی قیمت دو لاکھ امریکی ڈالر تک ہے۔ اس بات کا تو اس وقت پتہ چلا جب عقابوں کے تحفظ کی ایک تنظیم نے اپنی ویب سائٹ میں انکشاف کیا کہ امارات کے سربراہ شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے ایک Altai Gyrfalcon دو لاکھ امریکی ڈالروں میں خریدا ہے۔ اب نہیں معلوم کہ حقیقت میں وہ عقاب اتنا قیمتی تھا یا شاہ عرب کی امارت کے اظہار نے اسے اتنا گراں بہا بنا دیا۔ 

شہزادے تو شہزادے ہوتے ہیں، مملکت اسلامیہ کا سرمایہ ان کے بابا کی جاگیر ہے، وہ جیسا چاہیں اس کا استعمال کریں۔ گھوڑے خریدیں، کتے پالیں یا کچھ اور کریں، کسی کو کب حق پہنچتا ہے کہ ان سے سوال کرے۔ لاکھوں مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کو یہ شہزادے یوں اڑاتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔۔ شکار کرنا ہو تو بہاولپور کے صحرا اور بلوچستان کے پہاڑ ان کے آگے بچھ جاتے ہیں۔ جہازوں کے جہاز اپنے لاﺅ لشکر کے ہمراہ پاکستان کے صحرائی علاقوں میں اتارے جاتے ہیں، عارضی بستیاں بسائی جاتی ہیں اور شوق شکار پورا ہونے کے بعد سب کچھ سمیٹ کر اپنے دیس کو چل دیا جاتا ہے۔ خریداری کرنی ہو تو سوئزرلینڈ، فرانس اور یورپ ان کے لیے چشم براہ ہوتا ہے اور سہاگ راتیں تو وہ اپنے ملکیتی جزیروں سے کم تر کہیں نہیں مناتے، جبکہ دوسری طرف مزدور کو کھانے کے لیے ہزار درہم اور رہنے کے لیے چھت دے کر امارات عرب کے حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ حق زحمت ادا ہو گیا۔

لادین صنعت کاروں اور سرمایہ داروں سے اس قسم کے رویے کی توقع تو کی جا سکتی ہے، تاہم محمد عربی کی تعلیمات پر ایمان رکھنے والوں اور ان کے دیس پر حکومت کرنے والوں کو یہ سب زیب نہیں دیتا۔ زمانہ جاہلیت میں غلاموں کے ساتھ روا رکھے جانے والے وطیرے کو لیبر قوانین کے نام سے متعارف کرانے والے امرائے عرب، مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے، اپنی پارسائی کی دھاک بٹھانے اور اپنے دھن کو پاک کرنے کے لیے دنیا کے مخصوص علاقوں میں مذہبی سرمایہ کاری کرتے ہیں، لیکن کون نہیں جانتا کہ عربوں کی یہ مذہبی سرمایہ کاری آج دنیا میں نفرت، شدت پسندی کے وہ بیج بو چکی ہے جس کی فصلیں ہماری نسلوں نے کاٹنا شروع کر دی ہیں۔ مغرب اور مسلح جہادی گروہوں کے مابین پل کا کام کرنے والے یہ عرب امراء دونوں اطراف سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور اس منافع بخش کاروبار میں انگلیاں چوپڑ چوپڑ کر چاٹتے ہیں۔


اخلاق و انسانیت سے عاری جمہوریت پسند مغربی طاقتیں جو دنیا بھر میں سلطانی جمہور کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتیں، ان فراعین کو صرف اس لیے قبول کئے ہوئے ہیں کہ وہ اسلامی دنیا میں ان کے مفادات کے محافظ ہیں اور عالم اسلام کے جہادی ٹولے ان سے اس لیے چمٹے ہوئے ہیں کہ وہ دین یعنی ان کی سرگرمیوں اور فعالیتوں کے لیے سرمایہ مہیا کرتے ہیں۔ خدا وند کریم سے التجا ہے کہ وہ اس دنیا، بالخصوص عالم اسلام کو اس کے حقیقی وارثوں کی جانب پلٹا دے، تاکہ انسانیت کو دین کا وہ حقیقی چہرہ نظر آئے جو آج منافقتوں اور ریاکاریوں میں پنہاں ہے اور جو انسان کی ابدی فلاح اور کامیابی کا ضامن ہے۔ (آمین)
خبر کا کوڈ : 157902
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
یہاں مزدور کو موت کی جلدی یوں بھی ہے محسن

محنت کی کشاکش میں کفن مہنگا نہ ہو جائے
ہماری پیشکش