3
0
Tuesday 4 Sep 2012 08:35

4 ستمبر عالمی یوم حجاب کے نام

4 ستمبر عالمی یوم حجاب کے نام
تحریر: فضل ہادی حسن 

حال ہی میں لندن اولمپک 2012ء کے موقع پر سول سوسائٹی کے علمبرداروں کو خواتین کے حقوق اور آزادی سلب ہونے کی فکر پڑ گئی، جب سعودی عرب سمیت دیگر اسلامی ممالک کی اتھیلٹس نے حجاب کے بغیر کھیل میں شرکت کرنے سے انکار کردیا۔ مظاہرین کی تصویر دیکھ مجھے خوشگوار حیرت اس بات پر ہوئی کہ ایک طرف انسان کو اپنی رائے کی آزادی کے قصیدے سنائے جارہے ہیں تو دوسری طرف فرد کا ذاتی فعل (جو ہر انسان کا ذاتی حق ہے) کو زبردستی منع کرنے اور اس کے عمل کے خلاف مظاہروں سے دنیا کو اپنے دوہرے معیار کا بزبان حال پیغام دے رہے ہیں۔ 

مغرب ایک طر ف حریتِ نسواں کو عورت کا ذاتی معاملہ قرار دینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے بیٹھے ہیں کہ حجاب سے عورت کی آزادی سلب ہو رہی ہے لیکن دوسری طرف ان کے ہاں یہ معیار یکسر تبدیل ہوجاتا ہے، عورت کا پردہ معاشرے سے بغاوت اور ٹکراؤ قرار دیا جاتا ہے جبکہ مغرب میں پردہ اور نقاب عورت کا ذاتی معاملہ نہیں بلکہ معاشرے اور وہاں کی ثقافت کا مسئلہ بنایا جاتا ہے، مسلمان عورت کو اگر زبردستی نقاب اور پردہ پر مجبور کردیا گیا (جو ابھی تک ہوا نہیں ہے) تو یہ عورت کی آزادی چھیننا اور بنیادی حق سے محروم رکھنا تصور کیا جائے گا لیکن یورپ و مغرب میں عورت سے زبردستی پردہ چھیننا اور نقاب سے منع کرنا مغربی ثقافت کی خوبی اورجمہوریت کا کرشمہ و حسن قرار دیا جاتا ہے جس کیلئے باقاعدہ قانون سازی بھی کی جاتی ہے۔ اگر پاکستان سمیت کسی دوسرے اسلامی ملک میں یہ قانون سازی ہو جائے کہ’’ ساری عورتوں کیلئے نقاب اور برقعہ لازمی ہو گا‘‘ تو مغرب، میڈیا اور انسانی حقوق کے پجاری اس ایشو کو اسلام کے بدنامی کیلئے کتنا اُچھالیں گے !! لیکن فرانس، ہالینڈ، بلیجئم سمیت دیگر مغربی ممالک کی قانون سازی کو ان کی پارلیمنٹ کا احترام اور جمہوریت کا فیصلہ قرار دیا جاتا ہے۔ 

یہاں ایک دوسری غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ مغرب اس مذہبی معاملے سے انکار کررہا ہے لیکن مغربی معاشرے میں جو حشر مذہب کا ہوا ہے، اسی طر ح مسیحی مذہب کے شعائر کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ورنہ کلیساؤں میں سروں کو مکمل ڈھانپنے والی نَن اور راہباؤں نے خالصتاً مذہبی بنیاد پر پردہ کیا ہوتا ہے جوکہ اصل مسیحیّت کی ایک آخری نشانی قرار دی جاسکتی ہے، جبکہ اسلام معاشرے کو بگاڑ اور بےحیائی سے دور رکھنے کیلئے پردہ کو بنیادی اہمیت دیتا ہے ،اسلام ایک طرف مرد و زن دونوں کو اپنی اپنی نظریں نیچے کرنے کی تلقین کرتا ہے تو دوسری طرف عورت کو اپنا حُسن و زینت اپنے شوہر کے سوا کسی غیرمرد کو دکھانے سے منع کرتا ہے ،اسلام کا عورت کو تشہیر کا ذریعہ ،بدنی و جسمانی نمائش اور شوہر کے علاوہ غیر مردوں کے لئے شہوت ابھارنے کا آلہ بننے سے منع کرتے ہوئے دراصل معاشرے کو بگاڑسے بچانا اور عائلی زندگی کو محفوظ بنانا ہے۔ 

صرف پردہ کی وجہ سے عورت کو معاشرے سے دور رکھنے یا عورت کو قید کرنے کی نشانی سمجھنا بھی مغرب کی لاعلمی ہی قرار دیا جا سکتا ہے، آزادی و حریت نسواں، آزادی رائے اور جمہوریت مغرب کی اقدار اور بنیادیں ہیں تو مسلمان عورتوں کو حجاب سے منع کرنا آخر انسانی حق کو چھیننا نہیں تو کیا ہے۔۔۔؟؟ کیا کسی انسان کو زبردستی اس کی مرضی کے خلاف لباس پہنے پر مجبور کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔۔۔ ؟؟ آئین سازی کے ذریعہ سے مسلمان خواتین سے یہ حق چھینے والے کیا مہذب دنیا کے ٹھیکدار کہلانے کے قابل ہیں؟؟ علاوہ ازیں مسلمان ممالک میں اسلام کے زریں اصول غیر مسلموں کو اپنی مذہبی رسومات اور لباس کی مکمل آزادی کیساتھ حکومتِ وقت کو ان کی حفاظت کا پابند کرتا ہے۔ مغرب میں عورت کی عزت وقارکا جو معیار و پیمانہ ہے وہ اسلام اور اسلامی تعلیمات سے یکسر مختلف ہے۔ 

اس وقت پاکستانی معاشرہ کس طر ف جارہا ہے اور کیاسوچ رہاہے؟ یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن مجھے ان دانشوروں پر ترس آتا ہے جو پاکستانی ثقافت کو ہندوستانی ثقافت سے نتھی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بے شک پاکستان چونسٹھ سال پہلے وجود میں آیا ہے لیکن میرا وطن سندھی، پختون، پنجابی، سرائیکی، بلوچی ثقافتوں کا ایک خوبصورت گلدستہ اور مجموعہ ہے،جس میں ننگے سر، کھلے بال، بغیر دوپٹہ خاتون، نیم برہنہ بدن کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔ یہ پہلو انتہائی غور طلب ہے کہ ایک طرف فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک میں مسلمان روایات اور شعائر کو آئین سازی کے ذریعے مسخ کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف ہمارے ہاں معاشرے میں مغربی اور ہندو روایات و کلچر کو کھلے عام میڈیا کے مختلف ذرائع سے سمویا جارہا ہے، جو قومیں دوسروں کی روایات، رہن سہن اور ثقافت کو اپنانے کی کوشش کرتی ہیں و ہ کوے کی طرح اپنی چال(اپنی شناخت اور پہچان) بھول جاتی ہیں..
خبر کا کوڈ : 192507
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
محترم، آرٹیکل اچھا ہے، لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ نے اولمپک گیمز میں حجاب کی بات کرتے ہوئے صرف سعودیہ کا نام اور چند دوسرے ممالک کا ذکر ان کا نام لئے بغیر کیا ہے، جبکہ حجاب اور اسلامی اقدار کی پاسداری میں اس وقت دنیا بھر میں ایران پہلے نمبر پر ہے اس کے بعد کسی اور ملک کا نام آتا ہے۔ اور حجاب کی پابندی کی وجہ سے بارہا ایرانی ایتھلیٹس کو گیمز میں شرکت سے محروم ہونا پڑا، کیونکہ انہوں نے بغیر حجاب کے کھیلنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایران وہ واحد اسلامی ملک ہے جہاں دنیا کے ہر شعبے میں خواتین حجاب اسلامی کے ساتھ آپکو کام کرتی نظر آئیں گی، اور ان کی حکومت کی طرف سے ان پر کسی بھی شعبے میں کام کرنے پر پابندی نہیں۔ جبکہ سعودیہ میں ایسا نہیں۔
Pakistan
Good article
Pakistan
میں آپ کی رائے کی قدر کرتا ہوں، آپ نے جو لکھا ہے وہ ٹھیک ہے اور اس وقت ایران میں حجاب کو قدر ومنزلت حاصل ہے و ہ قابل رشک ہے. لیکن میرا مقصد دوسروں کی نفی نہیں تھا لیکن لندن اولمپک میں حجاب کا ایشو سعودی لڑکی کی وجہ سے ہی اٹھا تھا، اس وجہ سے میں نے صرف سعودیہ کا نام لکھا۔۔ اور مجھے فخر ہے کہ ایران اسلامی شعائر و اقدار کا محافظ ہے۔ شکریہ
فضل ہادی حسن
ہماری پیشکش