0
Saturday 15 Sep 2012 12:47

کروں نام پہ ترے جاں فدا

کروں نام پہ ترے جاں فدا
تحریر: ارشاد احمد عارف 
 
مسلمان سادہ لوح اور کمزور سہی مگر اتنے احمق اور بے حمیت نہیں جتنا امریکی اور یورپی خیال کرنے لگے ہیں، ورنہ لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں امریکی سفیر رچرڈ ہوگلینڈ ہرگز نہ فرماتے کہ ”اسلام کا غلط تاثر دکھانا ایک شخص کا ذاتی فعل ہے، یہ سارے امریکہ کی رائے نہیں۔“ 

غلط تاثر اور ذاتی رائے؟ بالکل غلط! پادری ٹیری جونز 2010ء سے ہر سال 11 ستمبر کے موقع پر امریکہ میں مقیم لاکھوں مسلمانوں کے علاوہ دنیا بھر کی ایک چوتھائی مسلم آبادی کو مشتعل کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی حرکت کرتا ہے۔ قرآن جلاتا، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب وشتم مسلمانوں کے عقیدے پر دلآزار تبصرے اور اب ایک ایسی فلم نمائش کے لئے پیش کرنے کا فیصلہ جس میں پیغمبر امن اور رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکروہ الزام تراشی، گھٹیا بہتان طرازی اور اخلاق سوز کردار کشی کا ہدف بنایا گیا ہے، مگر امریکی حکومت نے آج تک اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، حالانکہ وہ اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف عقیدے کی بناء پر منافرت پھیلانے، دنیا بھر میں امریکی فوجیوں اور مفادات کے لئے خطرات پیدا کرنے اور پیغمبر اسلام (ص) کی توہین کا مرتکب ہوا، جو امریکی آئین اور قانون کی صریح خلاف ورزی، قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔
 
دلآزار فلم INNOCENCE OF MUSLIMS کے اسرائیلی نژاد امریکی رائٹر، ڈائریکٹر اور فلمساز SAM BACILE نے اعتراف کیا ہے کہ فلم کے اخراجات 50 لاکھ ڈالر 100 متمول یہودیوں نے برداشت کئے اور ٹیری جونز کہتے ہیں کہ اس کا مصر اور لیبیا میں نمائش کا مقصد مسلمانوں کو نعوذ باللہ اپنے پیغمبر کے بارے میں حقائق سے آگاہ کرنا ہے۔ جب تک مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے رہے، اس وقت تک یہ امریکی حکمرانوں کے نزدیک اظہار رائے کی شخصی آزادی کا مسئلہ تھا۔
 
مگر جب لیبیا میں معمر القذافی کے گھر اور سرکاری عمارتوں پر حملہ کرنے والے احتجاجی ہجوم کو عوامی جذبات کے اظہار کا مروجہ طریقہ قرار دینے والے امریکہ کا اپنا سفارتخانہ اور سفیر زد میں آیا تو اوبامہ، ہیلری کلنٹن، پیٹریاس اور آرمی چیف ڈیمپسی میں سے کسی کو یہ باتیں یاد نہ رہیں اور ایک طرف جہاں اپنی عوام کے خلاف کارروائی کے لئے اوبامہ نے دو بحری بیڑے بن غازی روانہ کر دیئے، وہاں ڈیمپسی نے ٹیری جونز کو فون تک کر ڈالا کہ بندہ پرور! اپنی زبان اور سرگرمیاں بند رکھو، مسلم ممالک بالخصوص افغانستان میں ہمارے ہزاروں فوجیوں کی جانیں خطرہ میں ہیں۔
 
ان میں سے کسی کو یہ احساس نہ ہوا کہ جتنی امریکیوں کو جان پیاری ہے، اس سے کہیں زیادہ ہزار درجہ زائد مسلمانوں کو اپنا ایمان اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت و ناموس عزیز ہے۔
کروں نام پہ تیرے جان فدا
نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا
کروں کیا کروڑوں جہاں نہیں

اس سبب تو غازی علم الدین شہید، غازی عبدالقیوم کانپوری اور غازی عامر چیمہ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا کہ سند رہے اور دنیا کو پتہ چلے کہ مسلمان اپنے آقا و مولا کی جناب میں گستاخی برداشت نہیں کرتے، خواہ جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ 

دوسروں کا تو علم نہیں، مگر مجھے امریکی حکمرانوں کی اس منطق سے اتفاق نہیں کہ ٹیری جونز اور سامبیسلے نے جو کیا وہ ان کا ذاتی فعل ہے، گستاخ رسول سلمان رشدی کی شیطانی خرافات منظر عام پر آئیں تو اس مجہول شخص کو وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر نے مدعو کیا، سرکاری پذیرائی کی اور اس کے ذہنی افلاس کی داد دی، ایک ارب تیس کروڑ مسلمانوں کے آقا و مولا اور محسن انسانیت کی گستاخی کے سوا سلمان رشدی نے کونسا ”کارنامہ“ انجام دیا تھا، جس کی وجہ سے امریکی صدر نے اس کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کی اور برطانیہ سمیت ہر یورپی ملک نے امریکہ کی تقلید کی۔
 
ڈنمارک کے ایک وحشی، پاگل اور جاہل شخص نے خاکے بنائے تو اس کے گھٹیا اقدام کے حق میں دلائل کس نے دیئے؟ امریکی اور یورپی حکمرانوں اور مسلمانوں کو برداشت اور تحمل کرنے کی تلقین کی گئی، گویا مسلمانوں کی دلآزاری اور محسن انسانیت کی توہین بھی امریکی، اسرائیل اور یورپی باشندوں کا بنیادی اور پیدائشی حق ہے، جس کا احترام مسلمانوں کو بہرصورت کرنا چاہئے۔
 
حقیقت یہ ہے کہ توہین رسالت کا ارتکاب جب بھی ہوا، جس نے کیا، اس کے پس پردہ کوئی نہ کوئی شیطانی منصوبہ تھا، سپین کا پادری یویو جسٹس ہو، اس کی خوبرو محبوبہ فلورا، متحدہ ہندوستان کا راجپال ہو یا امریکہ کا پادری ٹیری جونز اور اس کا بغل بچہ سامبیسلے یہ ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور تہذیبوں کے تصادم کی راہ ہموار کرکے دنیا کے امن و سلامتی کو داؤ پر لگانے، مسلمانوں اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے پیروکاروں کو آپس میں لڑا کر عظیم صہیونیوں کی ریاست کے قیام کو یقینی بنانے کے خواہش مند۔
 
اسی لئے فلم کے لئے ایک دو نہیں سو صہیونیوں نے وسائل فراہم کئے کیونکہ گھامڑ گوروں اور گاؤدی امریکیوں سے کہیں زیادہ چالاک، عیار اور شاطر صہیونی جانتے ہیں کہ جب تک مسلمان ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں اپنے مرکز سے جڑے ہیں۔ ان کا ایمان اور جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلامت ہے، بدترین حالات میں بھی نہ تو ان کی تہذیبی شناخت کا خاتمہ ممکن ہے اور نہ انہیں سیاسی انفرادیت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ انہیں آتش نمرود میں ڈالو تو یہ کندن بن کر نکلتے ہیں، جس کو مثال ترکی اور مصر ہیں اور انشاءاللہ تیونس، لیبیا اور یمن بھی۔ 

بنابریں انہیں نہ تو فاقہ کشی سے مارنا ممکن ہے نہ سیاسی غلبے سے فنا کرنا آسان، چنانچہ مسلمانوں کے رگ و پے سے جذبہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھرچنے کے لئے توہین آمیز خاکوں، اشتعال انگیز فلموں اور قرآن جلاؤ تحریکوں کا سہارا لیا جا رہا ہے، کیونکہ ابلیس کی مجلس شوریٰ میں یہ طے پا چکا ہے کہ:
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمد اس کے بدن سے نکال دو 

امریکہ چونکہ ان صہیونیوں کا سرپرست ہے، بلکہ آلہ کار اور یورپ ان کے سامنے مجبور محض، اس لئے شرارتیں عروج پر ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے بدبختوں کی کمی نہیں جو کبھی قرارداد مقاصد پر حرف زنی کرتے ہیں، کبھی امریکی خواہش کے مطابق آئین کی مختلف دفعات بالخصوص قادیانیوں کے بارے میں متفقہ آئینی ترمیم اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295c پر معترض ہوتے اور کبھی نظریہ پاکستان کی آڑ میں ملک کے اسلامی تشخص کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں، مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ اقبال(رہ) و قائد(رہ) کے دیس میں اظہار رائے کے امریکی تصور کے مطابق ہر نوع کے سلمان رشدی کو شیطانی خرافات بکنے، ہر جنس کے ٹیری جونز قرآن مجید کے اوراق جلانے اور ہر برانڈ کے سام بیسلے کو دلآزار فلمیں بنانے کی آزادی ہو اور اسلامی ریاست ان بدبختوں کے لئے شداد کی جنت بن جائے۔
 
فحاشی، بے راہروی، ہم جنس پرستی، جسم فروشی، جو اسلامی تعلیمات کے مطابق انسانوں کی تذلیل اور معاشرے کے لئے تباہ کن افعال ہیں عام ہو، کوئی معترض نہ ہو، انگور کی بیٹی ہر کسی کو ظرف اور ذوق کے مطابق ارزاں ملے، کوئی قانون رکاوٹ نہ بنے، مسلمانوں کے عقائد، نظریات، تہذیبی تصورات اور دینی شعائر کے خلاف بیہودہ گوئی کی اجازت ہو، کوئی مزاحمت نہ کرے اور توہین رسالت کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا جائے، مگر کوئی بے عمل، جذباتی اور بھولا بھٹکا مسلمان اس پر آمادہ نہیں، جس پر امریکہ و یورپ کے علاوہ ان کے ذہنی غلام پریشان جبکہ مسلمان حیران ہو کہ آخر علم و دانش کے پیکر اور عالمی قیادت کے دعویدار آج تک محسن انسانیت اور گناہ گار امتیوں کے مابین رشتہ و پیوند کو سمجھ کیوں نہیں پائے؟ گدھے کہیں کے۔
"روزنامہ جنگ"
خبر کا کوڈ : 195550
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش