0
Wednesday 9 Jan 2013 14:27

امریکہ دنیا کی سب سے بڑی قانون شکن حکومت (حصہ دوم )

امریکہ دنیا کی سب سے بڑی قانون شکن حکومت (حصہ دوم )
تحریر: صابر کربلائی
ریسرچ سکالر
(گذشتہ سے پیوستہ) 

یہ کون سا قانون ہے جو امریکہ کو اجازت دیتا ہے کہ وہ شام کے اندر دہشت گرد گروہوں کی حمایت کرے؟ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کس قانون کے تحت شام کی حکومت کے خلاف مالی بجٹ منظور کرواتی ہے؟ میں دنیا کی باضمیر اور شریف حکومتوں سے سوال کرنا چاہتا ہوں اور ہر اس انسان سے کہ جس کے سینہ میں دل دھڑکتا ہے آپ لوگ مجھے بتائیں کہ آخر کون سا ایسا قانون ہے جس نے امریکہ کو اجازت دی ہے کہ وہ درج بالا افعال انجام دے اور دنیا میں جہاں چاہے قتل و غارت کا بازار گرم کرے؟ میں سوال کرتا ہوں کہ آخر کس قانون کے تحت ابھی تک امریکی افواج دوسرے ممالک خصوصاً افغانستان، پاکستان، ترکی، بحرین، قطر، یمن اور صومالیہ میں موجود ہیں؟ 

ایک طرف امریکہ ایران کے پرامن ایٹمی منصوبوں کو بند کرنے کی کوششیں کر رہا ہے اور دوسری طرف اسرائیل جیسی غیر قانونی اور غاصب صیہونی ریاست کے ایٹمی اسلحے کے منصوبوں اور ایٹم بموں کو جائز تصور کرتا ہے۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آخر وہ کون سے بین الاقوامی قوانین ہیں کہ جن کی رو سے امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل تو ایٹمی ہتھیار بنا سکتے ہیں اور نہ صرف بناسکتے ہیں بلکہ دنیا بھر میں مظلوم قوموں پر آزما بھی رہے ہیں جبکہ ایران اور دیگر ممالک جو اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول میں کوشاں ہیں ان پر امریکا اور اس کے اتحادی بعض ممالک پابندی لگا دیتے ہیں۔ اگر اسرائیل کے پاس 2سو سے زائد ایٹم بم موجود ہوں تو وہ قوانین کے زمرے میں نہیں آتے اور اگر پاکستان ایٹمی طاقت بن جائے تو پاکستان کے ایٹمی منصوبوں کو تہہ و تیغ کرنے کے لئے پاکستان کو مکمل غلامی میں لینے کی سازش کی جاتی ہے۔ میں پھر یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آخر یہ کون سا قانون ہے جس نے امریکہ کو اس بات کی اجازت دے رکھی ہے؟ 

میں یہ سمجھتا ہوں کہ امریکی حکومت لاقانونیت کا مظہر ہے۔ دنیا کی وہ حکومت جو جنگل کے قانون یعنی بےلگام طاقت کے بےلگام استعمال کے حیوانی اصول پر عمل پیرا ہے وہ امریکی حکومت ہے۔ آج فتنہ گر قوتیں جس کام کے پیچھے سنجیدگی سے پڑی ہوئی ہیں وہ مسلمانوں کے اندر مذہبی اختلافات کو ایجاد کرنا ہے۔ دنیا کے مسلمان علاقوں کی اسٹرٹیجک اہمیت اور تیل اور دیگر قدرتی ذخائر سے مالا مال ہونے کے ناطے عالمی استکباری قوتوں کی نظریں ان پر جمی ہوئی ہیں اور جو چیز انکے پست مقاصد کے سامنے رکاوٹ بنی ہوئی ہے وہ اسلام ہے۔ لہٰذا اس مسئلے سے نپٹنے کیلئے جو راستہ انہوں نے اختیار کیا ہے وہ مسلمانوں کے اندر مذہبی اختلافات کو ایجاد کرنا اور انہیں ہوا دینا ہے۔ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ان حقائق کو آشکار کریں اور لوگوں کو دشمن کی سازشوں سے آگاہ کریں۔
 
یہاں ایک اور بات بھی واضح رہے کہ اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ امریکی دولت کے انبار ختم ہو رہے ہیں۔ امریکہ میں بےروزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے۔ ہر دو تین ماہ میں درجنوں بینک اور کمپنیاں دیوالیہ ہو رہی ہیں۔ جس فوجی قوت پر امریکہ کو ناز تھا اس فوجی قوت کے غبارے سے ہوا نکل رہی ہے جس کی تازہ مثال حزب اللہ لبنان کی جانب سے مقبوضہ فلسطین بھیجا جانے والا ایک جاسوس ڈرون طیارہ ہے۔ اس نے امریکی اور اسرائیلی ٹیکنالوجی کو شکست فاش دے دی ہے۔ اس ڈرون طیارے نے چار گھنٹے سے زائد مقبوضہ فلسطین کی فضائوں میں پرواز کرنے کے ساتھ ساتھ غاصب اسرائیل کی اہم تنصیبات کی معلومات بھی فراہم کیں۔ دراصل حزب اللہ کا ڈرون طیارہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو دی جانے والی ٹیکنالوجی کا جواب اور امریکہ اور اسرائیل کے منہ پر براہ راست تھپڑ تھا۔ 

آج امریکہ تنہا ہوتا جا رہا ہے۔ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ امریکہ جب کسی دوسرے ملک میں اپنی فوجیں بھیجنے کی بات کرتا ہے یا تو اس ملک کی حکومت امریکہ کا ساتھ نہیں دے رہی یا پھر اس ملک کے عوام مزاحمت کر رہے ہیں۔ یہ ساری مثالیں اس حقیقت کا مظہر ہیں کہ امریکی خوابوں کی امریکی تعبیر کی راہ میں ناقابل عبور رکاوٹیں موجود ہیں۔ آج دنیا میں امریکی حکومت قانون شکنی کی وجہ سے سب سے زیادہ نفرت کی مستحق قرار دی جا رہی ہے۔ 

دنیا حیران و پریشان ہے کہ دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لئے قائم کیا جانے والا عالمی ادارہ بھی امریکی حکومت کی قانون شکنیوں اور سازشوں سے محفوظ نہیں رہا ہے۔ آج امریکہ اقوام متحدہ کو ایک کٹھ پتلی کی طرح استعمال کر رہا ہے لیکن کیا یہ کھیل زیادہ عرصہ جاری رہ پائے گا؟ میرا خیال ہے کہ امریکی حکومت کے پاس اب بھی وقت ہے کہ وہ سنبھل جائے۔ اپنی اصلاح کرے اور دنیا بھر میں کھولے گئے محاذوں کو بند کر کے اپنے ملک کے عوام کی خدمت کرے۔ اسے سوویت یونین کے انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہئیے کیونکہ ہر گذرتا ہوا لمحہ امریکہ کی نابودی کو قریب لارہا ہے۔ دنیا کے مظلوم اور مستضعفین کی حکومت کا وقت شروع ہو چکا ہے۔
 
آج بھی وقت ہے کہ امریکی حکومت سنبھل جائے ورنہ پھر ہمارے پاس کہنے کو صرف یہ الفاظ ہی باقی ہوں گے۔ ''اب پانی سر سے اونچا ہو چکا، قاضی تقدیر نے اپنا فیصلہ لکھ دیا ہے، جب پلٹنے کا وقت تھا اس وقت تو پلٹے نہیں، اب بس فیصلہ نافذ ہونے کا انتظار کرو۔ میں آسمانوں سے مشاہدہ کر رہا ہوں کہ بہت جلد تم اب مجھ سے آن ملنے والے ہو۔ اس زمین کا مقدر آخری نبی (ص) کی امت سے وابستہ کردیا گیا ہے۔ اٹھارہویں صدی اس امت پر غلامی کی صدی تھی۔ انیسویں صدی میں اس امت میں بیداری کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ بیسویں صدی میں مسلمانوں نے آزادیاں حاصل کیں، لیکن تمہاری معاشی، سیاسی اور تہذیبی بیڑیاں ان کے دامن گیر رہیں۔ اب بہت جلد یہ امت تمہاری مسلط کی ہوئی مصنوعی قیادت سے چھٹکارا پانے والی ہے اور اس کرہ ارض سے تمہارا بوریا بستر گول ہونے والا ہے۔ میں بھی انتظار کررہا ہوں تم بھی منتظرر ہو''۔
خبر کا کوڈ : 229438
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش