0
Wednesday 16 Jan 2013 20:35

لہو جتنا تھا سارا صرفِ مقتل ہوگیا لیکن

لہو جتنا تھا سارا صرفِ مقتل ہوگیا لیکن
تحریر: ارشاد حسین ناصر

آغازِ سال یعنی 10 جنوری کی رات کو پاکستان کے رقبہ کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ میں ایسی قیامت ٹوٹی، جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا، گذشتہ کئی برسوں سے کوئٹہ ملکی و عالمی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی توجہ حاصل نہیں کر پایا تھا، مگر 10 جنوری کو ہونے والے دھماکوں کے بعد آنے والی قیامت نے کچھ ایسے اثرات مرتب کئے کہ سانحہ کوئٹہ اب ہر کسی کا ورد زبان بن گیا ہے۔ یہاں پر چار دن تک ہونے والا احتجاج تاریخ پاکستان میں ایک یادگار اور مثال کے طور پر یاد رہے گا۔ کوئٹہ میں 2003ء سے اہل تشیع کے ساتھ طلم و بر بریت اور دہشت گردی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے مگر 10جنوری کی شب ہونے والی یہ کارروائی اب تک ہونے والی سب سے بڑی کارروائی تھی، جس میں 120 کے لگ بھگ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔
 
10 جنوری کے دھماکے سے قبل یوم القدس دھماکہ جو تقریباً اڑھائی سال قبل ہوا تھا، سب سے شدید تر تھا، اس میں 70 سے زائد لوگ شہید و زخمی ہوئے تھے۔ 10 جنوری کو پہلا دھماکہ جو ایک اسنوکر کلب میں ہوا 6/7 لوگ مارے گئے، جبکہ بعد والا دھماکہ جو ایک ایمبولینس کے ذریعے کیا گیا، میں زیادہ لوگ شہید ہوئے۔ اس دھماکہ کی زد میں قریبی امام بارگاہ میں ہونے والی مجلس کے شرکاء جو دھماکہ کی آواز سن کر جائے وقوعہ پر پہنچے تھے، تاکہ زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا جاسکے، اسی طرح امدادی تنظیموں کے کارکنان و رضاکاران، پولیس اور میڈیا کے لوگ آئے تھے۔ 

کوئٹہ ان دنوں سردی کی شدید لپیٹ میں ہوتا ہے، درجہ حرارت منفی ڈگری تک پہنچ جاتا ہے اور شدید سردی کے باعث عام طور پر لوگ رات کے وقت گھروں میں مقید ہو کر رہ جاتے ہیں، یہ رات چونکہ شب جمعہ و شب شہادت رسول اللہ (ص) و امام حسن مجتبٰی (ع) تھی اور دھماکے کی جگہ سے نزدیکی امام بارگاہ میں مجلس و ماتم کا پروگرام بھی تھا، اس لئے لوگ زیادہ تعداد میں جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور یوں دہشت گرد اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ ایسے مواقع پر سخت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، کئی ایک بار دہشت گرد یہ حربہ اور ٹیکنیک استعمال کرچکے ہیں، لاہور میں یوم علی (ع) کے جلوس میں ہونے والے دھماکوں میں بھی یہی ٹیکنیک استعمال کی گئی تھی، پہلے ایک چھوٹا دھماکہ کیا گیا، بعد ازاں معمولی وقفہ سے رش میں بڑا دھماکہ ہوا، جس میں انسانی جانوں کا نقصان زیادہ ہوا۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
 
عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ جہاں بھی کسی کی فطری یا غیر فطری موت واقع ہو جائے تو میت کو جلد از جلد دفنانے کی بات کی جاتی ہے۔ شرعی نقطہء نظر سے بھی ایسا ہی کرنے کا حکم ہے۔ جب کہ اس طرح کا سانحہ یا حادثہ جس میں انسانی لاشیں چیتھڑوں میں بدل جائیں اور انتظامیہ و ایجنسیوں کے افراد اپنے ساتھ مربوط افراد کو بیچ میں لا کر میت کو جلد از جلد دفنانے کی سازش کرتے ہیں، تاکہ جنازہ احتجاج اور مظاہرے کی شکل اختیار نہ کرے، تاکہ نااہل حکمرانوں کے بارے عالمی و ملکی سطح پر کسی قسم کا منفی تاثر سامنے نہ آئے، یہ سب کچھ تو کئی ایک بار اسی سرزمین پر ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہر کوئی اپنی اپنی میت کو لے جا کر دفنا آتا ہے، اسکے بعد کچھ پتہ نہیں چلتا۔

حالیہ سانحہ کے بعد 86 جنازوں کے ساتھ علمدار روڑ پر ایک ہی موقف کے ساتھ ڈٹ جانا یقیناً لطف خداوندی اور نگاہ حضرت حجت امام المہدی (عج) کا نتیجہ ہی ہے۔ اس کو اگر شہداء کے پاک لہو کا اعجاز بھی کہیں تو بجا ہے۔ 86 شہداء کے جنازوں کے ساتھ ان کے ورثاء اور ہزاروں کی تعداد میں مومنین مسلسل موجود رہے۔ بلاشبہ یہ ایک صبر آزما جنگی مرحلہ سے کم نہ تھا، یہ صبر و استقامت کا امتحان تھا۔
خاک سے روز نکلتا ہے شہیدوں کا جلوس
صورت لالہ و گل لشکرِ خونیں کفناں
11 جنوری کی دوپہر سے لیکر 14جنوری کی دوپہر تک جنازے علمدار روڑ پر رکھے تھے، یہ موسم سے بھی جنگ تھی، یہ اپنوں اور غیروں سے بھی جنگ تھی، یہ طرح طرح کی باتیں بنانے اور شریعت کا سبق پڑھانے والوں سے بھی جنگ تھی، یہ ایجنسیوں اور انکے ایجنٹوں سے بھی جنگ تھی، موسم کا یہ حال کہ منفی آٹھ اور دس کی یخ بستگی، جنازے اس حال میں کھلے آسمان تلے کہ مائیں اور بہنیں اپنے پیاروں سے لپٹ کر بیٹھی ہوئی ہیں، قدرت کسی پر مہربان ہو تو اسے آزمائشوں کی بھٹی میں پکاتی ہے، امتحان در امتحان کا سلسلہ ہوتا ہے، جس سے گذارا جاتا ہے، انبیاء، اولیاء، آئمہ، اوصیاء کی تاریخیں اٹھا کر دیکھ لیں،آپ کو آزمائشوں میں گھرے دکھائی دیں گے، امتحانوں میں کندن بنتے نظر آئیں گے۔
 
یہاں بھی آزمائشوں کا طویل سلسلہ تھا، ان تمام مراحل کو بہت خوبصورت انداز میں نبھایا گیا۔ یہاں اگر کسی کے لخت جگروں کی جدائی کا امتحان تھا تو کسی کے سہاگ لٹ جانے کا غم بھی تھا، کوئی اپنے باپ کے بچھڑ جانے کا دکھ لئے بیٹھا تھا تو کوئی اپنے جوان سال بھائی کا دکھ لئے ہوئے تھا۔۔۔ ان تمام دکھوں اور غموں کے ساتھ اعصابی جنگ کا طویل سلسلہ جس میں کئی ایک اطراف سے حملے تھے۔ بارش اور موسم کی سختی، میڈیا کی عدم توجہی، حکمرانوں کی بےرخی ، مطالبات کی نامنظوری جیسے مایوسیوں کو جنم دینے والے کئی ایک مراحل سے گذرنا قابل تقلید مثال ہے۔ 

شہداء کے لاشوں کے ساتھ پرامن احتجاج نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور ملک کے اہم شہروں کراچی، لاہور کے ساتھ ملک کے گوش و کنار کے علاوہ دنیا کے کئی ایک ممالک میں یکجہتی دھرنوں نے بالآخر دنیا کی توجہ اس اہم ترین ایشو نے حاصل کرلی اور مظلوموں کی آواز سرحدوں کو عبور کرکے دنیا کے کئی ایک ممالک میں سنائی دینے لگے، ورثاء کی طرف سے جو ایک ہی مطالبہ سامنے آیا، وہ بھی ہر ایک کیلئے قابل قبول تھا، سوائے ان لوگوں کے جن کے مفادات اور لوٹ مار کے ایجنڈے کو ٹھیس پہنچی تھی، چار دن کی اس طویل جدوجہد سے ملت میں بیداری کا ایک نیا جذبہ پیدا ہوا، شہداء کے جنازوں نے ملت کے تمام طبقات جن میں علماء ،ذاکرین، واعظین ملنگ، خواتین، بچوں، بڑوں، طلباء میں ایک نئی روح پھونک دی، اور وحدت کے ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جن کو دیکھنے کیلئے آنکھیں ترس گئی تھیں۔
 
میں ذاتی طور پر لاہور کے دھرنے میں شروع سے لیکر آخر تک رہا، کوئٹہ اور کراچی سمیت کئی ایک شہروں کے دھرنوں کی بذریعہ ٹیلی فون پل پل خبریں حاصل کرتا رہا، جبکہ دنیا بھر سے ایس ایم ایس کے ذریعے الرٹ آتے رہے۔ ملک بھر میں جاری دھرنوں سے آنے والی رپورٹس کے مطابق ہر دھرنا کی صورت حال ایک جیسی تھی، ایک جیسا خوشگوار ماحول، ایک جیسا وحدت آفرین پیغام، ایک جیسا مطالبہ، ایک ہی عزم کہ ہم اس وقت تک بیٹھیں گے جب تک وارثان شہداء بیٹھیں گے۔۔ اور امام (عج) کی نصرت دیکھیں کہ اگر اس طرح کا پروگرام منظم کرنا ہو تو فنڈز کا کس قدر مسئلہ ہوتا ہے، یہاں ڈونرز زیادہ تھے، کھانا ہر دن اور وقت وافر تھا، نہ جانے کیا کچھ تھا جو لوگ اپنے طور پر لے کر آ رہے تھے۔
 
میں خود بعض ناتواں و کمزور و ضعیف لوگوں کو دودھ کا ڈبہ، چائے کا ایک پیکٹ، یا چودہ معصوموں کے نام پر گھر سے چودہ روٹیاں لا کر بانٹتے دیکھا ہے، ہر ایک اپنے طور پر جو توفیق رکھتا تھا لے آیا تھا، لوگوں کے شعور کا کیا کہنا کہ لاہور دھرنے میں ایک مومن گرم شالز اور گرم جیکٹس بھی بانٹ رہا تھا۔ یقین کریں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ یہ منظر ہم نے آج سے 24سال قبل کوٹلہ جام (بھکر) میں اس وقت دیکھے تھے، جب ڈیرہ اسماعیل خان کے رکے ہوئے جلوسوں کو برآمد کروانے کیلئے پوری قوم کو کال دی گئی تھی۔ حسینی چوک پر ایسے ہی جذباتی مناظر ہوا کرتے تھے۔ ہم امامیہ اسکاوئٹس میں شامل اسٹیج پر ڈیوٹی دیتے تھے اور لمحہ بہ لمحہ صورت حال سے لطف اندوز ہوتے تھے، وہاں کے مومنین نے بھی سچے جذبوں کی مثالیں قائم کر دی تھیں۔

ہمیں اگر ان دھرنوں میں کوئی کمی نظر آئی تو ان شہداء کے وجود کا نظر نہ آنا تھا، جنہوں نے ایسے ماحول اور مناظر برپا کرنے کیلئے سخت جدوجہد کی تھی اور اس جدوجہد میں اپنی جانیں قربان کر چکے تھے، خصوصی طور پر ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کہ جو ایسی مجالس و محافل کے روحِ رواں ہوا کرتے تھے، ان کو نہ پا کر ایک لمحہ کیلئے آنسووں کی ایک جھڑی لگ گئی تھی، پھر میں نے خود کو حوصلہ دیا کہ شہید کی روح یقیناً موجود ہے اور یہ سب کچھ کرنے والے شہید کے شاگرد ہی تو ہیں، ان کے رفقاء اور ورثاء ہی تو پیش پیش ہیں، وہی قبیلہ ہے جو مسلسل قربانیوں کی داستان رقم کر رہا ہے۔۔۔! 

ایک اور پہلو جو نظر انداز کرنا مشکل ہے، وہ بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں کا جو ہمارے مکتب سے تعلق نہ ہونے کے باوجود ان دھرنوں میں شرکت اور بڑھ چڑھ کر تعزیت پیش کرنے آنا تھا، دشمن آپ کو جہاں کافر قرار دیکر سوسائٹی سے جدا کرنا چاہتا ہو، وہاں اس طرح کا ماحول سامنے آنا ان کی شکست ہی تو ہے۔ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سیاسی لوگوں کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں، مگر جو لوگ آپ کے پروگرام میں شریک ہوتے ہیں، آپ کے اسٹیج پر آجاتے ہیں، وہ ایک طرف تو دشمن سے کٹ جاتے ہیں، دوسرا ان پر آپ کے اجتماع، وحدت، قوت، اور نظم وضبط کا اثر بھی ہوتا ہے۔ شائد یہ پہلی بار ہوا ہے کہ سوسائٹی کے تمام طبقات نے کھل کر ملت تشیع کے دکھ کو سمجھا ہے اور اس سے اظہارِ تعزیت کیا ہے اور آپ کے مطالبات کو جائز سمجھتے ہوئے حکومت کو یہ پیغام دیا کہ انہیں فوری طور پر تسلیم کیا جائے۔
 
میڈیا نے بھی ملک بھر میں دھرنوں کی بھرپور کوریج کی اور شیعہ قوم کے مطالبات کو تسلیم کرنے کی بات بھی کی، جب ہر طرف سے مطابات تسلیم کرنے کی بات ہوئی تو حکمرانوں کو ہوش آہی گیا اور وزیراعظم اپنے کئی وزراء کے ہمراہ علمدار روڈ پہنچ گئے، جہاں صوبہ میں گورنر راج کے نفاذ کا اعلان کیا گیا اور اگلے دن اس کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا، جس کے بعد جنازوں کی تدفین کا عمل شروع ہوا اور وحدت کا نمونہ دیکھیں کہ جب کوئٹہ کے شہداء کے ورثاء کی طرف سے دھرنے ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تو اس وقت ملک بھر کے دھرنے بھی اپنے اختتام کو پہنچ گئے۔ یہ سارا احتجاج انتہائی پرامن طور پر ہوا، کوئٹہ سمیت کسی بھی جگہ کسی درخت کا ایک پتہ بھی نہ ہلا، جو ایک ریکارڈ اور مثال بھی ہے۔ آخر میں شہداء کو علی سردار جعفری کی زبان سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔
لہو جتنا تھا سارا صرفِ مقتل ہوگیا لیکن
شہیدانِ وفا کے رخ کی تابانی نہیں جاتی
خبر کا کوڈ : 231862
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش