1
0
Thursday 7 Nov 2013 12:09

بلدیاتی انتخابات اور مشترکہ قومی حکمت عملی کی ضرورت (2)

بلدیاتی انتخابات اور مشترکہ قومی حکمت عملی کی ضرورت (2)
تحریر: محمد یافث نوید ہاشمی
yafishashmi@yahoo.com 

بلدیاتی انتخابات کے لئے قومی حکمت عملی وضع کرنے سے پہلے حالیہ عام انتخابات کے تجزیے کے ساتھ ساتھ مقامی حکومتوں اور بلدیاتی حکومتوں کی اہمیت اور انکے کردار کو بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا میں گڈ گورننس (Good Governance) قائم کرنے کے لیے مقامی حکومتوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور دنیا بھر کے ماہرین سیاسیات اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی ملک یا معاشرے میں عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے مقامی حکومتیں سب سے اہم ہیں، بلکہ کئی ممالک تو ایسے ہیں کہ جہاں صوبائی حکومتوں کی بجائے صرف وفاقی اور مقامی حکومتوں قائم ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں مقامی حکومتوں کو کبھی بھی وہ اہمیت اور اختیارات حاصل نہیں رہے جو آئین اور قانون کی روح کے مطابق ہونے چاہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی بیورو کریسی اور سول اسٹیبلشمنٹ رہی ہے۔ مقامی حکومتیں سب سے کاری ضرب بیوروکریسی پر لگاتی ہیں۔ اس وقت ہر ضلع اور ڈویژن کی مقامی انتظامیہ بیورو کریسی پر مشتمل ہے۔ مقامی حکومتوں کے آنے سے بیورو کریسی کو ان منتخب شدہ مقامی نمائندوں کے زیر اثر کام کرنا پڑتا ہے جو کہ پاکستان کی بیورو کریسی کے لئے قابل برداشت نہیں ہے۔
 
پاکستان میں مقامی حکومتوں کا وہی تصور رائج ہے جو کہ انگریز قیام پاکستان سے قبل برصغیر کو دے گئے تھے۔ انگریزوں نے برصغیر پاک و ہند میں پہلی میونسپل کارپوریشن 1688ء میں ضلع مدراس میں بنائی اور انکی بھی کوشش یہی رہی کہ ظاہری طور پر مقامی حکومتیں بھی بن جائیں اور اصل اختیارات بھی بیورو کریسی میں مرتکز رہیں۔ پاکستان میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے میں سب سے زیادہ دلچسپی مارشل لاء آمروں نے لی، تاکہ عوام کے سامنے یہ ظاہر کرسکیں کہ انہوں نے اصل اختیارات نچلی سطح تک عوام کے سپرد کر دیئے ہیں اور انکی آمریت پر کوئی حرف نہ آئے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بالکل غلط نہ ہوگا کہ ماضی میں پاکستان میں بلدیاتی انتخابات صرف مارشل لاء آمروں نے ہی کروائے۔ مقامی حکومتوں کے لیے بلدیاتی انتخابات سب سے پہلے 1959ء میں ایوب خان نے کروائے اور ان مقامی حکومتوں کو "Basi Democratic System" کا نام دیا۔ اس کے بعد ضیاء الحق نے 1979ء، 1983ء، 1987ء اور پھر پرویز مشرف نے 2001ء اور 2006ء میں بلدیاتی انتخابات کروائے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مارشل لاء آمروں کی طرف سے کروائے گئے یہ تمام بلدیاتی انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر تھے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں موجود سیاسی جماعتیں مقامی حکومتوں کو اختیارات کی حقیقی منتقلی کو یقینی بنائیں۔
 
بلدیاتی انتخابات کسی بھی قوم کے سیاسی شعور کی بلندی اور قوم کو سیاسی طور پر آگاہ کرنے میں بہت فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔ یونین کونسل کی سطح تک کے انتخابات میں عوام کی دلچسپی زیادہ رہتی ہے اور سیاسی گہما گہمی زیادہ ہوتی ہے۔ لوگ اس سیاسی عمل میں اپنے آپ کو زیادہ شامل کرتے ہیں کیونکہ ان انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلی کی نسبت امیدوار ان کے اتنا قریب ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت اس کا احتساب کرسکتے ہیں۔ ہر یونین کونسل (یوسی) میں جنرل کونسلر کے علاوہ خواتین، لیبر اور اقلیتی نشستیں بھی ہوتی ہیں، چنانچہ عوام کے ہر طبقے کو سیاسی عمل میں شامل ہونے کا موقع ملتا ہے۔ خود امیدواروں کو سیاسی تربیت کے حوالے سے یہ بلدیاتی انتخابات بہت اہم ہوتے ہیں اور امیدوار ان انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد تجربہ کار ہو کر صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں جاتے ہیں۔ 

پوری دنیا میں بڑے بڑے سیاسی لیڈروں کی ابتدا ہمیشہ مقامی حکومتوں کے بلدیاتی انتخابات سے ہی ہوتی ہے۔ بطور مثال ایران میں ڈاکٹر محمود احمدی نژاد صدر بننے سے پہلے تہران کے میئر تھے۔ اسی طرح سے پاکستان میں اس وقت تمام سیاسی جماعتوں کی بڑی شخصیات نے ضیاءالحق کے بلدیاتی انتخابات سے ہی سیاست کا آغاز کیا ہے۔ ان میں نواز شریف، یوسف رضا گیلانی، شاہ محمود قریشی وغیرہ شامل ہیں۔ یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ یہ بلدیاتی انتخابات سیاست کی نرسری ہوتے ہیں تو شاید غلط نہ ہوگا۔ اس لئے ان بلدیاتی انتخابات میں قوم کی بھرپور شرکت قوم کی سیاسی پختگی میں اضافہ کرتی ہے۔ 

مقامی حکومتیں عوام کے بہت سارے مسائل بہت جلد حل کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتی ہیں۔ ماہرین سیاسیات کا کہنا ہے کہ عوام کی زندگی کے روزمرہ مسائل کے حل کے لئے مقامی حکومتیں بہت ضروری ہیں۔ صوبائی حکومت ان مسائل کو حل کرنے سے قاصر رہتی ہے اور انکا حل تاخیر کا شکار رہتا ہے۔ عوام کے مسائل میں سے اہم ترین تعلیمی اور صحت کی سہولیات ہوتی ہیں۔ اگر لوگوں کو یہ سہولیات بہتر انداز میں میسر نہ آئیں تو انکی زندگی اجیرن رہتی ہے۔ ہسپتالوں کی بہتری، سینیٹری اور سیوریج کا اچھا انتظام، سکولوں اور کالجز کا بہترین معیار تعلیم صرف اور صرف مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اسی طرح سے ٹریفک کا نظم و نسق، سڑکوں کی بہتری اور کشادگی، شہروں کو آلودگی سے بچانے کے لیے پارکوں کی تعمیر و دیگر اقدامات بھی مقامی حکومتوں کے ذریعے اچھے انداز سے ہوسکتے ہیں۔ 

کیونکہ ہر میونسپل کارپوریشن کی توجہ صرف اور صرف اپنے شہر پر ہی ہوتی ہے۔ نہ تو صوبائی حکومتوں کی طرح سارے شہروں کو دیکھنا پڑتا ہے اور نہ ہی بیورو کریسی کی طرح تبادلوں اور تقرریوں کا مسئلہ ہوتا ہے۔ مقامی حکومتوں کے ذریعے شہروں میں چھوٹی چھوٹی صنعتوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر ملک کو درپیش سب سے بڑے چیلنج یعنی دہشت گردی سے بھی مقامی سطح پر نہایت احسن انداز میں نمٹا جاسکتا ہے۔ غرضیکہ اگر یہ کہا جائے کہ جدید عمرانیات کے نظرئیے "کمیونٹی ڈویلپمنٹ" (Community Development) کو مقامی حکومتوں کے ذریعے ہی قابل عمل بنایا جاسکتا ہے تو شاید بالکل غلط نہ ہوگا۔ 

اب ہم نے ان بلدیاتی انتخابات کی اہمیت کو بھی درک کر لیا اور یہ بھی باور کر لیا کہ ان بلدیاتی انتخابات میں بحیثیت شیعہ شرکت بہت ضروری ہے، تاکہ اپنی ملت کو آئندہ عام انتخابات کے لیے سیاسی طور پر تیار کیا جاسکے۔ ان بلدیاتی انتخابات کے تقاضوں کو سمجھنے اور حکمت عملی وضع کرنے کے لئے حالیہ عام انتخابات کا تجزیہ بھی پیش کیا۔ جہاں تک تعلق ہے ان بلدیاتی انتخابات کے لئے قومی حکمت عملی کا تو اِس ضمن میں درج ذیل نکات پیش خدمت ہیں: 

(1) شیعہ ملت میں سیاسی شعور کو اجا گر کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں۔ قوم کو یہ باور کرایا جائے کہ سیاست دین کا جزو ہے اور ووٹ کا استعمال دینداری اور اپنے شیعہ تشخص کی بنیاد پر کرنا چاہئے۔ نیز یہ کہ جب تک ہر شیعہ اس ووٹ کا استعمال شیعہ تشخص کی بنیاد پر اور اپنی ملت کی حفاظت کے لئے نہیں کرے گا، تب تک ہم اس ملک میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کرسکتے۔ اس سلسلے میں علماء، خطباء، ذاکرین، عمائدین و دیگر باشعور افراد اپنا کردار ادا کریں اور اس مقصد کے لئے ایام عزا سے بھرپور استفادہ کیا جائے۔ 

(2) ایک ایسا ضابطہء اخلاق جاری کیا جائے جس میں ملت کی تمام جماعتوں، تنظیموں، اداروں اور برجستہ شخصیات (بالخصوص جو ان بلدیاتی انتخابات میں شرکت کے خواہش مند ہیں) کو اس ضابطہ اخلاق میں ان بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مشترکہ قومی حکمت عملی کے نکات کو واضح کیا جائے، تاکہ قوم کو کم از کم سیاسی میدان میں اتحاد و وحد ت کا پیغام ملے۔ 

(3) الیکشن کے دوران اپنا سب سے بڑا شعار (Slogan) اپنے وطن عزیز پاکستان کو قرار دیا جائے اور اسی کے ساتھ ساتھ ملت کے دیگر مسائل کو اجاگر کیا جائے۔ یاد رکھیں پاکستان کے مسائل کے حل میں ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔
 
(4) ہر حلقے کا مکمل تحقیقاتی مطالعہ کیا جائے، مثلاً اس حلقے کی آبادی، رجسٹرڈ ووٹرز، شیعہ تناسب، عوامی رجحان، علاقائی مسائل، سیاسی پارٹیوں کا اثر و رسوخ، برادری یا قبیلوں کا اثر، گذشتہ انتخابات کے نتائج وغیرہ وغیرہ۔ 

(5) کسی بھی شیعہ جماعت کے امیدوار ایک دوسرے کے مقابل الیکشن نہ لڑیں بلکہ کوشش یہ کی جائے کہ کسی بھی حلقے میں شیعہ امیدوار ایک دوسرے کے مقابل صف آراء نہ ہوں۔ 

(6) ہر یونین کونسل سے صاحب کردار، متدین اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد کو الیکشن لڑایا جائے، جو کہ اصولوں کی بنیاد پر شیعہ قوم کی نمائندگی کرسکیں اور ان کے حقوق کی حفاظت کرسکیں۔ 

(7) امیدوار کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کا خصوصاً لحاظ رکھا جائے کہ اسے ملک کے مسائل، عوام کے مسائل اور ملت کے مسائل سے مکمل آگاہی ہو۔
 
(8) ہر یونین کونسل سے 5/7 فعال اور متحرک ورکرز کا انتخاب کیا جائے جو اس حلقے میں الیکشن کمپین چلاسکیں، اپنے امیدوار کے لئے کنوینسنگ کرسکیں اور الیکشن والے دن بطور پولنگ ایجنٹ بھی کام کرسکیں۔ 

(9) ان ورکرز کی تربیت اور ٹریننگ کے لئے تحصیل سطح پر تربیتی نشستوں کا اہتمام کیا جائے، تاکہ یہی افراد قومی اور صوبائی اسمبلی کے آئندہ عام انتخابات میں زیادہ اچھے انداز میں کام کرسکیں۔ 

(10) ہر ضلع کی سطح پر میڈیا اور قانون کے شعبے کو فعال کیا جائے کیونکہ اس وقت پاکستان میں یہ دو شعبے سیاست پر سب سے زیادہ اثر انداز ہو رہے ہیں۔ 

(11) اپنے حلقے کے معتدل اہلسنت افراد کو ضرور ساتھ ملایا جائے اور اگر وہ اس حد تک آمادہ ہو جائیں تو بہت بہتر ہے کہ وہ آپ کے جلسوں میں خطاب کریں اور آپ کی کمپین کریں، تاکہ آپ کے امیدوار پر صرف شیعہ ہونے کی چھاپ نہ رہے۔

(12) اپنے حلقے کے ہر گھر تک اور ہر ووٹر تک رسائی حاصل کی جائے اور "ڈور ٹو ڈور" (Door to Door) کمپین کی جائے۔ 

(13) الیکشن کے بعد بھی (ہار یا جیت دونوں صورتوں میں) اپنے حلقے کے ووٹرز سے رابطہ ضرور رکھا جائے اور انکے مسائل حل کروانے کی ہرممکن کوشش کی جائے۔ آپ کے حلقے کی عوام کو ایک لمحے کے لئے بھی یہ اندازہ نہیں ہونا چاہئیے کہ آپ بھی دیگر سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی طرح صرف الیکشن میں ووٹ مانگنے آتے ہیں۔ 

(14) اپنے حلقے کے غریب اور نادار طبقے کا خیال ضرور رکھا جائے، کیونکہ کہ یہ لوگ بغیر کسی لالچ اور مفاد کی بنیاد پر آپ کا ساتھ دیں گے۔
خبر کا کوڈ : 318380
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بہت اعلٰی جناب،،،، اللہ توفیق خیر دے۔
ہماری پیشکش