0
Friday 20 Jun 2014 00:08

کالے طالبان، بوکو حرام، نائیجیریا کیلئے مستقل خطرہ (آخری حصہ)

کالے طالبان، بوکو حرام، نائیجیریا کیلئے مستقل خطرہ (آخری حصہ)
تحریر: عمران خان

طالبات کے اغواء کے بعد نائیجیریا کے طول و عرض میں عوامی مظاہرے شروع ہو گئے جن کی بازگشت بڑھتی گئی اور آہستہ آہستہ عالمی ردعمل آنا بھی شروع ہوگیا۔ صدر جوناتھن نے واضح طور پر اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ بوکو حرام کے کارندے فوج اور حکومت کی صفوں میں گھس چکے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر جب لڑکیوں کے اغواء کا معاملہ زیادہ شدت اختیار کرگیا تو نائیجیریا میں موجود بیرونی ملکوں کے نمائندوں کو دی جانیوالی ایک بریفنگ میں کچھ طالبات کو زندہ جلانے کے واقعات کا ذکر بھی شامل تھا۔ صدر جوناتھن نے بوکو حرام سے کسی قسم کے مذاکرات کی بجائے غیر مشروط طور پر طالبات کی رہائی کا مطالبہ کیا اور فوجی کاروائی کا خیال ظاہر کیا۔ بعد ازاں پیرس میں ہونیوالی افریقی ممالک کی ایک کانفرنس میں فرانس کے صدر سمیت افریقی ممالک نے بوکو حرام کے خلاف فوجی کاروائی کو ناگزیر قرار دیا۔ اس کانفرنس میں صدر جوناتھن نے چاڈ، فرانس، کیمرون، بینن کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیں۔ جس وقت یہ ملاقاتیں جاری تھیں اس دوران کیمرون میں چینی کارکنوں پر بوکو حرام کے دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔ جس میں چھ ہلاک جبکہ دس کارکنوں کو اغوا کرلیا گیا۔ فرانس کے صدر نے کانفرنس کے دوران کہا کہ بوکو حرام کی کاروائیوں سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ اس خطے میں خرابی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان دہشت گردوں نے عام شہریوں پر حملے کئے، سکولوں کو نشانہ بنایا اور انہوں نے کئی ملکوں کے شہریوں کو اغوا کرلیا ہے جبکہ فرانس ان کی سرگرمیوں سے خصوصی طور پر متاثر ہوا ہے ان کے خلاف مشترکہ کاروائی کرنے کا منصوبہ ترتیب دیا جا رہا ہے جس کے لیے ان کے ٹھکانوں کی جاسوسی کی جائے گی جو عمومی طور پر غیر محفوظ ہیں جہاں داخل ہونے یا نکلنے میں کوئی خاص رکاوٹیں موجود نہیں ہیں۔ اس لیے خطے کے تمام ممالک کی طرف سے مشترکہ کاروائی کی جائے گی۔

افریقی اور مغربی ملکوں کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا نے بھی طالبات کے اغواء پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اسے اسلامی تعلیمات کے منافی، حرام قرار دینے کے علاوہ اسلام کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیا۔ بوکو حرام کے خلاف سب سے زیادہ نائیجیرین فوج کے کردار پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ عوامی ردعمل جانچنے کے لیے ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی جانب سے متعدد سروے کئے گے۔ ان سرویز میں عوام نے کھل کر فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ریاست برونو کے کئی افراد نے سرحدی فوجیوں کے کردار پر سوالات اٹھائے۔ ان کے مطابق کیمرون اور چاڈ کی سرحدوں پر تعینات فوج بوکو حرام کے دہشت گردوں سے تعاون کرتے ہیں اور ان کی نقل و حرکت کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرتے، جبکہ سرحدی علاقے کے مقامی افراد نے بوکو حرام کے دہشت گردوں کے دندنانے کو فوج کی ناکامی قرار دیا۔ ان کے مطابق موٹرسائیکل، جیپوں پر سوار کئی افراد پر مشتمل دہشت گردوں کے لشکر آزادانہ نقل و حرکت کرتے ہیں۔ پولیس کے نزدیک بوکو حرام کے دہشت گرد فقط اس وقت دہشت گرد ہوتے ہیں جب وہ حملہ کرتے ہیں یا مسلح گروہ کی صورت میں نقل و حرکت کر رہے ہوتے ہیں۔ جب وہ اسلحہ اتار پھینکتے ہیں تو وہ عام شہری کا روپ دھار لیتے ہیں، جبکہ ان کے زیر کنٹرول علاقوں میں کسی بھی جگہ جب فوج کاروائی کرتی ہے تو اس میں ہلاک ہونیوالوں کو بےگناہ شہری قرار دیا جاتا ہے۔ جس کے باعث سکیورٹی فورسز کے خلاف لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں اور علاقائی، مقامی لوگوں کی ہمدردیاں بوکو حرام کے دہشت گردوں کے ساتھ ہو جاتی ہیں۔

برونو کے شمال مشرقی علاقے میں واقع سمپیا کے جنگلات میں فوجی کانوائے جو کہ دراصل اغواء ہونیوالی طالبات کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہا تھا اس پر بوکو حرام کے دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔ جس میں بارہ سے زائد فوجی ہلاک ہوگئے۔ زندہ بچ جانیوالے فوجیوں میں سے ایک کمانڈر نے زخمی حالت میں بیان دیا کہ ہم ان لڑکیوں کے بہت قریب پہنچ چکے تھے جبکہ ایک اور واقعہ میں زخمی سپاہی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز کی کاروائی سے قبل بوکو حرام کے دہشت گردوں کو خبر مل جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ قبل از وقت اپنی تیاری کر لیتے ہیں۔ ان واقعات سے صدر جوناتھن کے اس بیان کو تقویت ملتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ بوکو حرام کے دہشت گرد حکومتی اور فوج کی صفوں میں گھس چکے ہیں۔ دوسری جانب مختلف تجزیہ نگاروں نے اپنی تحریروں میں بوکو حرام کی پشت پر کار فرما امریکی مفادات کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے مطابق امریکہ نائیجیریا کے تیل کے ذخائر پر کافی حد تک انحصار کر رہا ہے اور امریکی ضروریات کا ایک بڑا حصہ یہاں کے تیل سے پورا کیا جاتا ہے، جبکہ امریکہ یہاں موجود تیل کے ذخائر کو اپنے تصرف میں لینا چاہتا ہے۔ حال ہی میں نائیجیریا بینک کے گورنر کو اس بات پر معزول کیا گیا کہ اس نے اپنے بیان میں انکشاف کیا کہ تیل سے حاصل ہونیوالی آمدنی کی مد میں حاصل ہونیوالے 50 بلین ڈالر قومی خزانے میں جمع نہیں ہوئے۔ یہ ڈالرز کہاں گئے تاحال اس بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن ردعمل میں گورنر کو معزول کردیا گیا جبکہ ڈالرز کی گمشدگی کی تحقیقات جاری ہیں۔ ان تجزیہ نگاروں کے مطابق بوکو حرام کو سب سے زیادہ معاونت کیمرون کی سرحد سے حاصل ہوتی ہے جبکہ کیمرون میں بھی امریکی اثرورسوخ انتہائی حد تک کارفرما ہے۔ اپنے تجزیات میں یہ بوکو حرام کے لیے طالبان کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔

بوکو حرام کو کالے طالبان کہا جائے تو بےجا نہیں ہوگا۔ اخبارات میں تواتر سے شائع ہونیوالی تحریروں میں پاکستان اور افغانستان کو بطور مثال پیش کیا جا رہا ہے جو طالبان کے خلاف مصروف جنگ ہیں۔ ان کی نظر میں بوکو حرام ایک طرف اسلام اور اسلامی تعلیمات کا چہرہ مسخ کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب امریکہ سمیت مغرب کو نائیجیریا میں عسکری مداخلت کا جواز پیش کر رہے ہیں۔ اگرچہ صدر جوناتھن نے بوکو حرام کے خلاف طاقت کے استعمال کو اپنی ترجیح قرار دیا ہے تاہم امریکی صدر اوبامہ نے کہا ہے کہ بوکو حرام کے خلاف فوجی کاروائی مسئلہ کا حل نہیں جبکہ ملک کے عوام اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ پوری قوت و طاقت کے ساتھ اس گروہ کا قلع قمع کیا جائے۔ اس سے قبل کہ یہ مزید تباہیاں پھیلائے۔ افریقی ممالک گرچہ امریکی اثرورسوخ سے باہر نہیں ہیں مگر وہ بھی بوکو حرام کو اپنے لیے شدید خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ ان کے سامنے افغانستان کی مثال موجود ہے جہاں طالبان کو امریکی معاونت سے انتہائی مضبوط کیا گیا اور بعد میں ان کو دشمن قرار دیکر افغانستان سمیت پورے خطے کو تہس نہس کیا گیا۔ عوام کی جانب سے بوکو حرام کے خلاف طاقت کے استعمال کا خیر مقدم کیا جارہا ہے مگر اس میں مغربی فوجی تعاون پر خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں۔

فرانس کے صدر نے مشترکہ فوجی کاروائی کی جو تجویز پیش کی ہے۔ اس پر شدید تحفظات پائے جا رہے ہیں۔ امریکی اثرورسوخ صرف کیمرون کی سرحد سے ہی بوکو حرام کو حاصل نہیں بلکہ حکومت میں موجود کئی شخصیات پر بھی بوکو حرام سے روابط کا الزام ہے۔ حال ہی میں بوکو حرام نے فٹبال کے شائقین کو نشانہ بنایا ہے جس میں تیئس سے زائد افراد ہلاک اور تیس کے قریب شدید زخمی ہوگئے ہیں۔ رواں ہفتے میں فیفا ورلڈ کپ کے جاری میچوں میں برازیل اور میکسیکو کے درمیان ہونے والا میچ دیکھنے کے لیے وماتورو کے علاقے نئی نامہ میں لوگ بڑی سکرین کے سامنے جمع تھے کہ موٹرسائیکل رکشہ میں نصب کیا گیا بم خوفناک دھماکے سے پھٹ گیا۔ جس سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا۔ بم دھماکے کے بعد ابوبکر شیخاؤ کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ فٹبال اور میوزک مسلمانوں کو مذہب سے بھٹکانے کا مغربی ہتھیار ہے، لہذٰا ان دونوں چیزوں سے دور رہا جائے ورنہ نشانہ بنایا جائے گا۔ نائیجیریا کے عوام اس نئے بیان کے بعد کسی بھی عوامی مراکز میں میچ دیکھنے سے کترا رہے ہیں۔ عوام اپنی پولیس اور فوج سے شاکی ہیں کہ جب بوکو حرام دہشت گرد انہیں نشانہ بنا سکتے ہیں تو وہ ان دہشت گردوں کو نشانہ کیوں نہیں بنا سکتے۔

وفاقی ہائیکورٹ ابوجا میں نائیجیریا کے سینیٹر الیونڈلمے کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے۔ جس میں ان پر الزام عائد ہے کہ وہ بوکو حرام کے دہشت گردوں سے تعاون کرتے ہیں۔ سینیٹر کے خلاف متعدد ثبوت عدالت میں پیش کئے گئے ہیں جن میں ڈی وی ڈیز اور فون کالز کی ریکارڈنگ شامل ہے۔ ان کی لیبارٹری رپورٹس بھی منظر عام پر آ چکی ہیں جس میں ان کو حقیقی قرار دیا گیا ہے۔ ریکارڈنگ میں سینیٹر کو بوکو حرام کے سابق ترجمان سے بات چیت کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ سینیٹر کی جانب سے عدالت میں درخواست پیش کی گئی کہ اس کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہیں لہذٰا یہ کیس خارج کر دیا جائے مگر حکومتی درخواست پر عدالت نے کیس کی اگلی تاریخ 30 جون کی دیدی ہے۔ دگلاس نائیجیرین صدر جوناتھن کے مشیر ہیں۔ چند ہفتے قبل انہوں نے ایک انٹرویو کے اندر انکشاف کیا ہے کہ ابوبکر شیخاؤ کی جانب سے جاری وڈیوز میں جن طالبات کو دکھایا گیا ہے وہ چیبوک کے قصبے سے اغواء ہونیوالی طالبات نہیں تھیں بلکہ یہ اس سے قبل برونو سے اغواء ہونیوالی لڑکیاں ہیں۔ جن کو ان کے والدین نے شناخت کرلیا ہے۔ اس انکشاف سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بوکو حرام کی جانب سے لڑکیوں کے اغواء کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ نائیجیریا کوئی پہلا ملک نہیں جسے دہشت گردی جیسے خطرناک عفریت کا سامنا ہے اور نہ ہی بوکو حرام کوئی پہلی ایسی تنظیم ہے جو اسلام کا نام لیکر اسلام کے آفاقی پیغام کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ معاشی میدان میں ترقی کی منازل طے کرنیوالا نائیجیریا خطے میں اسلحہ کی دوڑ میں شامل نہیں۔ عالمی اسلحہ ساز دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو ایک مخصوص جنگی ماحول میں رکھنا چاہتے ہیں۔ جو نہ صرف ان کی اسلحہ کی صنعت کے لیے انتہائی نفع بخش ہے بلکہ مغربی ممالک کے دست نگر رہنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ طالبان یا بوکو حرام انہی پالیسیوں کے سکے کے دو رخ ہیں۔ جو مغرب اور امریکہ کی مخالفت کا نعرہ لگاتے ہیں مگر درحقیقت انہی کے مذموم عزائم کے حصول کے لیے آلہ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بوکو حرام بھی انہی آلہ کاروں میں سے ایک ہے جو کہ اسلام کے دامن میں ایک فتنے کی حیثیت رکھتی ہیں۔

طالبان اور بوکو حرام کی سرگرمیوں، سوچ اور حکمت عملی اور نظریات میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ لہذٰا یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یہ قوتیں دین کے لیے سرگرم ہیں یا دین کے خلاف۔ دنیا بھر کو بالعموم اور اسلامی دنیا کو بالخصوص اس حقیقت کا درک کرنا ہوگا کہ عصر حاضر میں وہی طاقتیں جہاد کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں جن کے خلاف جہاد کرنا واجب ہے۔ نائیجیریا میں جنگ و جدل اور خون خرابے کے بادل گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ جس کے اثرات صرف نائیجیریا تک محدود نہیں رہیں گے۔ نائیجیریا کی ریاست برونو میں بوکو حرام کی سرگرمیوں اور دہشت اور پاکستان کے علاقے فاٹا میں طالبان کی مضبوط کمیں گاہوں میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ابوجا کی وفاقی عدالت میں سینیٹر کے خلاف یہ مقدمہ چل رہا ہے کہ اس کے بوکو حرام کے سابق ترجمان سے روابط تھے۔ جس سے یہ اشارہ ضرور ملتا ہے کہ پاکستان کی طرح نائیجیریا میں دہشت گردوں کو عدالتی پروٹوکول میسر نہیں ہے اور نہ ہی دہشت گردوں سے روابط کو قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔ جو کہ نائیجیریا کے لیے تو امید کی ایک روشن کرن ہے جبکہ پاکستان میں عدلیہ کے حوالے سے ایسی کوئی کرن گھپ اندھیرے میں بھی ڈھونڈے نہیں ملتی، حال میں سامنے آنیوالی ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق نوے فیصد دہشت گردوں کو عدلیہ نے آزاد کیا ہے۔ اگر پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ مقصود ہے تو دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ عدالتی نظام سے بھی دہشت گردوں کے نرم گوشوں کو ختم کرنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 393282
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش