0
Sunday 15 Jun 2014 09:03

کالے طالبان، بوکو حرام، نائیجیریا کیلئے مستقل خطرہ (1)

کالے طالبان، بوکو حرام، نائیجیریا کیلئے مستقل خطرہ (1)
تحریر: عمران خان
 
اتحاد اور ایمان، امن اور ترقی کا نعرہ رکھنے والے نائیجیریا میں بیرونی فوجوں کے بوٹوں کی دھمک سنائی دے رہی ہے۔ مغربی ممالک کی جانب سے بوکو حرام نامی تنظیم کے خلاف فوجی مدد کی پیشکش بھی کی جاچکی ہے، جبکہ نائیجیریا نے دہشت گردی کے خلاف سری لنکا کی مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ خطے میں امیر ترین ملک اور مضبوط ترین معیشت کا اعزاز پانے کے باجود نائیجیریا ’’عالمی دہشت گردی‘‘ کی آگ سے خود کو محفوظ رکھنے میں فی الوقت ناکام نظر آرہا ہے۔ طالبان طرز کے فتنے ’’بوکو حرام‘‘ نے نائیجیریا کے مستقبل پر کئی سوالات ثبت کر دیئے ہیں۔ عالمی اسلحہ سازوں کی جنگی پالیسیاں یکے بعد دیگرے ترقی پذیر ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہیں۔ جس کی ایک جھلک نائیجیریا میں بوکو حرام کی صورت میں دیکھی جا رہی ہے۔ بوکو حرام کی حرام کارروائیوں میں انتہائی شدت آچکی ہے، جبکہ عوام اپنی فوج کے کردار سے ناخوش ہیں۔ عوام کے تحفظات کسی طور غلط نہیں ہیں کیونکہ گاڑیوں پر بوکو حرام کے جھنڈے لگائے، کیمو فلاج لباس پہنے دہشت گرد کسی بھی وقت کہیں بھی نمودار ہو کر ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کرکے گم ہوجاتے ہیں۔
 
لڑکیوں کے اغوا کے خلاف ہونیوالے عوامی مظاہروں میں فوج اور پولیس کی کارکردگی پر انتہائی غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ عوامی حلقوں کے مطابق قریب دو ماہ گزر جانے کے باوجود اغوا کی گئی طالبات کو بوکو حرام کے چنگل سے آزاد نہیں کرایا جاسکا۔ طالبات کے اغواء اور عالمی برادری کے سخت ردعمل کے بعد بوکو حرام دفاعی پوزیشن میں جانے کے بجائے زیادہ متحرک ہوگئے ہیں۔ اس عرصے میں انہوں نے متعدد بار حملے کرکے فوج، پولیس اور عوام کو نشانہ بنایا ہے جبکہ فوج کی بوکو حرام سے جتنی بھی جھڑپیں ہوئیں ہیں، اس میں فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ساتویں بڑے ملک نائیجیریا کا شمار افریقہ کے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ 500 بلین ڈالرز کے ساتھ دنیا کی 26 ویں بڑی معیشت گردانا جاتا ہے۔ نائیجیریا تیل کی پیدوار کے لحاظ سے بارہواں جبکہ تیل کی برآمد کے لحاظ سے آٹھواں بڑا ملک ہے۔ سامراجی تسلط کے دوران برٹش گوروں نے یہاں کے کالوں کے ساتھ وہی رویہ روا رکھا جو دنیا کے دیگر نوآبادیاتی ممالک کے عوام کے ساتھ رکھا گیا تھا۔ 1960ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے اور 1963ء میں عوامی جمہوریہ نائیجیریا بننے کے بعد یہاں دریافت ہونیوالے تیل کے ذخائر نے سیاہ فاموں کی تقدیر بدل ڈالی۔ 

عوامی جمہوریہ ہونے کے باوجود نائیجیریا میں اقتدار زیادہ تر جرنیلوں کے زیر قبضہ رہا۔ جن کی ترجیحات دنیا کے باقی جرنیلوں کی طرح بیرونی طاقتوں کی خوشنودی رہی۔ وسائل کی فراوانی اور جرنیلوں کے زیر قبضہ رہنے کے باوجود نائیجیریا دفاعی میدان میں کوئی قابل ذکر ترقی نہیں کرسکا جو کہ یقیناً حیران کن ہے۔ مختلف قبائل اور پانچ سو سے زائد زبانیں ہونے کے باعث اندرونی طور پر نائیجریا کبھی پرامن نہیں رہا۔ وقتاً فوقتاً مختلف قبائل ایکدوسرے کے خلاف نبرد آزما رہے۔ بدامنی، جنگی ماحول، قبائلی عداوت، ثقافتی خلیج نے یہاں کے باشندوں پر انتہائی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ مار دھاڑ، قتل، ظلم انسانی رویوں کا خاصہ ہے۔ بوکو حرام نامی شدت پسند تنظیم کے لڑکیوں کو اغوا کرنے سے قبل سوشل میڈیا پر نائیجیریا کے مختلف قبائل کی کئی وڈیوز منظر عام پر آچکی تھیں۔ ان میں ایک ہولناک وڈیو میں ایک قبیلہ کے چند افراد مخالف قبیلے کی تین خواتین کو انتہائی بربریت کے ساتھ کلہاڑوں کی مدد سے قتل کرتے ہیں، لہذا ظلم، سفاکیت اور جبر سے یہاں کے باشندے مانوس ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بوکو حرام نامی دہشت گرد تنظیم کی کارروائیوں کے خلاف رائے عامہ زیادہ قوی نہیں۔ 

بوکو حرام نامی تنظیم نے 14 اپریل کی رات چیبوک کے ایک اسکول پر حملہ کیا جو نائیجیریا میں بورنو کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ انھوں نے اسکولوں میں پڑھنے والی 221 طالبات کو اغوا کرلیا۔ ان لڑکیوں میں زیادہ تعداد مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے لڑکیوں کی تھی۔ لڑکیوں پر حملے کے دوران راستے میں موجود ایک پولیس اسٹیشن کو بھی اس تنظیم نے دھماکے سے اڑا دیا، جس میں 12 سپاہی بھی ہلاک ہوگئے۔ بورنو کا علاقہ بوکو حرام کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور یہاں طویل عرصے سے ہنگامی صورتحال جاری ہے۔ بورنو ریاست نائیجیریا کی سرحدی ریاست ہے، جو کہ ایک طرف کی کیمرون سے ملتی ہے جبکہ دوسری جانب چاڈ سے ملتی ہے۔ چاڈ سمندری جھیل کا کچھ حصہ بھی بورنو کے ساتھ ملتا ہے۔ چنانچہ اس ریاست میں موجود بوکو حرام کو بیرونی آمدورفت میں دوطرفہ سہولیات حاصل ہیں۔ بعض میڈیا رپورٹس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ بوکو حرام کے دہشت گرد کیمرون اور چاڈ کی سرحد پر وسیع پیمانے پر نقل و حرکت رکھتے ہیں۔ 

اس تنظیم کا نام Hausa زبان میں بوکو حرام ہے، جس کا کم و بیش ترجمہ ہے "مغربی تعلیم حرام ہے۔" بوکو حرام اس سے قبل بھی بورنو میں اور پڑوسی ریاستوں میں درجنوں اسکول کے بچوں کو ہلاک کرچکی ہے۔ بوکو حرام کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو حقیقت میں یہ برطانوی راج کے خلاف اٹھنے والی ایک مزاحمتی تحریک تھی۔ برطانوی راج کے دوران جب نائیجیریا میں مغربی تعلیم دی جا رہی تھی تو اس وقت اپنی روایات اور ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لیے مغربی تعلیم کو مسترد کرنے کی ایک مہم شروع ہوئی، جس کا عنوان مغربی تعلیم حرام، یعنی بوکو حرام تھا۔ نائیجیریا کی آزادی کے بعد رسمی طور پر یہ تحریک اپنے انجام سے دوچار ہوگئی۔ نائیجیریا میں اقتدار کا زیادہ عرصہ مختلف جرنیلوں کے زیر قبضہ رہا، جن کو مغربی و بیرونی ممالک کی آشیر باد حاصل تھی۔ اس عرصے میں مغربی ثقافتی لہر نے بھی گہرا اثر چھوڑا۔ 

نائن الیون کے میڈیا ایونٹ نے دنیا بھر کی طرح نائیجیریا کو بھی متاثر کیا۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ نائن الیون ایک بہانہ تھا جس کو بنیاد بناکر امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کرنی تھی اور اس خطے میں طاقت کا توازن اور اندرونی مسائل کو ناقابل حل سطح تک لے جانا تھا تو پھر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس عرصے میں بننے والی تنظیمیں یا اٹھنے والی تحریکیں بھی امریکی اثر سے خالی نہیں تھیں، بلکہ ان میں کسی نہ کسی حد تک امریکی مفادات کارفرما تھے، جو کہ سی آئی اے کے ذریعے حاصل کئے جا رہے تھے، جبکہ موجودہ بوکو حرام کی بنیاد بھی اسی عرصہ میں پڑی۔ 2001ء میں نائن الیون کے رونما ہونے کے بعد 2002ء میں محمد یوسف نے نائجیریا کی ریاست برونو کے شہر میدوگری میں بوکو حرام کی بنیاد رکھی۔ جس کا مطلب ہے "مغربی تعلیم حرام"۔ انھوں نے ایک مسجد بنائی جسکے احاطے میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں اس مدرسے میں نائیجیریا کی مختلف ریاستوں کے طلباء کے علاوہ ہمسائیہ ممالک کے طالب علم بھی داخل ہوچکے تھے۔ رفتہ رفتہ یہ مدرسہ نام نہاد جہادیوں کے مرکز کے طور پر مشہور ہوگیا۔ 

محمد یوسف کی نظر دین کی ترویج نہیں بلکہ افریقہ کے اس ترقی یافتہ ملک میں اسلامی ریاست کا قیام تھا، مگر اسلامی ریاست کا یہ نظریہ حقیقی اسلامی ہونے کے بجائے اسلامی تعلیمات کے برعکس تکفیری نظریات اور ظالمانہ طرز عمل پر مبنی تھا۔ 2009ء تک بوکو حرام کی کئی شاخیں مختلف ناموں سے نائیجیریا کی متعدد ریاستوں میں کھل چکیں تھیں، مگر ان کے ظاہری نام جدا تھے۔ 2009ء میں بوکو حرام نے اس شہر میں ہنگامے شروع کر دیئے اور نام نہاد نفاذ شریعت کا اعلان کردیا۔ 26 جون سے 29 جون 2009ء تک سکیورٹی فورسز نے بوکو حرام کے خلاف ملٹری آپریشن کیا۔ جس میں ایک ہزار سے زائد افراد مارے گئے جن میں سے سات سو سے زائد صرف میدوگری میں ہلاک ہوئے۔ ان ہنگاموں میں محمد یوسف بھی مارا گیا۔ پرنٹ میڈیا کی بعض رپورٹس میں ان ہنگاموں کو لال مسجد کے واقعہ سے تشبیہ دی گئی تھی اور بوکو حرام، طالبان کے درمیان فکری، عسکری، نظریاتی مماثلت بیان کی گئی تھی۔
 
لال مسجد اور بوکو حرام کے ہنگاموں کے درمیان ایک بڑی مماثلت یہ بھی تھی کہ لال مسجد واقعہ میں مولانا عبدالرشید ہلاک جبکہ مولانا عبدالعزیز فرار ہونے کی کوشش میں گرفتار ہوگئے تھے۔ جبکہ 2009ء کے ہنگاموں میں محمد یوسف ہلاک جبکہ ابوبکر شیخاؤ فرار ہوگیا تھا۔ اس وقت سکیورٹی فورسز کو یقین ہوگیا تھا کہ ابوبکر ان ہنگاموں میں مرچکا ہے، مگر 2010ء میں ابوبکر شیخاؤ کی وڈیو منظر عام پر آئی، جس میں اس نے مخالفین اور اسلامی شخصیات کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس دوران بوکو حرام کی جانب سے سکولوں، مساجد، چرچ، تھانوں، فوجی بیرکوں پر کئی حملے کئے گئے۔ بینک لوٹے گئے اور اسلحہ خانوں سے اسلحہ بھی۔ سکیورٹی فورسز بھی بوکو حرام کے خلاف مختلف کاروائیاں سرانجام دیتی رہیں مگر ان کارروائیوں میں زیادہ قابل ذکر کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ بوکو حرام کے گرفتار ہونیوالے دہشت گرد اور کمانڈرز کو جس جیل میں رکھا گیا تھا اس پر بھی حملہ کرکے ان کو آزاد کرالیا گیا اور اس حملے میں جیل میں موجود کئی سپاہیوں کو قتل کر دیا گیا، یہ وہی حالات تھے جن سے پاکستان دوچار ہے۔
 
14 اپریل کو حملے میں سکول کی 221 طالبات کو اغوا کیا گیا، جس میں سے اب تک 58 آزاد ہوچکی ہیں جبکہ 168 ابھی تک لاپتہ ہیں۔ رہائی پانیوالی طالبات سے متعلق سرکاری ذرائع بتاتے ہیں کہ یہ لڑکیاں بوکو حرام کی قید سے بھاگ کر آئیں ہیں، جبکہ نائیجیرین صدر جوناتھن کی بیوی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ برونو کی طالبات سے بوکو حرام کی کیا دشمنی۔ ان کے مطابق کہ یہ طالبات اغوا نہیں ہوئیں بلکہ اغوائیگی کے ڈرامے میں ابوبکر شیخاؤ کا ساتھ دے رہی ہیں۔ نائیجیریا کی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ مختلف اوقات میں چار چار لڑکیوں کے گروپ بوکو حرام کی قید سے فرار ہوئے، جبکہ ایک اخبار نے یہ دعویٰ کیا کہ رہائی پانے والی طالبات نظریاتی اور فکری اعتبار سے بوکو حرام کی حامی تھیں، اس لیے انہیں رہا کیا گیا۔ اغوا ہونیوالی طالبات کی جو پہلی وڈیو جاری کی گئی اس میں ابوبکر شیخاؤ نے ان طالبات کو دیکھاتے ہوئے کہا کہ "میں نے تمہاری لڑکیوں کو اغوا کیا ہے، اور خدا کی قسم، میں انھیں بازار میں بیچوں گا، میں انھیں بیچوں گا اور ان کی شادیاں کرواں گا-" "انسانوں کے خریدار موجود ہیں، عورتیں لونڈیاں ہیں۔ میں اپنے مسلمان بھائیوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ کہتا ہے کہ اسلام میں غلاموں کی اجازت ہے۔" لڑکیوں کے اغوا سے قبل بوکو حرام نے حکومت پر الزام لگایا تھا کہ ان کی خواتین اور بچے حکومتی قید میں ہیں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 391809
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش