3
0
Saturday 10 Jan 2015 16:46

محفلِ میلاد پر خودکش حملہ

محفلِ میلاد پر خودکش حملہ
تحریر: طاہر یاسین طاہر
 
اللہ رب العزت کے ارشادِ گرامی کا مفہوم یہ ہے کہ ’’اے ایمان والوں، خدا اور اس کے فرشتے محمد پر درود بھیجتے ہیں، پس تم بھی محمد پر درود و سلام بھیجو‘‘ ہم مگر اللہ کی بات کو اہمیت دینے کے بجائے کسی مولوی، مفتی کی سطحی اسلام پرستی کی بھیٹ چڑھتے چلے گئے۔ بلاشبہ دین کی آفاقی تعلیمات کو سمجھنے کے بجائے ظواہر پرستی پر زور دیا گیا۔ کیوں؟ اس لئے کہ دین کی آفاقی تعلیمات کو سمجھنے کے لئے ’’محنت تھوڑی زیادہ‘‘ لگتی ہے۔ مگر ظواہر پرستی ایک ایسا ’’ہنر‘‘ ہے جو آسانی سے سیکھا جاسکتا ہے۔ دو چار ’’چلے‘‘ دو چار شہروں کی مسافت، چند دن گھر سے دوری اور اللہ اللہ خیر صلا! سچ بات کہنے میں مگر عار کیا ہے؟ ہم معاشرتی سطح پر بے شک انتہا پسندانہ رحجان کے حامل افراد ہیں۔ ہر کوئی اپنی بات بزور بازو منوانے پر تلا ہو ہے۔ سچ ورنہ اتنا پوشیدہ بھی نہیں البتہ تلخ بہت ہے۔
 
علمائے کرام جو جی میں آئے کہتے رہیں مگر اس سے انکار ممکن ہی نہیں کہ ہمارے ملک کے مدارس کے اندر جہاد کے نام پر ایسی تعلیمات کا آغاز کر دیا گیا، جس نے آگے چل کر ایک آتش گیر معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ سبھی مسالک نے قریب قریب دوسرے مسلک کی فقہی تعلیمات کو ہدف تنقید بنایا۔ ایک خاص مسلک اس حوالے سے فرنٹ لائن پر رہا اور اس کے مدارس کی زنجیر سے فتوؤں کی ایسی جھنکار پڑی، جس نے آگے چل کر خالص علمی معاملات کو بھی گلی کوچوں کے لونڈوں کی تفریح بنا دیا۔
 
جس کو وضو کرنے کا طریقہ آگیا، اس نے فتوے جڑنے کا کام بھی شروع کر دیا۔ انتہائی معمولی باتیں۔ ’’ضواد‘‘ اور ’’دواد‘‘ کے تلفظ پر کفر اور جہالت کے فتوے لگنے لگے۔ یہ کام اگر علماء تک رہتا تو علمی اختلاف تحقیق و جستجو کے نئے در وا کرتا، مگر جہاں اندھی تقلید کو جنت کی کلید تصور کیا جائے، وہاں تحقیق و جستجو کے بجائے’’اسلاف’’ کا طریقہ کہہ کر معاملے سے جان چھڑا لی جاتی ہے۔ اللہ ایک، کعبہ ایک، نبی ایک مگر اختلاف ایسے کہ اللہ کی پناہ۔ ان اختلافات کی بنیاد کس نے ڈالی؟ کسی یونیورسٹی کے طالبعلم نے؟ کسی سیکولر محقق نے یا پھر ایک مولوی نے؟ بے شک تکفیریت کو مولوی نے رواج دے کر اسے باقاعدہ ایک سکول آف تھاٹ بنا دیا۔

مولوی کے بجائے اگر صوفیائے کرام کی تعلیمات کو دیکھا جائے تو سر تا پا امن، اخوت، محبت اور رواداری ہے۔ حضرت داتا گنج بخشؒ، حضرت نظام الدین اولیاؒ، حضرت شمس تبریزؒ، پیر مہر علی شاہؒ، حضرت بری سرکارؒ، حضرت لعل شہباز قلندرؒ اور حضرت عبداللہ شاہ غازی ؒ نے کیا اپنے فہمِ اسلام کو کسی پر زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کی؟ کیا ان بزرگانِ اسلام نے مسلمانوں پر کفر اور بدعتی ہونے کے فتوے لگائے؟ یا انھوں نے اپنی علاقائی اور نسلی روایات کو دین کی آفاقی تعلیمات پر قربان کر دیا؟ بے شک انھوں نے دین کی آفاقی تعلیمات کے سامنے اپنی انا کے بت کو پاش پاش کر دیا اور صبحِ قیامت تک کے لئے امر ہوگئے۔

مولوی مگر فکری مغالطے کا شکار ہوا اور کسی کو کافر تو کسی کو بدعتی کہہ کر اپنی انا کے بت کو تسکین دیتے دیتے ایسے فتنے کو جنم دے دیا کہ اب محمد و آلِ محمد کا ذکر کرنا ’’اپنے اسلام ‘‘ کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ کیا پیر مہر علی شاہؒ اور حضرت بری سرکارؒ نہیں جانتے تھے کہ بدعت کیا ہے اور کفر کیا ہے؟ کیا حضرت داتا گنج بخش دین کی ابجد سے نابلد تھے؟ لاریب وہ دینِ الٰہی کے پاکیزہ سفیر تھے، جنھوں نے اپنی تعلیمات سے لاکھوں غیر مسلموں کو مسلمان کردیا۔ مولوی مگر اس بات پر لگا ہوا ہے کہ کسی طرح سارے مسلمانوں کو بدعتی اور کافر قرار دے کر اسلام کو ایک خاص مکتب کا دین بنا دے۔ 

کیا یہ بھی بحث طلب بات ہے کہ نبیﷺ کا میلاد منانا جائز ہے کہ ناجائز؟ کیا کوئی مسلمان ایسی جسارت کرسکتا ہے؟ بے شک خارجی مگر ایسی حرکت کرتے رہیں گے۔ راولپنڈی کے محلہ چٹیاں ہٹیاں کی امام بارگاہ پر صرف اس لئے حملہ کر دیا گیا کہ وہاں شیعہ و سنی مل کر میلاد النبیﷺ کی محفل سجا رہے تھے۔ کیا شیعہ و سنی کا مل بیٹھنا دہشت گردوں کو پسند نہیں آیا؟ نہیں بلکہ ان کے نزدیک میلاد کا پروگرام منانا ہی ’’بدعت‘‘ ہے۔ ان کا فہمِ اسلام انھیں یہی کہتا ہے کہ میلاد و محرم کے جلوس والے بدعتی و کافر ہیں۔ میرا سوال مگر یہ ہے کہ امت میں ایسی سنجیدہ رنجش ڈالنے والے کون ہیں؟ ان کے چہرے پر ابھی تک نقاب کیوں ہے؟ وہ کیوں آج بھی پروٹول کے سائے میں زندگی کے مزے لے رہے ہیں؟ اس لئے کہ وہ سیاست دانوں کی ضرورت بن گئے ہیں۔ انھوں نے فتوؤں کی ایسی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں کہ ان سے اختلاف کرنے والا مسلمان کہلانے کا روادار ہی نہیں رہتا۔

کتنے دکھ کی بات ہے کہ جس بنی (ص) کا کلمہ پڑھ کر ہم مسلمان ہوئے، اس نبی (ص) کا میلاد منانے کے لئے بھی ہمیں سکیورٹی کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوگا کہ جس نبی (ص) کے نواسے نے اسلام کو حیاتِ نو بخشی، اس نواسےؑ کی یاد میں اشک بہانے کے لئے بھی لائسنس کی ضرورت پڑتی ہے۔ المیہ یہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں جہاد کے نام پر چار عشروں سے انتہا پسندی کے بیج بوئے جا رہے ہیں، المیہ یہ ہے کہ اس فتنے کا دفاع کرنے والے اسی معاشرہ کے ’’باعزت‘‘ افراد بنے ہوئے ہیں۔ فتنے کی پرورش کرنے والے ظالم تو ہوسکتے ہیں مگر معاشرے کے باوقار افراد نہیں۔ بے شک اللہ اور اس کے فرشتے محمدﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور صبحِ قیامت تک بھیجتے رہیں گے۔ یا نبی (ص) سلام علیک
خبر کا کوڈ : 431629
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

آصف شاہ
Pakistan
بہت اچھا لکھا ہے طاہر بھائی نے
Ali Raza
Pakistan
MashaAllah achi kawish hi.
raja qanbar
Pakistan
bahott khoob Tahir sb
ہماری پیشکش