2
0
Thursday 19 Feb 2015 12:47

گلگت بلتستان میں شفاف انتخابات کا انعقاد خواب یا حقیقت؟

گلگت بلتستان میں شفاف انتخابات کا انعقاد خواب یا حقیقت؟
رپورٹ: میثم بلتی

گلگت بلتستان کی سیاست کا اونٹ تاریخ میں ہمیشہ اسی کروٹ پہ بیٹھا ہے جس کروٹ پہ وفاقی حکومت کا اونٹ بیٹھتا ہے۔ پچھلی حکومتوں میں وفاق میں جس جماعت کی حکومت ہوتی ہے، وہی پارٹی گلگت بلتستان میں بھی بھاری اکثریت کیساتھ برسر اقتدار آتی تھی۔ سابقہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں بھی گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور مسلم لیگ قاف کے دور میں بھی یہی کچھ ہوا۔ اس کے پیچھے بنیادی طور پر تین عوامل کار فرما ہیں:
 
وفاق زدگی: 
گلگت بلتستان میں انتخابات پاکستان کے عام انتخابات کے کم و بیش دو سال بعد ہوتے ہیں اور عوام کی یہ رائے بنتی ہے کہ اگر وفاقی حکومتی پارٹی کی حکومت جی بی میں نہیں بنے گی تو یہاں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوسکتا اور عشروں سے اسی زعم میں وفاق زدگی کے کینسر میں یہاں کی عوام مبتلا رہی ہے، جبکہ اسکے نتائج بہتر نہیں آسکے۔
 
وفاقی حکومت کیجانب سے طاقت کا استعمال: 
وفاقی حکومت اسٹبلشمنٹ، ریاستی اور حساس اداروں کے ذریعے انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرتی ہے، جبکہ انکے خلاف آواز اٹھانے کے لئے نہ کوئی تحریک چلی ہے اور نہ اسکے امکانات موجود ہیں، اگر کوئی آواز اٹھی بھی تو سنگین مقدمات کے ذریعے ہر آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔
 
خطہ کی حساسیت اور فوج کا عمل دخل: 

حساس سرحدی خطہ ہونے اور گلگت بلتستان کی حساس جغرافیائی اہمیت کے سبب پاکستان آرمی کے عمل دخل کو یہاں یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آرمی کی کوشش رہتی ہے کہ یہاں ایسی حکومت رہے جو آرمی ترجیحات سے متصادم نہ ہو۔ 
 
مذہبی جماعتوں کی حیثیت:
گلگت بلتستان کو مذہبی خطہ سمجھا جاتا ہے، اگر تمام مذہبی شخصیات میدان میں آجاتی ہیں تو لیبرل جماعتوں کی حکومت بننے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔ ماضی میں مذہبی جماعتوں کا باقاعدہ سکہ چلتا تھا، لوگ مذہبی لگاو کے سبب مذہبی تعصبات میں اندھے ہوجاتے تھے اور فرقوں کی بنیاد پر الیکشن کا انعقاد ہوتا تھا۔
 
اب مندرجہ بالا عوامل کے اس سال ہونیولے الیکشن پر اثرات کے بارے میں بحث کرتے ہیں۔
وفاق زدگی:
اس معاملہ پر اب گلگت بلتستان کی عوام ہوشیار ہوگئی ہے، گلگت بلتستان کے عوام کی جانب سے گندم سبسڈی تحریک کے بعد عوام یہ جان چکی ہے کہ پاکستان میں جس کی بھی حکومت ہو، حقوق کے لئے جدوجہد ضروری ہے، حقوق جھولی میں گرنے والے پھل کا نام نہیں۔ لہذا عوام میں وفاق زدگی کا کینسر بھی ختم ہوتا نظر آر ہا ہے، سابقہ 67 سالوں میں وفاقی حکومتوں نے جو کچھ کیا عوام دیکھ اور جان چکی ہے۔ اب ایسا لگ رہا ہے کہ اگر شفاف الیکشن کا انعقاد ہوتا ہے تو وفاقی حکومت میں ہونے والی جماعت کو گلگت بلتستان میں حکومت ملنا مشکل ہے۔
 
وفاقی حکومت کیجانب سے طاقت کا استعمال:
دوسرا اور اہم معاملہ وفاقی حکومت کی جانب سے ریاستی اداروں کا استعمال یعنی دوسرے الفاظ میں ریاستی جبر اور طاقت کے استعمال سے حکومت بنانے کا قوی تر امکان آئندہ انتخابات میں موجود ہے۔ اس نکتہ کی جزیات پر بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کے انتخابات میں مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے اب تک مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے ہیں اور مزید اقدامات کے بھی امکانات ہیں۔
 
1۔ نواز حکومت نے قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے نام پر گلگت بلتستان میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں کی سیاسی سرگرمی اور عوام کمپین چلانا ناممکن بنا دیا ہے، اس کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے ہیں۔
عوامی اجتماعات:
انتخابات کے انعقاد میں صرف تین ماہ باقی ہیں اور عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، اگر عوامی اجتماعات کئے گئے تو اکیسویں ترمیم کے تحت پس زندان کیا جاسکتا ہے۔ 
اشتہارات اور لاوڈ اسپیکرز کا استعمال:
انتخابات کے سلسلے میں اشتہاری وسائل کے ذریعے ہی کوئی سیاسی جماعت اپنے منشور کو عوام تک پہنچا سکتی ہے، جن پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اشتعال انگیز تقاریر:
انتخابی مہم کے دوران کوئی بھی سیاسی جماعت، سابقہ اور موجودہ حکومت کی کارکردگی کو زیر بحث لائے بغیر اپنا موقف واضح نہیں کرسکتی، لہٰذا اسے اشتعال انگیز قرار دیکر ہتھکڑیاں ڈالی جاسکتی ہیں اور اگر اس پر کوئی شور کرے تو فوجی عدالت کی توہین جیسے الزامات عائد کئے جاسکتے ہیں۔
پاکستان کے علماء پر پابندی:
پاکستان بھر سے علماء کی گلگت بلتستان آمد پر پابندی ایپکس کے زمرے میں عائد کی گئی ہے، دوسرے الفاظ میں مسلم لیگ نواز کو آئندہ انتخابات میں سب سے زیادہ خطرہ مذہبی سیاسی جماعتوں سے ہے، لہٰذا انکے قائدین کا رستہ روکنے لئے گلگت بلتستان کو نوگو ایریا بنا دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ نواز کو مجلس وحدت مسلمین، شیعہ علماء کونسل سے زیادہ خطرہ ہے، پاکستانی مذہبی قائدین کی آمد کو جواز بنا کر حکومت پوری جماعت کو گرفتاریوں اور دیگر انتظامی حربوں کے ذریعے پھنسا سکتی ہے۔ 
مساجد کا سیاسی استعمال:
گلگت بلتستان حکومت نے مساجد کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے سے روک دیا ہے، یعنی باالفاظ دیگر مذہبی جماعتوں کے لیے مساجد کو بھی نوگر ایریا بنا دیا گیا ہے۔ 
 
2۔ آئندہ انتخابات میں کامیابی کیلئے وفاقی حکومت مندرجہ ذیل انتظامی عہدوں پر قابض ہوچکی ہے:
چیف الیکشن کمشنر:
انتخاباب میں چیف ایگزیکٹیو چیف الیکشن کمشنر ہوتا ہے اور وہ چاہے تو الیکشن کی کایا پلٹ سکتا ہے۔ مسلم لیگ نواز نے کافی غور و حوض کے بعد مسلم لیگ نواز ہی کے عہدیدار سید طاہر علی شاہ ایڈووکیٹ کو چیف الیکشن کمشنر بنایا، تاکہ بڑی سطح پر دھاندلی کرنے میں آسانی ہو۔ 
نگران وزیراعلٰی:
نگران وزیراعلٰی کا انتخاب بھی تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیے بغیر کیا گیا، جو کہ پہلے سے ہی چیف سیکرٹری کے ملازم ہیں اور نظریاتی طور پر مسلم لیگ نواز کے ہمنوا اور بعض ذرائع کے مطابق اخوان المسلمین کی عالمی تنظیم کے عہدیدار بھی ہیں۔
نگران کابینہ:
بھاری بھر کم نگران کابینہ کی فوج میں بھی اکثریت انہی وزراء کی ہے جو مسلم لیگ نواز کے اتحادی اور نظریاتی ہیں۔ 
گورنر گلگت بلتستان:
نواز حکومت نے تمام حدود کو پار کرتے ہوئے گورنر جی بی کے عہدہ پر وفاقی وزیر برائے گلگت بلتستان و امور کشمیر برجیس طاہر کو مسلط کر دیا ہے، دوسرے الفاظ میں انتخابات سے قبل ہی نواز لیگ کی حکومت قائم ہوگئی ہے۔ 
تبادلے اور سیاسی انتقام:
اسکے علاوہ مختلف اہم اداروں میں اپنی جماعت کے ہم فکر افسران کی تعیناتی کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ پولیس اور آرمی کے اعلٰی عہدایداروں میں کس طرح کی تبدیلیاں رونما ہونگی، یہ وقت ہی بتائے گا۔ سول حکومت میں نواز حکومت کی تشکیل ہوچکی ہے۔ اب دیگر تمام سیاسی جماعتوں کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس ماحول میں الیکشن منعقد ہونا جوا کھیلنے کے مترادف ہے، کیونکہ تمام ریاستی اداروں میں نواز حکومت کا قبضہ ہے، جوا کھیلنا ہے یا عالمی عدالتوں سے رجوع کرکے حساس خطہ ہونے کے ناطے فوج کے ذریعے انتخابات کرانا ہے اور جہاں تک فوج کا تعلق ہے، ملک بھر میں فوج نواز شریف کے پیچھے کھڑی ہے، یا ریاست کے تحفظ کے لیے کھڑی ہے، یہ خود بحث طلب موضوع ہے۔
قومی ایکشن پلان سے سوء استفادہ:
اسی طرح ریاستی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے اکیسویں ترمیم کی آڑ میں بڑی سطح پر پکڑ دھکڑ اور علاقہ بدری کے لیے فہرستیں تیار کی جاسکتی ہیں، تاکہ انتخابات میں سو فیصد نتائج حاصل ہوسکیں۔ 
 
خطہ کی حساسیت اور فوج کا عمل دخل:
ہر بار کی طرح اس بار بھی آرمی کی گلگت بلتستان میں اہمیت ناقابل انکار ہے اور آرمی اداروں کی جانب سے الیکشن میں عمل دخل عموماً یا تو بلواسطہ ہوتا ہے یا حکومت بننے کے بعد حکمرانوں کا قبلہ درست کرتے ہیں۔ بعض سیاسی نمائندے جی ایچ کیو کی خوشنودی کے لیے عوامی حقوق کی باتیں بھی بھول جاتے ہیں، جبکہ عوامی حقوق سے آرمی مفادات کا کوئی تعلق نہیں۔ دوسری طرف آرمی کی جانب سے گلگت بلتستان میں تعلیم، مواصلات اور صحت کے حوالے سے خدمات بہت زیادہ ہیں۔
 
مذہبی جماعتیں:
آئندہ انتخابات میں مذہبی جماعتوں کی موجودگی کے اثرات کم ہی پڑنے کے امکانات ہیں، بالخصوص فرقہ وارانہ طرز انتخابات میں کمی دکھائی دے رہی ہے۔ البتہ اتحاد مسلمین اور فروغ امن کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کی اہمیت پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے اور ان جماعتوں کا اتحاد مضبوط ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بالخصوص وہ مذہبی جماعتیں جو عوام کے درمیان کسی شخصیت سے تعلق اور اندھی تقلید کی دعوت ترک کرکے یہ اعلان کر رہی ہیں کہ مذہبی جماعتوں کو انکے خوبصورت نعروں کی وجہ سے ووٹ نہ دو، بلکہ انکی اہلیت کو سامنے رکھا جائے۔
خبر کا کوڈ : 441304
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Haqaiq par mubni he .pml-n ne G.B me intakhabat me kamyabi k lia aham morchon me mustanid foj tayonat ki he.
Pakistan
ریاست کے خلاف تقریر کے نام پر انیس اہم رہنماوں کے خلاف آج مقدمہ درج کیا گیا ہے، وہی ہو رہا ہے جو کچھ لکھا گیا ہے۔
ہماری پیشکش