0
Sunday 12 Apr 2015 06:11
علمائے اسلام کانفرنس رپورٹ (حصہ دوم)

ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو اپنی تنظیم کی بجائے اللہ کی طرف دعوت دی جائے، علامہ ریاض نجفی

یمن سعودیہ معاملہ میں پاکستان کو صلح کرانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہیے، مولانا عطاالرحمان
ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو اپنی تنظیم کی بجائے اللہ کی طرف دعوت دی جائے، علامہ ریاض نجفی
رپورٹ: این ایچ نقوی

جامعۃ الکوثر اسلام آباد میں علمائے اسلام کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں ملک بھر کی دینی جماعتوں کے نمائندہ وفود نے شرکت کی۔ جمعیت علمائے پاکستان کے رہنما اور ممبر صوبائی اسمبلی پیر سید محفوظ مشہدی کا کہنا تھا کہ علمائے اسلام کانفرنس ایک مقدس و محترم اجتماع ہے، اتحاد کے بغیر امت کو دشمن زندہ رہنے نہیں دے گا، باہم اتفاق و اشراک اور معاملہ فہمی کے لئے ملی یکجہتی کونسل نے تربیت دی، دہشت گردی کی پشت پناہی موساد اور امریکہ کر رہے ہیں، ہماری پاک فوج ان کارروائیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ جامعہ الکوثر کی انتظامیہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، ہم صحابہ (رض) اور اہل بیت(ع) کےساتھ اپنے عشق کا کھل کر اظہار کریں۔ شیعہ سنی کو مل جل کر ملی یکجہتی کونسل جیسے پلیٹ فارم کو مضبوط کرنا ہے۔

علامہ ریاض حسین نجفی، وفاق المدارس شیعہ اور جامعہ المتنظر کے سربراہ کا کہنا تھا کہ آج جامعہ الکوثر میں ہفتہ ثقافت منایا جارہا ہے، رسول اکرم (ص) کی بیٹی کی ولادت کا دن ہے، رسول اعظم (ص) کی رحلت کے بعد اہل سنت اور اہل تشیع دو فرقے پیدا ہوئے، اس وقت ان دو فرقوں کے علما کی آپس میں لڑائی نہیں ہوئی، اور تو تکار نہیں ہوئی، اختلاف موجود تھا، اصل مسلمان تو وہ تھے وہ اگر آپس میں نہیں لڑتے تھے تو ہم آپس میں کیوں لڑیں، ہند، سندھ، روم، عرب کی بین المللی یونیورسٹی میں حضرت امام جعفر صادق (ع) درس دیتے، حضرت امام ابو حنیفہ کسب فیض کرتے رہے، آپس میں نہیں لڑے، چھ سو سال تک اہل سنت شیعہ موقف کو اپنی کتابوں میں ذکر کرتے، کبھی موافقت کرتے کبھی مخالفت، بنو عباس کی حکومت میں تفریق شروع ہوئی، وطن عزیز پاکستان میں پائی جانے والی شدید مخالفت دنیا کے کسی کونے میں نہیں ہے۔

بزرگ عالم علامہ ریاض نجفی کا کہنا تھا کہ اہل بیت (ع) اور صحابہ کرام (رض) کو ماننے والے ان کی فضیلیت تک مانتے ہیں، سیرت پر عمل نہیں کرتے، قرآن کہہ رہا ہے کہ اہل کتاب کو بھی اپنے ساتھ ملائیں، ڈیڑھ ارب مسلمان پوری دنیا میں مار کھا رہے ہیں، بش کے زمانے میں چیف جسٹس نے کتاب لکھی جس میں کہا گیا کہ علما کے رابطہ پیدا کیا جائے، حکومتوں کی بجائے علما سے رابطہ قائم کریں چونکہ علما عوام سے رابطے میں ہیں۔ لیکن رحمت العالمین(ص) کے ماننے والے لٹھ بردار اور کلاشنکوف بردار بن چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علامہ ساجد نقوی کو علمائے اسلام کانفرنس پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں، علامہ ساجد علی نقوی اللہ کے علاوہ کسی کے سامنے نہیں جھکتے۔ ہمیں چاہیے کہ لوگوں کو اپنی تنظیم کی بجائے اللہ کی طرف دعوت دی جائے۔ ناظم اسٹیج نے بتایا کہ اعلامیہ علامہ عارف حسین واحدی ناظم اعلیٰ اسلامی تحریک پیش کریں گے۔ شرکائے کانفرنس کو اس میں کمی و بیشی کا حق حاصل ہوگا۔

مولانا فضل الرحمان کے بھائی سینیٹر مولانا عطاء الرحمان کا علمائے اسلام کانفرنس سے خطاب میں کہنا تھا کہ امت کو تفریق کرنے میں صرف مذہب ملوث نہیں، مختلف طریقوں سے امت کو تقسیم کرنے کوششیں کی جاتی ہیں، قومیت، علاقائیت، لسانیت اور مذہب کے نام پر ہمیں تقسیم کیا جاتا ہے، علما کو یہ طرہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے کوشش کی کہ مذہب کے نام پر تقسیم نہیں ہونی چاہیے، لیکن چند جذباتی علماء نے تفریق کو پروان چڑھایا گیا ہو گا، کیا قومیت کے نام پر قیادت کرنے والوں نے وحدت کا مظاہرہ کیا ہے، متحدہ مجلس عمل ہو یا دیگر ملی پلیٹ فارم علماء ہمیشہ اکٹھے نظر آئے اور انہوں نے یک زبان ہر کر امت واحدہ کا نعرہ لگایا۔ عالم کفر امریکہ کی انتہائی کوشش ہے کہ کسی طریقے سے بھی مسلمان اور اسلام کو کمزور کیا جائے، روس کے خاتمہ کے بعد نیٹو کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا لیکن امریکہ نے ایسا نہیں ہونے دیا موقف اختیار کیا گیا کہ اسلام ہمارے راستے کی رکاوٹ ہے۔ عالم کفر صرف اسلام کے خاتمہ پر تلا ہوا ہے۔ سعودی عرب اور یمن کے مابین پروان چڑھنی والی فضا پر پارلیمنٹ میں جے یو آئی کا موقف تھا کہ قرآن کے مطابق اگر دو مسلمان آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو، پاکستان بجائے اس کے وہاں کی جنگ میں شرکت کریں، بہتر یہ ہے کہ صلح کی کوشش کی جائے، نبی کریم (ص) نے کہا کہ تم ظالم اور مظلوم دونوں کے ساتھ تعاون کرو، ظالم کو ظلم سے روکو، یہ اس کے ساتھ تعاون ہے۔ اس صلح میں کردار کے لئے ہمیں آٹھ سال پیچھے جانا ہوگا، پاکستان کو ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے، سعودیہ کے ساتھ مسلمانوں کا رشتہ ایک عقیدے اور ایمان کا ہے، اگر حرمین شریفین کو کے متعلق کوئی جذبات دکھائے تو یہ نہیں کہ صرف پاکستان کا مسلمان بلکہ پوری دنیا کا مسلمان کسی کا خاطر میں نہیں لائے گا۔ سفارتی سطح پر پاکستان کو صلح کرانے کے لئے کردار ادا کرنا چاہئے، امریکہ کی خواہش بدامنی جبکہ اسلام سلامتی کو خواہاں ہے۔ اعلامیہ کے ساتھ جے یو آئی سو فیصد اتحاد کرتی ہے۔ وحدت و اتحاد کے پروگرامات کی تائید کرتے ہیں۔

ڈپٹی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ محمد امین شہیدی نے کہا کہ پانچوں فقہ کے مابین مشترکات نوے فیصد ہیں، ہمارے حوزات میں بہت سے فقہا رہے ہیں جو اہل سنت کے مختف فقہا کے متون سے استدلال کرتے ہیں، اس تمام تر صورتحال کے باوجود پاکستان میں کیوں تفرقات کو فروغ دیا جاتا ہے، قرآن کا مزاج امت اور دیگر اہل کتاب ادیان کو اکٹھا کرنے کا ہے۔ قرآن کو روح کو کچلنے والوں، تکفیر کرنے والوں اور اپنی دکانوں کو چمکانے والوں کو امت کا نمائندہ نہیں سمجھنا چاہیے، ایسے تمام عناصر کی میڈیا کے سامنے حوصلہ شکنی کرنا ہوگی، ایسے لوگوں پر علما کا اطلاق دیگر علما کو فساد میں مبتلا کرتا ہے۔ سیمیناروں سے نکل کر ایک دوسرے کی مساجد کا رخ کرنا پڑے گا، مولانا فضل الرحمان اگر آج نہیں آسکے تو آئندہ کسی پروگرام میں وحدت و اتحاد کے لئے آئیں۔ مشترکہ مدارس پر کام کیا جائے، جہاں تمام فقہ پڑھائے جائیں، تاکہ ہم روشن مستقل کا خواب دیکھ سکیں، مشترکہ اساتذہ اور مشترکہ نصاب تیار کیا جائے، یمن کے حوالہ سے فتنہ کھڑا ہوا، حرمین پر حملے کا عنوان دیا گیا، جو لڑائی یمن میں انجام کو پہنچ نہیں پائی، اسے پاکستان کے کوچہ و بازار میں برپا کیا جائے، پاکستان کے درد دین رکھنے والوں نے بالغ نظری کا ثبوت دیا، پاکستان حکومت کا اعلامیہ روح دین ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ہم ثالث اور صلح جوئی کا کردار ادا کریں گے۔

صدر ملی یکجہتی کونسل صاحبزادہ ابوالخیر زبیرنے کہا کہ علامہ ساجد علی نقوی نے اہم اور نازک موقع پر علمائے اسلام کانفرنس منعقد کرکے علما کو ان ی ذمہ داریوں کا احساس دلایا، علما اسلام کی ذمہ داریاں ہروقت اور ہر آن محسوس کی جاتی رہی ہیں لیکن اب جبکہ عالمی سازشیں عروج پر ہیں، مشرق وسطی میں بھڑکائی جانے والی آگ کو پاکستان لانے کی کوشش کی جارہی ہے، اس صورتحال میں علما کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔عوام میں اکابرین کی محبت کے باعث یہ شعور پیدا ہو چکا ہے کہ تفریق کرنے والا یہود نصاریٰ کا ایجنٹ ہے۔ یمن کے اندر لگائی جانے والی آگ کو پاکستان میں لانے کو کوشش کی جارہی ہے۔ عاملہ کے اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کردہ اعلامیہ یہ تھا کہ پاکستان کو غیر جانبدار رہنا چاہیے۔ ایران کا عالمی ایٹمی معاہدہ ایران کی سالمیت کا باعث بنے گا، یہود و نصاریٰ کا کب قبول ہے کہ ایک مسلمان ملک مستحکم ہو، اس آگ کو پاکستان میں لانے کی سازشیں علما کے ذریعہ ناکام بنائی جائیں گیں۔ ڈالر اور پیٹ کی خاطر قتل عام کرانے والوں کی بیخ کنی کی جائے۔ کانفرنس میں حافظ عبدالغفار روپڑی کی نمائندہ علامہ محمد رفیق طاہر نے کی۔ عراق سے آئے وفد کے سربراہ شیخ علی الافتلاوی نے عربی میں تقریر کی ۔ جس میں انہوں نے اتحاد امت کی ضرورت پر زور دیا۔ پروفیسر سیف اللہ خالد نے کہا کہ حدیث پیعمبر (ص) ہےکہ مومن ایک جسم کی مانند ہے، انہوں نے اتحاد و اتفاق کا نمونہ پنجابی اشعار کی شکل میں پیش کیا۔ پروفیسر سیف اللہ کا کہنا تھا کہ جس طرح حج کے موسم میں کوئی بادشاہ و گدا، شیعہ و سنی، ایرانی و عربی نہیں ہوتا اس طرح اگر تمام مسلمان ہو جائیں تو کیا بات ہے۔

سربراہ اسلامی تحریک علامہ سید ساجد علی نقوی نے اختتامی خطاب میں تمام مہمانان، علمائے کرام، ادارہ کے بانی شیخ محسن علی نجفی کا شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی ادارہ کے اندر متحدہ مجلس عمل کا اجلاس ہو چکا، آج یہ عظیم اجتماع اس ادارہ میں منعقد ہوا، مجھ سے قبل علما نے موثر اور مفید خطاب کئے، علماء کرام نے اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ کرتے ہوئے اتحاد و وحدت کی کوششیں جاری رکھیں جو موثر رہیں اور انتہائی نتیجہ خیز رہیں، یہ کوششیں تسلسل کے ساتھ اس ملک میں رہیں، ان کے اثرات اس ملک کی فضا اور یہاں کے عوام پر مشاہدہ کئے گئے، عراقی مہمانوں کا بھی شکریہ ادا کرتاہوں، اتحاد امت کے لئے کی جانے والی کوششوں کے اثرات اب بھی موجود ہیں، ان کوششوں میں حضرت شاہ احمد نورانی، حضرت قاضی حسین احمد نے حصہ لیا۔ مشکل اس ملک کی یہ ہے کہ کچھ سامراجی قوتوں کے کاسہ لیس اور ان کے حواری وقتا فوقتا فرقہ واریت کو ہوا دینے میں ملوث رہتے ہیں۔ ایسے لوگ مختلف فرقوں میں موجود ہیں، یہ کانفرنس اہم موقع پر منعقد کی جارہی ہے۔

علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ مڈل ایسٹ میں بحران پیدا ہونے کے موقع پر اسے شیعہ سنی تنازعہ قرار دیا گیا، ہم نے پاکستان کے مصالحانہ کردار پر زور دیا، وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک میں چھبیس ایجنسیاں ہیں، نیشنل ایکشن پلان کے بعد، چٹنیاں ہٹیان، حیات آباد، مسجد سکینہ چار واقعات ہوئے، میں شیعہ کے قتل کا الزام کسی بریلوی اور دیوبندی پر نہیں دھرتا، آلہ کار یہ کام کررہے ہیں، مسالک کے لوگ ان واقعات میں کسی طور بھی ملوث نہیں ہیں۔ عشروں پر محیط کوششیں اتحاد و وحدت کے لئے کی گئیں۔ ہمیں مشترکات اور دین کو ترجیح دینی ہے، مسلک کو مقدم نہیں رکھنا، مسالک اور فقہیں کئی ہیں لیکن امت ایک ہے۔ ایسا کام جو امت کی وحدت میں رخنہ ڈالنے والا ہوں، اس کی قطعاً اجازت نہیں۔ تشیع واضح ہے اس میں کسی کی توہین کی اجازت نہیں ہے، مشترکات پر ہم اکٹھے ہیں، برصغیر میں ایک ضابطہ اخلاق پر ہم نے دستخط کئے جس پر ہم آج بھی قائم ہیں، اس کے تحت امت میں اتحاد پیدا کیا گیا۔ مصالحانہ کراد ر کی تجویز پر حکومتوں نے بھی عمل کیا۔ فرقہ وارانہ دہشت گردی کو روکنے کے مثبت نوعیت کے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ اعلامیہ کے نکات کو عوام تک کے جایا جائے اور شرپدنہوں کو ناکام بنایا جائے۔
خبر کا کوڈ : 453749
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش