0
Saturday 28 May 2016 18:30

داعشی بربریت کے نئے طریقے!

داعشی بربریت کے نئے طریقے!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

داعش اپنی بربریت اور دہشت گردی میں اپنی مثال آپ ہے۔ جدید عہد کی یہ دہشت گرد جماعت اپنے سوا سارے مسلمانوں کو مرتد، کافر اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھتی ہے۔ اس کے نظریات کی بنیاد ہی تشدد پر ہے۔ کسی اور کالم میں اس بات کا ذکر کریں گے کہ داعش اور اس کے متشدد نظریات کی شاخیں کہاں کہاں سے نکلتی ہیں اور دنیا کی کون کون سے طاقتوں نے اس کی تخلیق میں اپنا اپنا زور لگایا ہے۔ اس امر میں کلام نہیں کہ ہر دہشت گرد گروہ کسی نہ کسی عالمی سامراجی طاقت کے مفادات کا محافظ ہوتا ہے۔ القاعدہ کی تخلیق اور اس کے مقاصد ہمارے سامنے ہیں۔ اس کے بطن سے پھوٹنے والی جھبۃ النصرہ اور پھر سب سے متشدد تنظیم داعش اپنے اپنے خالقین کے اسلحے اور زر کے زور پر پھلتی پھولتی گئیں۔ افغانستان کے ملا عمر والے طالبان بھی القاعدہ ہی کا حصہ ہیں۔ اسامہ بن لادن کی موت کے بعد القاعدہ کی اگرچہ وہ گرفت نہ رہی مگر اس دہشت گرد تنظیم نے جو بیج بوئے ہوئے تھے، وہ تناور درخت بن چکے ہیں۔

کون کون سی دہشت گرد تنظیم کیوں اور کس لئے بنائی گئی؟ یہ ایک وسیع موضوع ہے، کسی اور وقت پر اس کو زیر بحث لائیں گے۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ داعش سے لے کر القاعدہ تک اور القاعدہ سے لے کر پاکستانی و افغانی طالبان تک اور پھر نائیجیریا والی بوکو حرام سے الشباب تک، ان سب میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے ان کے مذہبی نظریات، جو کہ سب کے ایک سے ہیں۔ اختلاف پھر ان میں کہاں ہے؟ اہداف کو نشانہ بنانے میں یا پیسے کی تقسیم اور قیادت کے مسئلے میں؟ آخر الذکر زیادہ صحیح محسوس ہوتا ہے۔ تکفیر کی بنیاد پر وحشت کو جہاد کو نام دینے والے جب ایک دوسرے سے علیحدہ ہونے لگے تو ایک دوسرے کو بھی کافر کافر کہنے لگے۔ القاعدہ، النصرہ اور داعش کے اختلافات پر گہری نظر رکھنے والے دانشور جانتے ہیں۔ داعش البتہ ذکر کئے گئے دہشت گرد گروہوں میں سے سب سے زیادہ وحشی جماعت ہے۔ یہ نہ صرف وحشی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد جماعتوں میں سے سب سے زیادہ امیر بھی، جو دنیا کو تیل بھی فروخت کرتی ہے اور اپنی سی خلافت بھی قائم کی ہوئی ہے۔

یہ خلافت مگر اب اس کے ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہے۔ عراق میں اسے شکست کا سامنا ہے۔ اگرچہ امریکی اتحاد کے طیارے ایک اڑان میں داعشی ٹھکانوں پر بمباری کرتے ہیں تو دوسری اڑان میں داعش کے لئے اسلحہ بھی پھینکتے ہیں، شام میں بھی داعش کو شکست کا سامنا ہے، جبکہ ان ہی علاقوں میں القاعدہ، النصرہ اور داعش ایک دوسرے کے ساتھ بھی بر سر پیکار ہیں۔ ظاہر ہے کہ جنگوں میں افراد قیدی بھی بنتے ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں۔ داعش والے اپنے قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟ کسی کو زندہ جلا دیتے ہیں تو کسی کو تیزاب کے ڈرم میں پھینک دیتے ہیں۔ کسی کو اونچی عمارت سے گرا دیتے ہیں تو کسی کو شکنجے میں کس کے مار دیا جاتا ہے، کسی کی گردن اتار دی جاتی ہے، یہ سب کرنے سے پہلے مجمع جمع کیا جاتا ہے اور اس سارے ستم کی ویڈیو بنائی جاتی ہے، تاکہ لوگوں کے دلوں میں داعش کا خوف مستحکم ہو جائے۔ اب تو کم سن بچے کو بھی داعشی کمانڈروں کو گردن زدنی کی ظالمانہ ٹریننگ دی ہوئی ہے۔ انسانی المیہ اور کیا ہوتا ہے؟ اب تو داعش اپنی جیلوں میں قید انسانوں پر کیمیاوی گیس کے تجربے بھی کرنے لگی ہے۔

عراقی شہر موصل سے غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق دہشت گرد تنظیم داعش اپنی جیلوں میں قیدیوں پر کلورائیڈ اور مسٹرڈ گیس کے تجربے کر رہی ہے، جو کہ کیمیکل ہتھیاروں میں استعمال ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق داعش نے اپنے کیمیکل ہتھیاروں کو شہری آبادیوں میں منتقل کر کرکے وہاں چھپا رکھا ہے، تاکہ ان ہتھیاروں کو کسی بھی قسم کی عسکری کارروائیوں کے لئے محفوظ رکھا جاسکے۔ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ داعش کیمیکل ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہی ہے، تاکہ اسکا استعمال شام اور عراق میں کیا جائے۔ اسلحہ بنانے کے لئے داعش سابق عراقی صدر صدام کے دور کے سائنسدانوں کی خدمات حاصل کر رہی ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ داعش کتوں، چوہوں اور خرگوشوں کے علاوہ انسانوں پر بھی اپنے خود ساختہ کیمیکل اسلحے کے تجربے کر رہا ہے۔ داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں رہنے والوں کا بیان ہے کہ داعش کے کیمیکل تجربات کی وجہ سے انکے بچوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، جیسا کہ سانس لینے میں تنگی اور پیدائشی نقائص۔

یاد رہے کہ داعش کا کیمیکل ہتھیار والا معاملہ تب سامنے آیا جب اس کے جنگجوؤں نے کچھ عرصہ قبل عراق میں کردی فورسز کے خلاف اپنے اس اسلحہ کو پہلی بار استعمال کیا تھا، تب سے لیکر داعش اس قسم کا خطرناک اسلحہ شام اور عراق میں بدستور استعمال کر رہی ہے۔‘‘ اس کے علاوہ داعش اپنے غداروں کو پکڑ پکڑ کر جنگلی جانوروں کے آگے پھینک رہی ہے، جو میدان جنگ سے بھاگ رہے ہیں۔ جب ہم کسی گروہ یو تنظیم کو دہشت گرد لکھتے یا کہتے ہیں تو اس کا صاف سا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس گروہ یا تنظیم نے ایسے اقدام اٹھا نے شروع کر دیئے ہیں، جو معاشرتی اور سماجی امن کے لئے خطرناک ہیں۔ داعش کے اقدامات بھی نہ صرف سماجی امن بلکہ عالم انسانیت کے لئے خطرناک ہیں۔ کیا عالمی طاقتیں جو اپنی سائنسی ترقی کے باعث حشرات الارض کے پیٹ کا فضا سے ایکسرے تک کر لیتی ہیں، انھیں خبر نہیں کہ داعش نہ صرف انسانیت سوز مظالم ڈھا رہی ہے بلکہ انسانی تباہی کے لئے جدید ذرائع بھی تلاش کر رہی ہے۔

اس امر میں کلام نہیں کہ دہشت گرد گروہ داعش آج بھی عالمی سامراجی طاقتوں کی منظورِ نظر ہے، وگرنہ ایک دہشت گرد تنظیم جس کی بنیاد ہی ظواہر پرستی اور علم دشمنی پر ہو، وہ کیسے جدید سائنسی علوم کا سہارا لے کر کیمیائی ہتھیار بنا سکتی ہے؟ امریکہ، اسرائیل اور خطے کی وہ طاقتیں جو داعش کو کمک پہنچانے کے لئے اپنے سرحدی راستوں سے صرفِ نظر کرتی ہیں یا وہ طاقتیں جو داعش کے لئے معاشی ہمدردی رکھتی ہیں، اگر وہ انسانی بقاء کے لئے سنجیدہ ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ داعش اپنے انجام کو نہ پہنچ سکے، اگرچہ اس نے بہت جلد سمٹ کر کسی پہاڑ کی کوکھ میں چلے جانا ہے۔
خبر کا کوڈ : 541780
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش