0
Saturday 26 Feb 2011 10:20

عرب دنیا میں انقلاب کی دستک اور اسرائیل کا مستقبل

عرب دنیا میں انقلاب کی دستک اور اسرائیل کا مستقبل
تحریر:ثاقب اکبر
جب سے عرب دنیا میں انقلاب کی لہریں اٹھنا شروع ہوئیں ہیں عالمی سطح پر سب سے اہم سوال اسرائیل کے مستقبل کے بارے میں پیدا ہو گیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ سوال بہت اہم ہے کہ اگر اسرائیل غیر محفوظ ہو جاتا ہے اور نتیجتاً اسرائیلی آبادی اپنے اپنے اصلی ملکوں کا رخ کر لیتی ہے تو پوری دنیا کی سیاست تبدیل ہو جائے گی۔ ہم ایک نئی دنیا کے شہری ہوں گے۔ عالم اسلام میں امریکی اثر و رسوخ یا صحیح تر الفاظ میں تسلط کا خاتمہ ہو جائے گا۔ امریکہ کے بارے میں اس کے ایک عالمی سلطنت ہونے کا تصور پا در ہوا ہو جائے گا۔ امریکہ کے اثر و رسوخ میں کمی کا ایک نتیجہ یورپ اور امریکہ کے مابین طاقت کے توازن میں تبدیلی کے طور پر ابھرے گا اور یورپ میں وہ قوتیں غالب آ جائیں گی جو امریکہ کے تسلط کو آج بھی دل سے تسلیم نہیں کرتیں، لیکن کیا یہ بات واقعاً ایک حقیقت کا روپ اختیار کرنے والی ہے آئیے اس امکان کا جائزہ معروضی حقائق کی روشنی میں لیتے ہیں۔
صہیونی ریاست کے پہلے صدر ڈیوڈ بن گورین(DAVID BIN GURIAON ) نے کہا تھا کہ اسرائیل اس دن ٹوٹ جائے گا جب اسرائیل کو اپنی پہلی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کون نہیں جانتا کہ یہ پہلی شکست اسرائیل کو جولائی 2006ء میں حزب اللہ کے ہاتھوں ہو چکی ہے۔ حزب اللہ کسی حکومت کا نام نہیں بلکہ صرف 4 ہزار سر پر کفن باندھے ان سر فرشوں کی ایک تنظیم ہے جن کا تعلق جنوبی لبنان سے ہے اور جو اپنی سرزمین کو اسرائیلی قبضے سے نجات دلانے کے لئے معرض وجود میں آئی تھی، جس کے پاس نہ ٹینک ہیں، نہ فضائیہ ہے، نہ بحریہ ہے اور نہ اعلیٰ جدید اسلحہ سے مسلح کوئی باقاعدہ فوج ہے۔ یہ جنگ غزہ میں فلسطینیوں پر ہونے والے بدترین تشدد کا بدلہ لینے کے لئے حزب اللہ کے ہاتھوں 2 اسرائیلی فوجیوں کے اغواء کے جواب میں شروع ہوئی۔ 33 روزہ اس جنگ کا نتیجہ اسرائیل کا اپنا اعتراف شکست ہے۔
اسرائیل میں اگرچہ تیونس کے آمر بن علی کی حکومت کے خلاف اٹھنے والی انقلابی تحریک کے حوالے سے بھی تشویش پائی جاتی تھی لیکن مصر کی تحریک نے اسرائیل کی پریشانیوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ ڈائچے ویلے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصر میں آنے والے سیاسی زلزلے کے جھٹکے اسرائیل تک محسوس کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اگرچہ حسنی مبارک کے صدارت کے عہدے سے الگ ہونے کے بعد ملکی فوج نے یقین دہانی کروائی ہے کہ مصر اپنے تمام تر بین الاقوامی معاہدوں پر قائم رہے گا، لیکن پھر بھی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ کچھ برسوں کے بعد مصر اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات ویسے دوستانہ نہیں رہیں گے، جیسے کہ وہ حسنی مبارک کے دور میں رہے تھے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ غزہ پر قابض عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس کے مصری سیاسی جماعت اخوان المسلمین کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔
اسرائیلی صدر شمعون پیریز اور وزیراعظم نیتن یاہو نے اگرچہ اسرائیلی وزراء کو عرب تحریکوں کے حوالے سے بیانات جاری کرنے سے روک دیا ہے لیکن وہ خود اپنی تشویش نہیں چھپا پا رہے۔ شمعون پیریز نے یروشلم میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ مصر میں کوئی بنیاد پرست مذہبی حکومت وہاں جمہوریت میں پائی جانے والی موجودہ خامیوں سے بہتر نہیں ہو گی۔ مصر کے حالات سے خوفزدہ ہو کر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے مصری سرحد پر حائل دیوار کو جلد از جلد مکمل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نے اپنی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے مصر کے ساتھ کیے گئے اپنے امن معاہدے کے بارے میں کہا :اگر امن معاہدہ ختم ہو گیا یا اس میں تبدیلیاں واقع ہوئیں تو ہم اپنے دفاع کے لیے ٹھوس اقدامات کریں گے۔ انھوں نے امریکی صدر باراک اوباما اور متعدد یورپی سربراہوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ جدید مصر کو اس وقت تک قبول نہیں کیا جانا چاہیے جب تک وہ عالمی معاہدوں اور اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کی پابندی کا اعلان نہ کرے۔
اسرائیلی میڈیا بھی ان حالات پر اپنی تشویش نہیں چھپا پا رہا۔ اسرائیلی فوج کے ریڈیو نے اپنی خبروں میں بتایا ہے کہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے خیال میں مصر میں ہونے والے ہنگامے مشرق وسطیٰ میں فوجی توازن تبدیل کر کے رکھ دیں گے۔ اسرائیلی اخبارات میں سے ایک شہ سرخی یہ تھی کہ” اب ہم اکیلے ہیں “۔ یاد رہے کہ مصر واحد عرب ملک ہے جس میں باقاعدہ اسرائیل کا سفارتخانہ موجود ہے جبکہ اسرائیل میں مصر کا سفارت خانہ قائم ہے۔ مصر خطے کا سب سے بڑا مسلمان ملک ہونے کے باوجود اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ہے۔ اسرائیلی اخبارات کی مذکورہ سرخی کو اسی پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک اخبار ”اسرائیل ہایوم“ کے مطابق اسرائیلی حکومت نے درپردہ اس بحران سے بروقت نمٹنے کے سلسلے میں وائٹ ہاوس کے طریقہ کار پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ امریکہ نے مبارک کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔
لبنان کے انقلابی رہنما حسن نصراللہ نے” المنار ٹی وی“ پر اپنے خطاب میں کہا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل مصر کے انقلاب کو روٹی، کپڑے اور معیشت کا انقلاب قرار دے رہے ہیں جبکہ یہ ایک اسلامی اور سیاسی انقلاب ہے۔ انھوں نے کہا کہ صہیونی مصری عوام کے انقلاب سے سخت خوفزدہ ہیں اور وہ خطے میں اپنے سب سے بڑے حلیف کی سرنگونی سے وحشت زدہ ہو گئے ہیں۔ مصری تنظیم” جمعیت المفکرون المصریون“ کے ایک اہم رکن یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر اشرف بیومی نے المنار ٹی وی سے ایک انٹرویو میں کہا کہ مصری عوام اپنے ملک میں امریکہ اور اسرائیل کی مخالف ایک حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم ہرگز امریکہ اور اسرائیل سے بات نہیں کریں گے۔
خیال رہے کہ حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی تینتیس روزہ جنگ کے دوران میں اسرائیل کے ان علاقوں کے لوگوں نے واپس جانے کی آواز بلند کرنا شروع کر دی تھی، جہاں تک حزب اللہ کے راکٹوں کی رسائی تھی۔ یہی صورت حال حماس کے راکٹوں کے زیر اثر علاقوں میں پیدا ہو گئی تھی۔ حماس کے راکٹوں کی زد میں اسرائیل کی ایک ملین سے زیادہ آبادی کے علاقے آتے ہیں۔ غزہ پر مسلط کی گئی بائیس روزہ اسرائیلی جنگ میں اسرائیلی فوج حماس کے راکٹوں کا کوئی ٹھکانہ دریافت نہیں کر سکی۔
 2007ء کے ایک سروے کے مطابق نوجوان اسرائیلیوں کے لازمی فوجی تربیت کے رجحان میں پہلے ہی کمی واقع ہو چکی ہے۔ مذکورہ ناکامیوں کے بعد اسرائیلی فوج کے حوصلے بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔ ایک سروے کے مطابق اسرائیل کی ایک بڑی آبادی اسرائیل کے مستقبل سے مطمئن نہیں ہے جبکہ دوسری طرف عرب ممالک کی تحریکوں نے فلسطینیوں کے اندر ایک نیا اعتماد اور ولولہ پیدا کر دیا ہے، وہ خاص طور پر مصر میں آنی والی تبدیلیوں کے بارے میں پرامید ہیں۔ اگر اسرائیل کی ہمسائیگی میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہو جاتی ہے تو اسرائیل کے مستقبل کے بارے میں بہت سنجیدہ سوال پیدا ہو جائے گا اور اس امر کا امکان موجود ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں سے مذہبی جنون پیدا کر کے جو یہودی آبادی اسرائیل میں منتقل کی گئی ہے وہ اپنی آمد سے کہیں زیادہ تیز رفتاری سے واپسی کا سفر اختیار کر لے اور اس سرزمین پر پھر وہی پرانا اور حقیقی فلسطین ابھر آئے۔ نتیجتاً نیا مشرق وسطیٰ اور پھر نیا عالم اسلام ظہور کر سکتا ہے۔ البتہ اس کا انحصار عرب دنیا میں اٹھنے والی تحریکوں کے اجتماعی شعور پر ہے۔
خبر کا کوڈ : 56351
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش