0
Tuesday 25 Jul 2017 03:39

دنیا کو درپیش خطرات اور بڑی طاقتوں کی سردمہری(1)

دنیا کو درپیش خطرات اور بڑی طاقتوں کی سردمہری(1)
تحریر: عمران خان

کرہ ارض کے وہ ممالک جو اپنی معاشی، دفاعی استعداد کی بدولت ترقی یافتہ ہونے کے گھمنڈ اور کرہ ارض پہ تسلط کے خبط میں مبتلا ہیں، وہی ایک جانب دنیائے عالم کو درپیش خطرات کا اظہار بڑے اخلاص و مروت سے کرتے ہیں تو دوسری جانب ان خطرات سے نمٹنے کیلئے آئے روز نت نئی حکمت عملیاں بھی وضع کرتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ انہی ممالک کی وجہ سے کرہ ارض آج اپنی بقاء کے خطرے سے دوچار ہے۔ پوری دنیا کو مشترکہ طور پر جن چار عفریتوں کا سامنا ہے، ان کے پیش رو، موجب اور ذمہ دار وہی ممالک ہیں، جو سب سے زیادہ ان خطرات پر اظہار تشویش بھی کرتے ہیں اور ان کو بڑھاوا دینے کی ہر ممکن سعی بھی۔ ان سے نمٹنے کیلئے وسائل خرچ کرنے کے دعویدار بھی ہیں اور وسائل میں اضافے کیلئے چاروں خطرات کو تقویت بھی دے رہے ہیں۔ یہ چار عفریت ذیل ہیں۔
موسمیاتی بدلاؤ
ممکنہ جوہری جنگ (عالمی جنگ)
بڑھتی ہوئی بدامنی
وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم

حیرت کی بات یہ نہیں کہ ترقی یافتہ دنیا وقفے وقفے سے ان مسائل پہ اظہار تشویش کرتی ہے بلکہ باعث حیرت یہ ہے کہ جن ممالک کی وجہ سے یہ مسائل آج پوری دنیا کو ہڑپنے کیلئے منہ پھاڑے کھڑے ہیں، وہی ممالک ان خطرات سے نمٹنے کا عزم بھی ظاہر کرتے ہیں اور اپنے چلن میں بدلاؤ پہ بھی آمادہ نہیں۔

موسمیاتی بدلاؤ
موسمیاتی بدلاو ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جو رفتہ رفتہ کرہ ارض کو نگل رہا ہے، اس مسئلہ کے تناظر میں مستقبل کا منظرنامہ کچھ یوں ہوگا کہ خشکی کا تقریباً نصف حصہ سمندر برد ہو جائے گا۔ قدرتی آفات کی شدت اور مقدار اتنی زیادہ ہوگی کہ نام نہاد عالمی طاقت کے دعویدار بھی ان کے سامنے عاجز ہوں گے۔ پینے کا پانی نایاب اور موسمی شدت اتنی زیادہ ہوگی کہ رفتہ رفتہ حصول خوراک کے دروازے حضرت انسان پہ بند ہوتے چلے جائیں گے۔ یہاں تک چرند، پرند اور نباتات قصہ پارینہ ہو جائیں گے۔ دنیا کو درپیش اس خطرے کی بنیادی وجہ فضا میں تیزی سے زہریلی گیسز، سمندر و دریاؤں میں زہریلے فضلے کا اخراج ہے۔ جنگلات کی تیزی سے کٹائی اور فطری تقاضوں کے برخلاف انسانی طرز زندگی ہے اس خطرے کو بڑھاوا دینے والے ممالک میں امریکہ سرفہرست اور چین تھوڑے وقفے سے دوسرے نمبر پر ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک ترقی کے اعتبار سے یکے بعد دیگرے اس فہرست کا حصہ ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کا بویا پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کاٹنے پر مجبور ہیں۔ یعنی بڑے ممالک اپنا کچرا کچھ اس انداز سے دنیا میں ڈال رہے ہیں کہ چھوٹے ممالک اس میں دھنس رہے ہیں۔ موسمیاتی بدلاؤ کے خطرے کو بڑھاوا دینے میں امریکہ سرفہرست ہے، مگر اس سے متاثر ممالک کی فہرست میں امریکہ سمیت کوئی ایک بھی ترقی یافتہ ملک شامل نہیں ہے، جبکہ صومالیہ، ہنڈرس، برما موسمیاتی بدلاؤ کے خطرے میں اضافے کا کبھی باعث نہیں بنے، مگر یہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

موسمیاتی بدلاؤ سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پہلے پسماندہ اور پھر ترقی پذیر ممالک شامل ہیں۔ متاثرہ ممالک میں پاکستان نویں اور بھارت دسویں نمبر پر ہے۔ تاہم اس خطرے کو بڑھاوا دینے والے پہلے دس ممالک میں پاکستان شامل ہی نہیں جبکہ بھارت ساتویں نمبر پر ہے۔ باالفاظ دیگر اس خطرے میں عالمی سطح پہ ’’کرے کوئی اور بھرے کوئی‘‘ والا معاملہ کارفرما ہے۔ غیر ترقی یافتہ دنیا کے باسیوں کی تکالیف کا سلسلہ یہیں پہ ہی ختم نہیں ہوتا بلکہ اس خطرے سے ڈرا کر ان پر مزید دروازے بھی بند کئے جاتے ہیں اور ان سے خراج بھی وصول کیا جا رہا ہے، حالانکہ ہونا اس کے برعکس چاہیئے تھا۔ امریکہ، چین، روس و دیگر ممالک کہ جو موسمیاتی بدلاؤ کے خطرے کو مسلسل بڑھاوا دے رہے ہیں اور اس کے سدباب کیلئے فضا اور سمندر میں زہریلے مواد کا اخراج روکنے پر آمادہ بھی نہیں، انہیں تاوان ادا کرنا چاہیئے، ان ممالک کو جو ماحولیاتی بدلاؤ سے متاثر ہیں، مگر یہاں بھی گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ حال ہی میں امریکہ نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے علیحدگی اختیار کرلی۔ اس معاہدے کی ایک شق کے تحت ممبر ممالک زہریلے مواد کے اخراج میں خاطرخواہ کمی کے پابند تھے۔ امریکی صدر نے یہ کہہ کر اس معاہدے کو مسترد کر دیا کہ ممبر ممالک ہماری ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا چاہتے ہیں۔ جو ملک ماحولیاتی تباہی کا سب سے بڑا موجب ہے، وہی ماحولیاتی معاہدے کو مسترد کر رہا ہے، اس پہ ’’مرے کو سو درے‘‘ اسی امریکہ کو ویٹو کا بھی اختیار حاصل ہے۔

جو ممالک دنیا کو درپیش سنگین ترین خطرے سے دوچار ہیں، ان میں سے کسی ایک کو بھی عالمی سطح پر یا اس ماحولیاتی خطرے کے سدباب کیلئے کسی فیصلے کا کوئی اختیار حاصل نہیں، جبکہ دنیا کے فیصلے کرنے کا اختیار ’’سلامتی کونسل‘‘ میں جنہیں حاصل ہے، وہ سب اس خطرے کو بڑھاوا دینے میں سرفہرست ہیں، ناکہ متاثرہ ممالک کی صف بندی میں۔ یہ تو تھا تصویر کا ایک رخ، اب اسی تصویر کے دوسرے رخ کا جائزہ لیں تو معاملہ ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے" والا عیاں ہوتا ہے۔ جو ممالک کرہ ارض کے ماحول میں خطرناک حد تک خرابی کا باعث ہیں، وہ تمام کے تمام اس خرابی کو مزید وسعت دینے کیلئے مکمل آزاد ہیں اور جو ممالک اس خطرے سے براہ راست متاثر ہو رہے ہیں، انہیں مختلف نوع کی پابندیوں اور حدود و قیود کا بھی سامنا ہے۔ مثلاً امریکہ ایٹمی بم بنائے، روس ہائیڈروجن بم بنائے یا چین مہلک لیزر تجربات کرے، ان پر قدغن لگانے والا کوئی نہیں، ان کے ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں، دوسری جانب پاکستان جو موسمیاتی بدلاؤ سے متاثرہ پہلے دس ممالک میں شامل ہے، اس پہ جوہری، میزائل و دیگر تجربات کرنے پہ پابندی ہے۔ بھارت جو کہ ماحولیاتی بگاڑ کی درجہ بندی میں پہلے دس ممالک میں شامل ہے، وہ جوہری کلب کا ممبر بھی ہے اور امریکہ کے ساتھ سول جوہری معاہدے بھی رکھتا ہے۔

اسی طرح صومالیہ جو ماحولیاتی بدلاؤ سے سب سے زیادہ متاثر ہے، وہ کوئی خطرناک تجربہ یا جوہری گیسز کے اخراج کا پلانٹ نصب کرنا تو درکنار، کسی دوسرے ملک کے ساتھ ایسے مواد کا معاہدہ بھی نہیں کرسکتا کہ جو ماحول کیلئے نقصاندہ ہو یا دنیا کے بڑوں یا سلامتی کونسل کے ممبران کے مزاج پہ گراں گزرے۔ یعنی جیسے بڑی طاقتوں کے نام نہاد ترقی پسندانہ کا خمیازہ نہ صرف پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے بلکہ یہ طاقتیں ان ممالک کو یونہی بے بس اور بے دست و پا رکھنے کی بھی باقاعدہ حکمت عملی رکھتی ہیں۔ اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیئے کہ ماحولیاتی بدلاؤ سے متاثرہ ممالک کا ایک نمائندہ پلیٹ فارم وجود میں لاکر اسے عالمی فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ادا کرنے کو موقع دیا جائے۔ بڑی طاقتیں ماحولیاتی بدلاؤ کے باعث ہونے والے نقصان کا نہ صرف ان ممالک کو ہرجانہ ادا کریں بلکہ اس مد میں انہیں قانون سازی کا بھی اختیار دیں۔ علاوہ ازیں کرہ ارض کو درپیش اس خوفناک خطرے سے نمٹنے کیلئے تمام ممالک ذمہ دارانہ کردار ادا کریں اور ترقی کے نام پر تنزلی کی جانب جاری سفر کی رفتار میں کچھ کمی لائیں۔

جوہری جنگ

کرہ ارض پہ سانس لینے والے ہر ذی شعور شخص کیلئے یہ امر باعث تشویش ہے اور ہونا بھی چاہیئے کہ امریکہ جیسی غیر ذمہ دار طاقت کے پاس جوہری ہتھیاروں کی اتنی مقدار میں موجود ہے کہ جو تین سے زائد مرتبہ پورے کرہ ارض کو تباہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ یہی حال روس کا ہے، کم و بیش چین، فرانس، اسرائیل، شمالی کوریا وغیرہ بھی اپنی دفاعی ضروریات اور استعداد سے کہیں بڑھ کر جوہری ہتھیاروں کے مالک ہیں، اس سے زیادہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ ان میں سے بعض طاقتیں آپس میں اور بعض ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک سے بالواسطہ یا بلاواسطہ حالت جنگ میں ہیں، جس سے جوہری جنگ کے خطرات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا کو درپیش یہ خطرہ ایسا نہیں کہ کسی بھی طور اسے نظرانداز کیا جاسکے، کیونکہ عالمی جوہری جنگ کی صورت میں کرہ ارض سے شائد زندگی ہی معدوم ہوجائے۔ کرہ ارض کے اربوں مکینوں کے سر پہ منڈلاتے اس خطرے کے پیش رو، موجب اور ذمہ داران وہی بڑے ہیں کہ جن کی وجہ سے کرہ ارض پہلے ہی اپنی بقاء کے خطرے سے دوچار ہے۔ مزید ان کے جوہری ہتھیاروں کے انبار اور تیسری بڑی جنگ کے خطرے سے زمین پہ زندگی کی رہی سہی امید بھی دم توڑ رہی ہے۔

ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جوہری جنگ کے خطرے سے پیش تر، جوہری توانائی کے حصول کیلئے جو تابکار فضلہ دنیا کو تحفتاً دیا جا رہا ہے، اس کے ابتدائی متاثرین وہی پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں ایٹمی فضلے سے پیدا ہونے والی خطرناک بیماریوں یعنی کینسر وغیرہ سے سب سے زیادہ پسماندہ ممالک کے شہری متاثر ہوئے۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک نہ صرف یہ کہ پوری طرح ممکنہ جوہری جنگ کے خطرے سے دوچار ہیں اور اپنے بچاؤ کیلئے کچھ نہیں رکھتے، بلکہ ایٹمی پلانٹوں سے خارج جوہری فضلہ جات سے بھی زیادہ متاثر ہیں، تاہم انہی ممالک پہ جوہری توانائی کے حصول کے دروازے بند رکھے گئے ہیں، جبکہ امریکہ، چین، روس، یورپ، اسرائیل اور بھارت استعداد سے بڑھ کر جوہری ہتھیار رکھنے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد جوہری توانائی کی نفع بخش تجارت میں بھی مصروف ہیں۔ یعنی جو اثرات بھگت رہے ہیں، وہ جوہری قوت کے حصول بارے سوچ نہیں سکتے اور جو اس قوت کی تجارت اور پھیلاؤ میں مصروف ہیں، وہی دنیا کو یہ باور کرانے پہ کمربستہ ہیں کہ جوہری قوت اچھی چیز نہیں، لہذا اس کے حصول سے باز رہو۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 655914
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش