0
Monday 1 Oct 2018 00:23

معصومین کی نظر میں عزاداری سید الشہداء۔۔۔۔۔

معصومین کی نظر میں عزاداری سید الشہداء۔۔۔۔۔
تحریر: سیدہ ایمن نقوی

حضرت امام جعفر صادق (ع) اور امام حسین علیہ السلام کی عزاداری شیعیان حیدر کرار کے روائی منابع میں موجود اکثر احادیث و روایات فقہی مسائل سے متعلق ہوں یا اسلامی آداب و سنن سے متعلق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہی سے نقل ہوئی ہیں اسی بنا پر شیعہ مذہب آپ علیہ السلام کے نام نامی سے منسوب ہو کر’’جعفری‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی امیہ کی حکومت کا سلسلہ اپنے زوال کے قریب تھا اور بنی عباس ابھی اپنی حکومت کی بنیادیں مضبوط کرنے میں مصروف تھے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے ۱۱۴ھ۔ق سے ۱۴۸ ھ۔ق میں مجموعاً ۳۴ سال میں سے ۱۸ سال بنی امیہ کی آخری سانس لیتی ظالم حکومت اور ۱۶ سال بنی عباس کی حکومت کے ابتدائی مراحل میں گذارے۔ حضرت صادق علیہ السلام نے موجودہ شرائط سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے فرصت کو غنیمت شمار کیا اور اسلامی شیعی تمدن کو پھیلانے میں ہر ممکنہ کوشش فرمائی اور فقہ شیعہ کی بنیادکو مضبوط اور عمیق مبانی سے آراستہ کرتے ہوئے بہت سے شاگردان کی تربیت فرمائی۔

کربلا کے واقعات اور امام حسین علیہ السلام اور اُن کے باوفا اصحاب کی مظلومانہ شہادت سے متعلق بہت سی روایات حضرت ہی سے نقل ہوئی ہیں جن میں سے چند کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:
شيخ جليل كامل جعفر بن قولويہ اپنی کتاب ’’كامل‘‘ میں ابن خارجہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتا ہے کہ ایک دن میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں موجود تھا کہ حضرت امام حسین کا ذکر ہوا، حضرت بہت روئے اور ہم نے بھی حضرت کے ساتھ رونا شروع کر دیا۔ کچھ دیر کے بعد حضرت نے اپنا سر اٹھایا اور ارشاد فرمایا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں، ’’انا قتیل العبرۃ لا یذکرنی مؤمن الا بکی‘‘(1) میں ایسا شہید ہوں کہ جو مؤمن بھی میرے شہادت سے متعلق سنے گا تو بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں گے، اور اسی طرح ایک اور روایت میں بیان ہوا ہے کہ کوئی دن ایسا نہ تھا جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے محضر میں حضرت سید الشہداء کا نام لیا جاتا اور حضرت اس دن تبسم فرماتے اور اس دن محزون حالت میں رہتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ امام حسین ہر مؤمن کے لئے رونے کا سبب ہیں۔ عبداللہ بن سنان سے روایت نقل ہوئی ہے کہ روز عاشور میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے محضر مبارک میں شرفیاب ہوا، اس وقت حضرت کے اطراف میں اصحاب بھی موجود تھے۔ حضرت کا چہرہ مبارک غمگین تھا اور گریہ بھی فرما رہے تھے۔ میں نے عرض کی، اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کیوں گریہ کناں ہیں؟ حضرت نے فرمایا، کن سوچوں میں ہو کیا نہیں جانتے آج ہی کے دن امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تھے؟ (ابن سنان کہتا ہے حضرت کی اُس حالت نے حضرت کو مزید کچھ کہتے کی مجال نہ دی)حضرت کے یہ جملات سنتے ہی سب اصحاب بھی رونے لگے۔(2)۔

زید الشحّام نقل کرتا ہے ایک دن حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں بیٹھا تھا کہ جعفر بن عثمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور امام علیہ السلام کے قریب بیٹھ گئے۔ حضرت نے اس سے کہا کہ میں نے سنا ہے تم امام حسین علیہ السلام سے متعلق شعر کہتے ہو۔ جعفر نے کہا جی ہاں۔ پھر جعفر نے امام کے حکم پر امام حسین علیہ السلام کی مصیبت میں اشعار پڑھے جنہیں حاضرین نے سنا اور گریہ کیا۔ امام علیہ السلام کے چہرۂ مبارک پر بھی آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا، اے جعفر خداوند متعال کے مقرب فرشتوں نے بھی تمہارے اشعار سن کر اسی طرح گریہ کیا ہے جس طرح ہم نے گریہ کیا۔ پھر فرمایا، ‘‘جو بھی امام حسین علیہ السلام کے لئے شعر کہے، خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رلائے خداوند متعال جنت کو اس پر واجب کر دیتا ہے اور اس کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔(3)۔ محمد بن سہل کہتا ہے ہم ایام تشریق (4) میں شاعر ‘‘کمیت’’ کے ہمراہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے حضور شرفیاب ہوئے۔ ’’کمیت‘‘ نے حضرت سے عرض کی، اجازت ہے میں کچھ شعر پڑھوں؟ حضرت نے اجازت مرحمت فرماتے ہوئےفرمایا، یہ ایام بہت بزرگ ہیں کہو اور حضرت نے اپنے اہلبیت سے بھی فرمایا کہ آپ سب بھی نزدیک آ جائیں اور کمیت کے اشعار سنیں۔ کمیت نے امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت و مصیبت میں کچھ اشعار کہے۔ امام علیہ السلام نے اشعار سننے کے بعد کمیت کی بخشش اور اس کے حق میں دعا فرمائی۔(5)۔ شیخ فخر الدین طریحی نے اپنی کتاب ‘‘منتخب’’ میں روایت نقل کی ہے کہ جب بھی عاشورا کا چاند نمودار ہوتا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام غمگین ہو جایا کرتے تھے اور اپنے جد بزگوار سید الشہداء علیہ السلام پر گریہ فرمایا کرتے تھے۔ لوگ بھی اطراف و اکناف سے حضرت کے محضر میں شرفیاب ہوتے اور حضرت کے ساتھ مل کر عزاداری کرتے اور حضرت کو اس غم میں تسلیت پیش کیا کرتے۔

جب عزاداری سے فارغ ہو جاتے تو حضرت فرمایا کرتے تھے، اے لوگو! جان لو کہ امام حسین علیہ السلام اپنے پروردگار کے پاس زندہ اور مرزوق ہیں اور جب عزاداری سے فارغ ہو جاتے تو حضرت فرمایا کرتے تھے، اے لوگو! جان لو کہ امام حسین علیہ السلام اپنے پروردگار کے پاس زندہ اور مرزوق ہیں اور ہمیشہ اپنے عزاداروں کی طرف خاص توجہ فرماتے ہیں ان کے نام اور ان کے اجداد کے ناموں اور اُن کے لئے جنت میں جو مقامات آمادہ کئے گئے ہیں سب کو جانتے ہیں۔(6)۔ اسی طرح حضرت امام صادق علیہ السلام اپنے جد امجد حضرت امام حسین علیہ السلام کی زبانی نقل فرماتے ہیں، اگر میرے زائر اور عزادار جان لیں کہ خداوند متعال انہیں کیا اجر دے گا تو اُن کی خوشحالی ان کی عزاداری سے کہیں زیادہ ہوگی اور امام حسین علیہ السلام کا زائر اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہمیشہ مسرور حالت میں لوٹتا ہے۔ حضرت کا عزادار اپنے مقام سے ابھی اٹھتا ہی نہیں کہ حق متعال اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے اور وہ اس طرح ہو جاتا ہے جیسے ابھی ماں سے متولد ہوا تھا۔(7)۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا امام حسین علیہ السلام کے زندہ شاہد و ناظر ہونے پر تاکید کرنا در واقع قرآن کریم کی ان آیات کی طرف اشارہ ہے جن میں شہید کی خصوصیات بیان ہوئیں ہیں ۔بطور مثال آیت مبارکہ ’’ولا تحسبنَّ الذین قُتلوا فی سبیلِ اللّهِ امواتا بَل احیاء عندَ ربِّهم یُرزقون‘‘(8) یہ بات اس امر کی طرف متوجہ کرا رہی ہیں کہ امام صادق علیہ السلام کی یہ کوشش تھی کہ بنی امیہ کی اس سازش کو ناکام بنایا جائے، (9) جو انہوں نے آئمہ شیعہ کے بارے میں مشہور کر رکھی تھی۔ بنی امیہ اِن بزرگوار ہستیوں کو اسلامی حکومت کے خلاف باغی متعارف کرواتے تھے جنہوں نے نام نہاد امیرالمؤمنین پر خروج کیا ہو جبکہ امام صادق علیہ السلام اِن محافل و مجالس کے ذریعہ امام حسین کی شخصیت کے ابعاد اور اُن حقائق مخفی کو آشکار فرماتے تھے اور اس بارے میں قرآن مجید جو تمام مسلمین کا متفق علیہ مأخذ ہے اس سے متوسل ہوتے تھے۔

حوالہ جات:
1۔ بحار الانوار،ج۴۴،ص۳۹
2۔ شیخ صدوق،امالی،مجلس۲۷
3۔ سید شرف الدین، فلسفہ شہادت و عزاداری حسین بن علی ؑ، ترجمہ علی صحت، تہران، مرتضوی، ۳۵۱ص۶۸۔
4۔ دسویں، گیارہویں، بارہویں ذی الحجہ کو حاجی حضرات اعتکاف کی حالت میں منی میں بیتوتہ کرتے ہیں ان ایام کو ‘‘ایام تشریق’’ کہتے ہیں۔
5۔ کامل الزیارات، باب۳۲،ص۱۱۲
6۔ فخر الدین طریحی، المنتخب الطریحی، قم، منشورات الرضی،۱۳۶۲ش،ج۲،ص۴۸۲۔
7۔ بحار الانوار، ج۴۴، ص
8۔ سورۂ بقرہ، آیت نمبر۱۵۵
9۔ منتہی الاعمال، شیخ عباس قمی
خبر کا کوڈ : 753157
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش