10
2
Thursday 8 Nov 2018 18:24

دو تاریخی مرض، اندھا اعتماد اور سادہ دلی

دو تاریخی مرض، اندھا اعتماد اور سادہ دلی
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

جنگیں ڈنڈوں اور اسلحے سے نہیں بلکہ عقل سے لڑی جاتی ہیں، عقل کی غذا علم اور تحقیق ہے، جب عقلیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو جو دماغ علم اور تحقیق میں کمزور ہوتا ہے وہ شکست کھا جاتا ہے۔ نپولین  1798ء میں جب فاتح کی حیثیت سے مصر کے مسلمان مملوکی بادشاہوں کو شکست دے کر مصر میں داخل ہوا تو اس وقت اسلام  اور مشرقی ممالک کے بارے میں جاننے والے غیر مسلم ماہرین کا ایک بڑا گروہ بھی اس کے   ہمراہ تھا، جو قدم قدم پر اس کی  کی رہنمائی  کر رہا تھا۔[1] ان ماہرین نے نپولین کو یہ سمجھایا کہ مصر کے لوگ اپنے بادشاہوں سے زیادہ دین کے بارے میں بہت حساس  ہیں۔ لہذا لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ ہم حملہ آور اسلام کی تعلیمات پر کامل یقین رکھتے ہیں اور اسلام کو دینِ بشریت اور دینِ ہمدردی و اخوت سمجھتے ہیں، نیز بانی اسلام کی تعلیمات کو عالم بشریت کی سعادت و خوشبختی کا باعث سمجھتے ہیں۔ چنانچہ نپولین مصر میں جہاں بھی تقریر کرتا تھا، انہی نکات کو دہراتا تھا، اس نے مصر میں پہلی انجمن شرق شناسی مصر کی بنیاد رکھی اور اہل مصر کو بہت کم فوج کے ساتھ قابو کرنے کے لئے نمازیں پڑھانے والے اماموں، قاضیوں، مفتیوں اور مقامی علمائے کرام کے لئے وظائف مقرر قائم کئے، بعض نے حکومت سے وظائف لینے سے انکار کیا تو انہیں یہ کہا گیا کہ آپ لوگ یہ رقم اپنے لئے استعمال نہ کریں بلکہ اسلام کی خدمت کے لئے صرف کریں۔

اس نے مکمل پروٹوکول کے ساتھ جامعۃ الازہر کے ساٹھ استادوں کو فوجی چھاونی میں عربی سکھانے اور اسلامی معارف بیان کرنے کے لئے مامور کیا، تاکہ مستشرقین دینِ اسلام کے عربی متون پر اچھی طرح عبور حاصل کر پائیں۔ نپولین کی یہ حکمت عملی اتنی کارگر ثابت ہوئی کہ بہت جلد مسلمانوں نے اپنی اسلامی حکومت کے جانے کے غم کو فراموش کر دیا اور پورا مصر نپولین کے گُن گانے لگا۔ یہاں تک کہ آج بھی بعض سادہ دل مسلمان، نپولین کو عاشقِ رسولﷺاور عاشق امام حسینؑ گردانتے ہیں۔ جب نپولین نے مصر کو چھوڑنے کا ارادہ کیا تو اپنے نائب کلبرKleber کو یہ تاکید کی کہ مستشرقین کے مشورے سے مصر کی مدیریت کی جائے۔ چونکہ اس کے علاوہ ہر طریقہ خرچے کا باعث اور احمقانہ تھا۔[2]

یہ طریقہ کار دنیا بھر کے حکمرانوں کو سمجھ آچکا ہے اور وہ ایسے حربوں سے بھرپور استفادہ کرتے ہیں۔ عصر حاضر میں اس کی واضح مثال یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے جو بین المذاہب دعائیہ تقریب کیپٹل ہل میں منعقد ہوئی، اس میں قرآن مجید کی تلاوت کی گئی[3] اور اس کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پینس کی واشنگٹن کے گرجا گھر میں منعقدہ ایک مذہبی تقریب کے دوران توجہ سے قرآن کریم کی تلاوت سننے کی ویڈیو بھی وائرل کی گئی۔ جب  تلاوت شروع ہوئی تو خاتون اول ملنیا ٹرمپ فائل اٹھانے لگیں۔ اس دوران ٹرمپ انہیں بیٹھے رہنے کا اشارہ کرتے بھی نظر آئے۔[4] اس کے علاوہ مسٹر ٹرمپ کی ریاض کانفرنس کے موقع پر کی گئی یہ تقریر بھی انٹرنیٹ پر موجود ہے، جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اسلام دنیا کا بہترین مذہب اور امن پسند دین ہے۔[5]

اس طریقہ کار کو غیر مسلم حکمرانوں کی طرح مسلم دنیا کے حکمران بھی استعمال کرتے ہیں، جیسا کہ سعودی حکومت کی واضح مثال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں ایک طرف تو بین الاقوامی اسلامی عسکری اتحاد تشکیل دیا جاتا ہے اور دوسری طرف فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لئے ایک لفظ بھی نہیں بولا جاتا۔ یہی کچھ ہمارے پاکستان میں بھی ہو رہا ہے۔ ضیاءالحق نے امریکی تھنک ٹینکس کے ساتھ مل کر اسلام کے نام پر چند مدارس، مولویوں اور مفتیوں کو خرید کر طالبان کی بنیاد رکھی اور پاکستان کو دہشت گردوں کی جنت بنا دیا۔ وہ ایک طرف نظامِ مصطفٰیﷺ کا اعلان کرکے ہمارے مذہبی حلقوں کو خوش کرتا رہا اور دوسری طرف مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کرتا رہا۔ اسی طرح آج بھی ہمارے ملک میں عوام کے دینی جذبات کو ابھار کر مختلف لوگ اپنے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں، یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ آئے روز شرپسند عناصر توہین رسالت اور عشق نبیﷺ کے نام پر لوگوں کو بغاوت پر اکساتے ہیں، چونکہ چالاک لوگوں کو ہماری اس کمزوری کا علم ہے کہ ہم لوگ مذہبی معاملات میں بہت جذباتی ہیں، چالاک افراد کی تقریروں سے مشتعل ہو کر سادہ دل لوگ ملکی و قومی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

یہ سب کچھ عشقِ نبی ﷺ کے نام پر کیا جاتا ہے اور بعد ازاں دوسری طرف حکومت بھی باغیوں کو کچلنے کے بجائے نمازیں پڑھانے والے اماموں، قاضیوں، پیروں، مفتیوں اور مولویوں کو خرید کر معاملے پر مٹی دال دیتی ہے۔ یوں دین دوستی کے نام پر حکومت کا پہیہ بھی گردش میں رہتا ہے اور باغی بھی مکمل آزاد گھومتے ہیں۔ اب اگر زیرِ عتاب کوئی آتا بھی ہے تو وہ بے چارہ قانون کے شکنجے میں پھنستا ہے، جس نے مولویوں اور پیروں پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے آتشِ عشق میں بے خطر چھلانگ لگائی ہوتی ہے۔ جب تک لوگوں کی شعوری سطح بلند نہیں کی جاتی اور ان کی سادہ دلی کے مرض کا درمان نہیں کیا جاتا، تب تک ہمارے ہاں اسلام کے نام پر  طالبان بنتے رہیں گے، خودکش حملے ہوتے رہیں گے اور ملکی و قومی املاک جلتی رہیں گی۔ ہمیں عاشقانِ رسولﷺ کو یہ سمجھانا ہوگا کہ جنگیں ڈنڈوں اور اسلحے سے نہیں بلکہ عقل سے لڑی جاتی ہیں، عقل کی غذا علم اور تحقیق ہے، جب عقلیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو جو دماغ علم اور  تحقیق میں کمزور ہوتا ہے وہ شکست کھا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[1] شرق شناسی و اسلام شناسی غربیان از محمدحسن زمانی
[2] بونا پارٹ و اسلام ،وکریسٹن چرفس ،ص ۲۴۹
خبر کا کوڈ : 760123
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

France
نذر حافی صاحب، آپکے احترام کے ساتھ عرض خدمت ہے کہ بوناپارٹ تا ٹرمپ و پینس کی کھچڑی کے بعد جنرل ضیاء کا تڑکا لگا کر بات تکفیری طالبان کی کرکے عاشقان رسول ص پر چڑھائی کرنا، ایک اور بے ربط تحریر کے ذریعے آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں؟ مستشرقین نہ مل سکے تو اب ایک اور کہانی پیش کر دی۔ جب آپ جیسے بزرگان و علماء و فضلا کی اپنی شعوری سطح کا یہ عالم ہے تو عوام الناس سے کیا شکوہ شکایت؟؟؟ جنگیں اسلحوں سے بھی لڑی جاتی ہیں، اسکا یکسر انکار کر دینا خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفیٰ ص، انکے اہلبیت اطہار و صحابہ کرام کی سیرت حسنہ کے بارے میں آپکی جہالت کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ کاش اسلام ٹائمز کے مسئولین کسی قابل مولوی ہی کو ان موضوعات پر لکھنے کی دعوت دے دیں، تاکہ کوئی ٹھوس اور مدلل منطقی موقف دنیا کے سامنے پہنچ سکے۔ کوئی بات سخت ہوگئی ہو تو پیشگی معذرت۔ ۔
Germany
شکوہ کرنے کے لئے بھی علم، عقل اور مطالعے کی ضرورت ہے۔ جگت باز بھیا کو یہ بھی پتہ نہیں کہ مستشرقین کا ایک عہد پیغمبر اسلام ص کے ہمزمان ہے اور وہ غیر مسلم جو عہد نبوی میں اسلام کے بارے میں تحقیق کرتے تھے، وہ مستشرق ہی کہلاتے تھے۔
باقی یہ کہنا کہ غزوات پیغمبر نعوذباللہ غیر عاقلانہ تھے اور اسلام تلوار کے ذریعے پھیلا ہے، ایسے ناقد صاحب کے علمی و عقلی ظرف کے کیا کہنے۔
مکھی ہمیشہ گندگی ڈھونڈتی رہی ہے اور پورے بدن کو چھوڑ کر گند پر بیٹھتی ہے۔ یہ مکھی کی نفسیات ہے۔ محترم ناقد صاحب آپ بھی اسلام ٹائمز پر گندگی ڈھونڈتے رہیں۔ شاید آپ کامیاب ہو جائیں۔ بہرحال تاحال آپ کی کوشش رائیگاں گئی ہے۔
اگر آپ کو ضمیر اجازت دے تو اپنا نام و پتہ بھی کمنٹس کے ساتھ لکھ دیں، تاکہ قارئین کو آپ کی اصلیت کا مکمل پتہ چل سکے۔
رضوان بہشتی
Poland
بھائی رضوان بہشتی
آپ تو ماشاءاللہ ویسے ہی بہشتی ہیں لیکن جواب دینے میں جلدی کرنے سے پہلے کسی جاہل کے سوال پر یہ سوچ کر ہی غور کر لیا کریں کہ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔
حافی صاحب کی خدمت میں جس نے بھی سوال کیا اس نے یہ کہاں لکھا ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا۔ لکھا تو یوں ہے کہ جنگیں تو اسلحوں کے ذریعے بھی لڑی جاتی تھیں اور اسکے یکسر انکار پر حافی صاحب پر تنقید کی گئی ہے۔ اصل میں یہ جو مرض ہے اندھا اعتماد، اس کا اطلاق آپ جیسے محترم افراد پر ہی ہوتا ہے کہ سوال کچھ ہوتا ہے اور آپ حافی صاحب کی محبت میں سمجھ کچھ بیٹھتے ہیں۔ بھیا جس کسی نے بھی متوجہ کیا کسی دوسری تحریر میں وہی درست ہے کہ مسلمانوں کے اختلافات کے لئے کسی مستشرق کو مت ڈھونڈیئے۔ سعودی و دیگر مسلمان عرب حکمرانوں اور انکے درباری ملائوں کے ہوتے ہوئے اب مستشرقین کی ضرورت نہیں ہے۔ جنرل ضیا، امریکی حکومت اور سعودی بادشاہت و دیگر حکومتی و سکیورٹی اداروں نے یہ سب کچھ کیا جس کو زبردستی مسشترقین کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کچھ نہ ملا تو اس تحریر میں لکھ دیا کہ جنرل ضیاء نے امریکی تھنک ٹینکس کے ساتھ مل کر اسلام کے نام پر یہ سب کچھ کیا۔ خدا نے کاذبین پر لعنت فرمائی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ اس لعنت سے حافی صاحب جیسوں کو بچائیں کہ ہر فورم جوش خطابت کے لئے نہیں ہے۔ پھر عاشقان رسول ص کا ضیائی ٹولے یا تکفیریوں سے کیا ربط... یعنی متوجہ کرنے کے باوجود بونگیوں پر بونگیاں ماری جا رہی ہیں۔ خدا کا خوف ہوتا تو باز رہتے۔ عاشقان رسول ص کو حافی صاحب جیسوں کی بے سروپا باتوں سے کیا مطلب۔ ابھی وہ دو افراد کی کتابیں پڑھ کر الٹا سیدھا مطلب نکال کر اپنی دانست میں بہت بڑا علمی کارنامہ انجام دے رہے ہیں لیکن درحقیقت یہ جہل مرکب کا چورن ہے۔ خدارا امت اسلام ناب محمدی کی ساکھ خراب مت کیجیے اور باز رہیے۔ ہماری ان باتوں کا اسلام ٹائمز کے محترم تجزیہ نگاروں سے انتقام مت لیجیے۔ اتنی مکاریاں نہ کریں۔
Greece
آج کل اسلام ٹائمز کے خلاف کوئی خاص گروہ متحرک ہے جو چھپ کر خنجر گھونپنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لہذا کسی کے منفی کمنٹس معیار نہیں ہیں بلکہ اب اللہ کے فضل و کرم سے اسلام ٹائمز خود ایک معیار کا نام ہے۔
منافقین کی عاقبت ذلت و رسوائی ہی ہے۔ ان شاء اللہ اس حربے میں بھی ذلیل و رسوا ہونگے۔
اسلام ٹائمز والو کسی بے چارے کو اسلام ٹائمز پر لکھنے کی نوکری چاہیے۔ وہ سمجھتا ہوگا کہ یہاں بھی نوکریاں ملتی ہیں، بے چارہ اپنے لئے مقدمہ بنا رہا ہے اور اگر اس طرح کی کوئی ویکنسی خالی ہے تو بے چارے کا دل رکھ لیں۔ شرم کے مارے وہ اپنا نام بھی نہیں لکھ رہا۔
احسن شبیر
Singapore
إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطانِ کانَ ضَعیفاً
یہ شیطانی چالیں چلنے والے ہمیشہ چلتے رہیں گے۔ سارے غزوات النبی مکے سے دور اور مدینے سے نزدیک ہوئے، جو اس بات کی دلیل ہیں کہ دشمن حملہ آور ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جنگی ٹیکنیکس کا اگر مطالعہ کیا جائے تو کوئی عقلمند یہ نہیں کہہ سکتا کہ پیغمبر اسلام ص بغیر عقل کے استعمال کے جنگیں لڑتے تھے۔
اسی طرح مستشرقین کا ایک دور قبل از تاریخ اسلام ہے، دوسرا ہمارے نبی ص کی دعوت اسلام کے ہمراہ ہے اور تیسرا بعد از خلافت راشدہ تا حال ہے۔
بہرحال جہاں تک میں سمجھا ہوں اس تنقید کا مقصد
اسلام ٹائمز کی ٹیم کے حوصلے پست کرنا ہے جو کہ ان شاء اللہ ممکن نہیں۔
شیطان کی چالیں مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہیں۔
Singapore
بہت عمدہ مطالب ہیں۔ انہیں زیادہ سے زیادہ شئیر کرنے کی ضرورت ہے۔
United States
تاریخی تناظر کے ساتھ ملکی معاملات پر عالمانہ نگاہ اور مغرض حکمرانوں کے طرز عمل کی خوب نقشہ کشی کی گئی۔
United States
دین اسلام لوگوں کی ذہنی بیداری سے پھیلا ہے اور غزوات میں بھی قیدیوں اور زخمیوں کے ساتھ حسن سلوک کرکے مخلوق کے اذہان کو بیدار کیا گیا۔ کہیں بھی اسلحہ برائے اسلحہ استعمال نہیں ہوا۔
ہر جنگ سے پہلے مخالفین کی ذہنی بیداری کے لئے انہیں اسلام کی دعوت دی جاتی تھی، البتہ مغرب زدہ چوچوں کا یہ چونچلہ بالکل منافقت اور اسلام دشمنی پر مبنی ہے کہ اسلام تلوار کے ساتھ پھیلا ہے۔
ضرورت ہے کہ ان موضوعات کو دین اسلام کے بہترین چہرے کو سامنے لانے کے لئے بیان کیا جائے اور مستشرقین کے چہرے سے نقاب ہٹایا جائے۔
شیطان نے جن کے دلوں میں انڈے دیئے ہیں، ان کا مرض بہت پیچیدہ ہے اور ان کی بری عاقبت کے لئے یہی کافی ہے کہ انہیں نفاق کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں۔
منیر احمد
Canada
جس شخص کے بغض و نفاق کا یہ عالم ہو کہ وہ جہالت اور بے شعوری کی ساری حدود کو کراس کرتے ہوئے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جنگوں کو غیر عاقلانہ کہہ دے اور اپنی جہالت کی بنا پر لارڈ میکالے کے مستشرق ہونے کا اسے پتہ نہ ہو، یہ ذاتیات پر اترا ہوا شخص ہے، ایسے شخص سے بچنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ "إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلاَماً"
یہکوئی اور نہیں حافی صاحب یہ آپ کا جاننے والا ہی ہے۔ عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔
Switzerland
اسلام ٹائمز کے مسئولین اور قارئین سے پیشگی معذرت کے ساتھ ایک اور مرتبہ سوال دہرایا جا رہا ہے کہ محترم نذر حافی صاحب اور عاشقان حافی الفاظ کے ڈنڈے اور لاٹھی لے کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ عقل کا استعمال وہ خود بھی نہیں کرتے۔ سوال گندم جواب چنا کی صورتحال ہے۔ بھیا سوال یہ تھا کہ کس مستشرق نے جھنگوی ایجاد کیا، کس مستشرق نے ملا عمر و اسامہ بن لادن بنایا، کس مستشرق نے تکفیریت ایجاد کی۔ جواب میں بہت سے ناموں کے ساتھ کئی سورما میدان میں آئے، کہا لارڈ میکالے کہا تھیوڈور ہرزل، سوال پھر دہرایا گیا کہ محترم سورما پاکستان یا خطے کی تکفیریت سے چلو ان دونوں ہی کا کوئی تعلق ثابت کر دو۔ لیکن آئیں بائیں شائیں۔ عقل اور اسلحے کو مقابلے پر لائے حافی صاحب اور ان کے عاشق خادم لنگڑے کی طرح سوال کرنے والے کو ہی گستاخ رسول بنانے پر تل گئے۔ پھر ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے بوناپارٹ سے شروع ہوئے، ٹرمپ پینس سے ضیاء تک ادھر ادھر کی ہانکی اور پھر ضیاء کا تھنک ٹینکس کے ذریعے تکفیری ایجاد کرنے کا نیا جھوٹ تراشا۔ سوال اپنی جگہ موجود ہے، بوناپارٹ کے کونسے مستشرق نے تکفیریت ایجاد کی، ٹرمپ، پینس یا ضیاء نے کس مستشرق کے ذرہعے ایجاد کی؟ سوال کا جواب دینے کے علاوہ ہر کام کرلیا ہے، کافر، مشرک، گستاخ، فاسق، فاجر، منافق، غدار، جاسوس، ایجنٹ، سب کچھ قرار دے دیا، لیکن سوال تاحال جواب طلب ہے۔ جید علمائے کرام و محققین جب کوئی علمی کاوش پیش کرتے ہیں تو آخر میں پاسخ شبھات بھی بیان کرتے ہیں لیکن جب کھوکھلے تکے باز جب بے پر کی ہانکتے ہیں تو تحریر چیخ چیخ کر کھوکھلے پن کا اظہار کرتی نظر آتی ہے اور جب ہم جیسے جاہل درخواست کرتے ہیں کہ محترم یہ یہ سقم موجود ہے، بات بن نہیں رہی یعنی شبھات وارد ہوتے ہیں تو بجائے پاسخ شبھات کے باجماعت تبرا شروع ہو جاتا ہے۔ بہرحال ٹھوس نکات ٹھوس شخصیت سے ہی صادر ہوتے ہیں۔
انجمن ستائش باہمی مالیخولیائی کیفیت میں ہے اور اپنے اوہام کو حق الیقین سمجھ بیٹھی ہے۔ الفاتحہ۔۔
ہماری پیشکش