2
Monday 20 May 2019 18:20

سعودی فرمانروا کا مکہ میں ہنگامی اجلاس

سعودی فرمانروا کا مکہ میں ہنگامی اجلاس
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)

جب اخبار الشرق الاوسط خبر شائع کر کے اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ سعودی عرب اور چند دیگر خلیجی عرب ریاستوں نے امریکہ سے دوطرفہ معاہدے کے تحت خلیج فارس اور اپنی سرزمین پر امریکی بری اور بحری فوج کی تعیناتی کی اجازت دے دی ہے تو اس خبر کو سنجیدگی سے لینا چاہئے کیونکہ یقیناً یہ خبر ریاض کے اعلی سطحی حکمرانوں کے حکم پر شائع کی گئی ہے۔ اسی طرح اخبار الشرق الاوسط نے اعلان کیا ہے کہ ماہ مبارک رمضان کے آخر میں مکہ مکرمہ میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے ساتھ ساتھ چند مخصوص عرب ممالک کے سربراہان کا ایک ہنگامی اجلاس بھی منعقد ہو گا جس میں سنی عرب نیٹو اتحاد کی پہلی آفیشل میٹنگ کا افتتاح بھی کیا جائے گا۔ اس کا مقصد ایسی ہر ممکنہ جنگ کیلئے تیار رہنا ہے جو امریکہ اور اسرائیل ایران کے خلاف شروع کر سکتے ہیں۔ شاید اس چھوٹے سے ہنگامی اجلاس میں شرکت کرنے والے عرب حکمران فی الحال واضح نہیں لیکن یہ پیشن گوئی کی جا سکتی ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، اردن اور شاید کویت اور عمان کے حکمران اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔ البتہ مصدقہ رپورٹس کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی اس اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے۔
 
خلیج عمان میں متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ الفجیرہ پر اماراتی اور سعودی تیل بردار جہازوں اور سعودی عرب کے علاقے الشرقیہ میں اس کی آئل پائپ لائن پر دو طاقتور حملوں کے بعد خلیجی عرب ریاستوں کا موقف مبہم ہو گیا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں اعلان کر چکے ہیں کہ وہ جنگ نہیں چاہتے، لہذا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنگ کے حامی کون ہیں؟ تین قسم کی قوتیں خطے میں جنگ کی آگ جلانا چاہتی ہیں۔ ایک امریکی کابینہ میں موجود انتہاپسند سوچ کے حامل افراد جیسے مائیک پمپیو، جان بولٹن اور جیرڈ کشنر۔ دوسرا بعض عرب ممالک جن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں اور تیسری قوت اسرائیل ہے۔ اگر جنگ شروع ہوتی ہے تو یقیناً ایک طرف ایران اور اس کے اتحادی جبکہ دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادی قرار پائیں گے لیکن اس کے خطرات عالمی سطح کے ہوں گے۔ یہ جنگ ایسے خطے میں انجام پائے گی جو دنیا میں تیل کی تجارت اور عالمی اقتصاد کی شاہرگ سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ عالمی اقتصاد بھی تیل اور گیس کی تجارت پر منحصر ہے اور عین ممکن ہے اس جنگ میں تیل کے کنوئیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ کر دیے جائیں لہذا دنیا بھر کی اقتصاد متاثر ہو گی۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران اور اس کے اتحادی امریکہ کی فوجی صلاحیتوں سے بخوبی آگاہ ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت کے خلاف نبرد آزما ہونے جا رہے ہیں لیکن جس چیز کے بارے میں ہم شک و تردید کا شکار ہیں وہ ٹرمپ حکومت کی جانب سے ایران اور اس کے اتحادیوں کی طاقت کا صحیح اندازہ ہے۔ امریکی حکومت کسی بھی ممکنہ جنگ کے نتیجے میں اپنے ملک، اپنے طیارہ بردار بحری بیڑوں، خطے میں اپنے فوجی اڈوں اور مسلح افواج کو پہنچنے والے نقصان سے غافل ہے۔ اسی طرح اس نقصان سے بھی غافل ہے جو اس کی اتحادی عرب حکومتوں، ان کے شہروں، ان کی معیشت اور ان کی عوام کو پہنچے گا۔ کیونکہ یہ تمام موارد ایران کے میزائلوں اور جنگی کشتیوں کی زد میں ہوں گے۔ اس نکتے کی یادآوری بھی بہتر ہے کہ عراق کے صدر صدام حسین نے کویت سے پیچھے ہٹنے کے دوران 800 تیل کے کنووں کو آگ لگا دی تھی جسے بجھانے کیلئے پوری دنیا سے فائر بریگیڈ کی ٹیمیں بھیجی گئیں اور اس کے باوجود اس آگ پر قابو پانے میں ایک سال لگ گیا۔ اب اگر خطے کے تمام تیل اور گیس کے کنوویں اچانک آگ پکڑ لیں تو صورتحال کیا ہو گی؟
 
ڈونلڈ ٹرمپ نے برسراقتدار آتے ہی نئی ڈاکٹرائن کا اعلان کیا تھا اور وہ مدمقابل کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کرنے کیلئے دباو کے تمام ہتھکنڈے بروئے کار لانے پر استوار تھی۔ لیکن اس کی یہ ڈاکٹرائن اب تک شمالی کوریا، وینزویلا اور چین کے مقابلے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے جبکہ ایران اس اعتبار سے چوتھا ملک ہے۔ امریکہ کی ان ناکامیوں کے پیچھے کارفرما حقیقی سبب جسے سمجھنے سے ڈونلڈ ٹرمپ قاصر ہے وہ "قومی عزت اور وقار" کا مسئلہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس مسئلے کو نہیں سمجھ سکتا کیونکہ یہ مفہوم اس کی اور اس کے اتحادیوں کی ڈکشنری میں موجود نہیں ہے۔ لیکن ایران اور زیادہ تر اسلامی ممالک سمیت امریکہ کے تمام دشمنوں کی ثقافتی اور تہذیبی میراث میں یہ مفہوم بہت برجستگی سے پایا جاتا ہے۔ ایران سے جنگ ماضی کی تمام جنگوں سے مختلف ثابت ہو گی کیونکہ ایران عظیم فوجی طاقت کا مالک ہے اور ایسی ممکنہ جنگ کیلئے مکمل طور پر تیار بھی ہے۔ سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ایران اعتقادات کی بنیاد پر اتحادی قوتوں کا مالک ہے جنہیں اس نے پیسوں سے خرید نہیں رکھا۔ یہ وہی اتحادی ہیں جنہوں نے شام میں امریکہ کو شکست فاش سے دوچار کیا ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو کم از کم 150 ارب ڈالر کا خسارہ پہنچایا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مستقبل کی کسی ممکنہ جنگ میں بھی امریکہ کی ناک زمین پر رگڑ دیں گے۔
 
خبر کا کوڈ : 795336
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش