1
0
Tuesday 18 Feb 2020 16:32

شام ترکی تنازع

شام ترکی تنازع
تحریر: ثاقب اکبر

شام اور ترکی کے مابین تنازع اگرچہ گذشتہ تین سال سے جاری ہے، لیکن ان دنوں شدت اختیار کرچکا ہے۔ یہ شدت اس وقت پیدا ہوئی، جب 20 اکتوبر 2019ء کو امریکا نے شامی کردوں کی سرپرستی سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنے ذمے فقط شام کے تیل کے کنوئوں سے لوٹ مار کا کام باقی رکھا۔ تھوڑی بہت اونچ نیچ کے بعد امریکا اور ترکی کے مابین یہ طے پایا کہ امریکا اپنا کام جاری رکھے گا اور ترکی چاہے تو اپنی افواج باقاعدہ شام کے اندر داخل کر لے اور ایک خاص علاقہ اپنی گرفت میں لے کر ترکی میں موجود شامی مہاجرین کو وہاں آباد کرے، نیز شامی کردوں سے بھی خود نبٹے۔ اس کے بعد ترکی نے شام کے اندر اپنی فوجیں داخل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا، جسے شام نے بین الاقوامی قوانین اور اپنی حاکمیت اعلیٰ کی خلاف ورزی نیز جارحیت و مداخلت قرار دیا۔

دوسری طرف ترکی سے ملحق علاقوں اور شہروں سے دہشت گردوں کو نکالنے کے لیے ایک ماہ پہلے شامی فوج نے کارروائی کا آغاز کر دیا۔ یہ کارروائی دو طرف سے شروع کی گئی۔ ایک حلب کے جنوب مغرب کی طرف سے اور دوسری صوبہ ادلب کے جنوب کی طرف سے۔ انتہائی مختصر مدت میں شامی افواج نے جو کامیابیاں حاصل کیں اور جس انداز سے پیش رفت کی، اس نے فوجی ماہرین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ترکی کو ہرگز توقع نہیں تھی کہ جبہۃ النصرہ اور دیگر دہشتگرد گروہوں سے شامی فوج اس تیز رفتاری سے ان علاقوں کو خالی کروا سکے گی۔ خود ترک فوج بھی ان علاقوں میں اپنی پوسٹیں قائم کرچکی ہے۔ ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کی ترسیل بھی ترکی کی طرف سے جاری ہے۔ یہ اسلحہ شامی علاقوں میں موجود ترک فوجیوں کے علاوہ دہشت گردوں کو بھی سپلائی کیا جارہا ہے، تاہم گذشتہ سوموار (17 فروری 2020ء) کو شامی فوجوں نے حلب شہر اور اس کے مضافات کو پوری طرح سے دہشت گردوں سے خالی کروا لیا ہے، شہر میں عوامی جشن کا سماں ہے۔

اس موقع پر شامی صدر بشار الاسد نے ایک خطاب میں عوام اور فوج کی کامیابی اور جرأت و بہادری کے مظاہرے پر انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ انہوں نے حلب کو "شہر مقاومت" یعنی شہر قیام و جہاد قرار دیا ہے۔ شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق شامی صدر نے کہا کہ میں حلب کے شریف لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، ان کے قیام اور مضبوطی سے جمے رہنے پر، انہوں نے کہا کہ حلب کے شریف لوگو! میں تمھارے خدا پر ایمان اور اپنے ملک سے محبت پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ تمھاری شجاعت و ایثار پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ شامی صدر نے کہا کہ آپ نے دشمن کی ناک کو زمین پر رگڑ دیا ہے اور اسے جلد یا بدیر مکمل شکست ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ مخالفین کے شور شرابے کی طرف توجہ کیے بغیر شامی علاقوں کو آزاد کروانے اور دہشتگردوں کو شکست دینے کے لیے جنگ جاری رہے گی۔

ادھر دمشق میں شامی فوج کی مشترکہ کمانڈ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ترکی، شامی سرزمین پر فوجی مداخلت کے ذریعے صوبہ ادلب اور حلب میں دہشت گردوں کے خاتمے میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ترک فوجی رہائشی علاقوں پر وسیع حملے کر رہے ہیں، لیکن ترک فوج کے یہ حملے شامی فوج کو صوبہ ادلب اور حلب کو دہشتگردوں سے پاک کرنے سے باز نہیں رکھ سکتے۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ شام میں ترکی کی مداخلت گذشتہ تین برس سے جاری ہے اور ترکی مختلف دہشت گرد گروہوں کو آزادی کے ہیرو قرار دے کر فوجی مدد فراہم کرتا چلا آرہا ہے۔ وہ شامی کردوں کے خلاف بھی جنگ کے درپے ہے، کیونکہ اس کے بقول ان کا رابطہ ترکی کے اندر موجود ان کردوں سے ہے، جو ترکی سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ ترکی عراق میں بھی فوجی مداخلت کرتا چلا آیا ہے اور عراقی حکومت بھی ترکی کی اس مداخلت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرچکی ہے۔ داعش کے خلاف عراق میں لڑی جانے والی جنگ کے دنوں میں ترکی نے ان علاقوں میں اپنے فوجی دستے ٹینکوں کے ساتھ روانہ کیے تھے۔ اس معرکہ آرائی اور تنازع کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ترکی کیجانب سے شام کے اندر مداخلت کو ناٹو کی مکمل تائید حاصل ہے۔ امریکا کی طرف سے بھی مسلسل اس کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ ترکی جو ناٹو کا رکن ہے، اسے معلوم ہے کہ ناٹو عملی طور پر کچھ نہیں کرے گا۔ اس کا اظہار خود ترک صدر اردغان نے پاکستان سے واپسی پر انقرہ ایئرپورٹ پر صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں بھی کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکیوں کی باتیں بھروسے کے قابل نہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا اور ناٹو کی باتیں توجہ کے بھی لائق نہیں، کیونکہ وہ شام اور ترکی کی جنگ سے ہی خوش ہوسکتے ہیں۔ امریکا یہی چاہتا ہے کہ ترکی نے جو اقتصادی ترقی کی ہے، وہ اسے جنگوں میں جھونک کر تباہ کر لے اور عالم اسلام کے لیے ایک مثال بننے سے محروم رہ جائے۔

تنازع کے حل کے لیے روس بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ گذشتہ دنوں ترکی اور روس کے مابین مذاکرات ہوئے ہیں، اگرچہ بظاہر وہ کسی بریک تھرو تک نہیں پہنچے، تاہم ترک صدر اردغان کے بقول روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ ہونے والی بات چیت مثبت رہی ہے۔ امید کی جانا چاہیئے کہ بات چیت کے دوسرے دور میں کوئی مثبت پیش رفت بھی دکھائی دے گی۔ ترکی کو شامی فوج کی تیز رفتار پیش قدمی کی وجہ سے خاصی تشویش ہے، کیونکہ حلب کے بعد اگر ادلب بھی پوری طرح شامی فوج کے قبضے میں آگیا تو اس کے شام کے اندر مستقبل کے منصوبوں کو ضرور نقصان پہنچے گا۔ علاوہ ازیں ادلب کے علاقے میں ترک فوجی، شامی فوج کے محاصرے میں ہیں، جس کی وجہ سے ترکی میں زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔ اس سے پہلے ایک ترک پوسٹ پر شامی فوج کے حملے کے نتیجے میں متعدد ترک فوجی جاں بحق ہوچکے ہیں۔ شام بھی اس صورت حال کو مذاکرات کی میز پر اپنے فائدے میں استعمال کرنے کی توقع رکھتا ہے۔ ترکی جو دونوں محاذوں پر جنگ بندی پر زور دے رہا ہے، اسے شام مداخلت کاروں اور دہشتگردوں کے مفاد میں سمجھتا ہے۔

اس وقت شامی فوج ایک بالادست پوزیشن میں ہے، مسلسل کامیابیاں اور فتوحات کی وجہ سے اس کے حوصلے خاصے بلند ہیں، جبکہ دہشت گرد اور ان کے ساتھی پے در پے ہزیمت کا شکار ہیں۔ ایسے میں شامی فوج جنگ بندی کے لیے آمادہ نہیں ہوسکتی۔ دمشق سے جاری ہونے والے فوجی کمانڈ کے بیانات سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ پہلو بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ دیر الزور کے علاقے میں عوام امریکا کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ صوبہ دیر الزور ہی میں امریکا شام کے تیل کے کنوئوں سے تیل چوری کرنے میں مصروف ہے۔ دیر الزور کا علاقہ الحسکہ شام میں تیل پیدا کرنے والا اہم علاقہ ہے۔ امریکا کی خواہش یہ ہے کہ شام اور ترکی آپس میں لڑتے رہیں اور وہ چپکے سے علاقے کا تیل چوری کرتا رہے۔ اس علاقے میں امریکا نے اپنے فوجی تعینات کر رکھے ہیں، تاکہ تیل چوری اور ترسیل میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے، لیکن شاید اب یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکے، کیونکہ علاقے کے لوگ شامی فوج کے ساتھ مل رہے ہیں، تاکہ امریکا کے خلاف اقدام کیا جاسکے۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ دن زیادہ دور نہیں، جب شام سے امریکا کو پوری طرح رخصت ہونا پڑے گا اور شاید وہ دن بھی آجائے، جب اسے لوٹے ہوئے مال اور تباہ کاری کا حساب بھی دینا پڑے۔ دہشت گردوں کے فرار کی یہ رفتار کچھ عرصہ قائم رہی تو شامی فوج ترکی کے ساتھ اپنی سرحدوں کی نگہبانی کے لیے خود مامور ہو جائے گی۔ بعض تجزیہ کاروں کی رائے میں صدر اردغان کو چاہیئے کہ وہ جامع مسجد اموی میں نماز پڑھنے کی خواہش دل سے نکال کر استنبول کی خوبصورت تاریخی مسجد میں نماز پڑھ کر اللہ کا شکر ادا کریں۔ ہم تو یہ بھی کہیں گے کہ صدر اردغان علاقے کے دیگر ممالک کی قیادت کے ساتھ مل کر مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کا ارادہ کریں، اللہ تعالیٰ ایسے ارادے میں ضرور برکت دے گا۔ البتہ یہ ارادہ کرنے سے پہلے انہیں اسرائیل سے سفارتی، تجارتی اور عسکری تعلقات منقطع کرنا ہوں گے۔
خبر کا کوڈ : 845310
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
Good
ہماری پیشکش