1
Wednesday 19 Feb 2020 23:20

افغانستان کیلئے امریکہ کا نیا نسخہ

افغانستان کیلئے امریکہ کا نیا نسخہ
تحریر: شہاب شہسواری

امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کی حتمی منظوری سے کچھ دن پہلے افغانستان کے الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان کرتے ہوئے اشرف غنی کو کامیاب امیدوار قرار دے دیا ہے۔ دوسری طرف اشرف غنی کے سیاسی مخالفین نے ان نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ ان نتائج کی منسوخی کیلئے بھرپور کوشش جاری رکھیں گے۔ اعلان شدہ نتائج کے مطابق اشرف غنی کو 923592 ووٹ حاصل ہوئے ہیں جو 50 فیصد سے زیادہ ہیں لہذا انہیں پہلے مرحلے میں ہی کامیاب امیدوار قرار دے دیا گیا ہے۔ اشرف غنی کے مقابلے میں دوسرے صدارتی امیدوار عبداللہ عبداللہ تھے اور انہوں نے پہلے سے ہی اپنی کامیابی کا عندیہ دیتے ہوئے خبردار کر رکھا تھا کہ اشرف غنی کی کامیابی کی صورت میں نتائج قبول نہیں کریں گے۔ اسی طرح انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ اشرف غنی کی کامیابی کی صورت میں وہ ملک میں ایک علیحدہ حکومت تشکیل دے دیں گے۔ اگرچہ عبداللہ عبداللہ کے ترجمان فریدون خزون نے کہا ہے کہ وہ فی الحال علیحدہ حکومت تشکیل دینے کا ارادہ نہیں رکھتے لیکن ساتھ ہی انہوں نے تاکید کی کہ مستقبل قریب میں ایسا انجام پانا ممکن ہے۔

افغانستان کی چیف الیکشن کمشنر حوا نورستانی کی جانب سے صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج کے اعلان کے بعد عبداللہ عبداللہ کی ٹیم کے ایک اعلی سطحی عہدیدار فضل اللہ معنوی نے زور دیا ہے کہ وہ آج کے بعد الیکشن کمیشن نامی ادارے کی قانونی حیثیت کے قائل نہیں رہے۔ اسی طرح عبداللہ عبداللہ کی ٹیم کے افراد نے الیکشن کمیشن کی پریس کانفرنس میں بھی شرکت کرنے سے گریز کیا ہے۔ ایک طرف اشرف غنی کے سیاسی مخالفین کی جانب سے الیکشن کے نتائج مسترد کئے جا چکے ہیں جبکہ دوسری طرف افغانستان کی 32 ملین پر مشتمل کل آبادی کے مقابلے میں اشرف غنی کے ایک ملین سے بھی کم ووٹوں نے ان کے عوامی مینڈیٹ کو متذبذب کر دیا ہے۔ اشرف غنی ملک کی صدارت کا عہدہ سنبھالنے جا رہے ہیں جبکہ مخالفین ان کے انتخاب کو ہی غیر قانونی اور ناجائز قرار دے رہے ہیں۔ ان کے حامیوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔ دوسری طرف ملک کے 50 فیصد سے زیادہ علاقے پر مسلح گروہ طالبان کا قبضہ ہے۔ اسی طرح اشرف غنی کے اتحادی ممالک طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں مصروف ہیں۔ 6 سال پہلے جب امریکہ نے افغانستان میں متنازعہ الیکشن کے بعد ایک قومی حکومت تشکیل دینے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا اور اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کو مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا تھا تو اس وقت دونوں کے مجموعی ووٹوں کی تعداد 8 ملین سے زیادہ تھی۔

لیکن آج اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں کے مجموعی ووٹوں کی تعداد ایک ملین چھ لاکھ کے قریب ہے جو چھ برس پہلے والی تعداد سے پانچ گنا کم ہے۔ لہذا اب دونوں افراد کے درمیان کوئی نیا معاہدہ اور نئی قومی حکومت کی تشکیل بھی ماضی کی طرح عوامی محبوبیت کی حامل نہیں ہو سکتی کیونکہ افغانستان کے کروڑوں افراد کا اس حکومت کی تشکیل میں کوئی کردار ہی نہیں ہے۔ افغانستان میں صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری امن مذاکرات اپنے آخری مرحلے میں ہیں۔ لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ امریکی حکومت فی الحال طالبان کو افغانستان کی نئی حکومت میں شامل کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ افغان سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ فی الحال موجودہ سیاسی سیٹ اپ کو ہی جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے اور طالبان کو حکومت میں شامل کرنے کیلئے کوئی اور راستہ تلاش کرنا چاہتا ہے۔ افغان میڈیا کے مطابق چونکہ امریکہ اور افغانستان کے درمیان معاہدے پر دستخط کی تاریخ قریب آ رہی ہے لہذا واشنگٹن، نیٹو اور اقوام متحدہ عبداللہ عبداللہ کو موجودہ نتائج تسلیم کرنے پر راضی کرنے کی کوشش کریں گے۔

افغانستان کی سیاسی تجزیہ کار برنا صالحی اس بارے میں کہتی ہیں: "عبداللہ عبداللہ کی ٹیم امریکہ اور اقوام متحدہ کے نمائندے کی جانب سے اس بات پر راضی کر لی جائے گی کہ موجودہ نتائج کو تسلیم کر لیں۔" اس تجزیہ کار کے بقول امریکی حکومت نے آئندہ افغان حکومت میں طالبان کو شریک کرنے کی کوششیں ترک کر دی ہیں جبکہ وہ دوحہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے نئی افغان حکومت کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یوں توقع کی جا رہی ہے کہ اگلے دو سے پانچ سال تک طالبان اور افغان حکومت میں معاہدہ تشکیل پانے کے بعد طالبان بھی حکومت میں حصہ حاصل کر سکیں گے۔ دوسری طرف امریکہ ایسے حالاب میں طالبان سے معاہدہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے جب وہ ملک کے آدھے سے زیادہ حصے پر قابض ہیں اور مرکزی حکومت کی قانونی حیثیت کا بھی انکار کرتے ہیں۔ طالبان اب تک کئی بار واضح انداز میں اس بات پر تاکید کر چکے ہیں کہ وہ کسی بھی کٹھ پتلی حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایسی حکومت کو قبول کریں گے جو افغانستان سے مکمل امریکی انخلا کے بعد تشکیل پائے گی اور خودمختار ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 845566
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش