0
Friday 3 Jul 2020 14:48

حضرت امام رضا (ع) نے ولی عہدی کیوں قبول کی؟

حضرت امام رضا (ع) نے ولی عہدی کیوں قبول کی؟
تحریر: سید ذہین نجفی

مقدمہ و تمہید:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرکے بے لگام نہیں چھوڑا بلکہ اس کی رشد و ہداہت کے لیے مکمل انتظام کیا، جو کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں سے ہوتا ہوا حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا اور پھر یہ سلسلہ ہدایت سپرد امامت ہوا۔۔ ختمی مرتبت (ص) نے اپنی زندگی میں ہی اپنے ولی و جانشین امیر المومنین علیہ السلام بلکہ اپنے بارہ جانشینوں کا ذکر کر دیا تھا، جو کہ فریقین کے درمیان مسلم ہے۔۔۔ اب بعد از رحلت ختمی مرتبت (ص) کیا ہوا، وہ الگ معاملہ ہے۔۔۔ مگر۔۔۔ ظاہری خلافت و حقیقی خلافت الہیہ کا سلسلہ بالآخر ایک ساتھ چلتا رہا۔۔ ہم اس مضمون میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ کے بعد ان کے سلسلہ جانشینی کے آٹھویں تاجدار امامت و ولایت حضرت امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے ایک اہم ترین پہلو کو اجاگر کرکے سیرت امام رضا علیہ السلام سے مستفید ہونے کی کوشش کرینگے۔۔۔ عام طور پر اس بارے اپنے، بیگانے سبھی سوال کرتے نظر آتے۔۔ جو کہ بہرحال پوچھنے والے کا حق ہے، اگر سمجھنے کے لیے پوچھے تو۔۔ اور یقیناً اگر ہم اس موقف کو سمجھ لیں گے تو آج کے پرآشوب دور میں ہمیں بہت سے دقیق مواقف کو سمجھنے میں بھرپور مدد ملے گی۔۔۔

امام رضا علیہ السلام کو مدینہ سے بلا کر ولی عہدی کی پیشکش کی، جسے امام نے قبول نہیں کیا، لیکن مامون کے اصرار اور مجبور کرنے کی وجہ سے امام نے چند شرائط کے ساتھ قبول کر لیا۔۔۔۔ مذکور ہے کہ امام رضا نے مدینہ سے بصرہ کی جانب سفر شروع کیا۔(کافی ص 407) امام نے خانہ خدا کو خدا حافظ کیا۔ مامون کے دستور کے مطابق فضل بن سہل کا رشتے دار رجاء بن ضحاک امام علی رضا کو مدینہ سے خراسان لے کر آیا۔(تاریخ یعقوبی ص 465) شیخ مفید نے رجاء بن ضحاک کی بجائے جلودی کا نام ذکر کیا ہے۔ (مفید الارشاد ص 455) مأمون نے ایسے راستے کا انتخاب کیا تھا کہ امام کو شیعہ نشین علاقوں سے نہ گزرنا پڑے، کیونکہ اسے اس بات کا ڈر تھا کہ کہیں شیعہ ان کے ساتھ نہ ہو جائیں، اسی وجہ سے اس نے حکم دیا تھا کہ امام کو کوفہ کے راستے سے نہ لایا جائے بلکہ انہیں بصرے، خوزستان، فارساور نیشاپور کے راستے سے لایا جائے۔(مجموعہ آثار ص 124)

تاریخ شیعہ کے مطابق حضرت امام رضا ؑ کو خراسان لائے جانے کا راستہ یہ تھا: مدینہ، نقره، ہوسجہ، نباج، حفر ابو موسیٰ، بصره، اہواز، بہبہان، اصطخر، ابرقوه، ده شیر (فراشاه)، یزد، خرانق، رباط پشت بام، نیشاپور، قدمگاه، ده سرخ، طوس، سرخس، مرو۔(حیات فکری سیاسی امامان شیعہ ص 95) اس راستے کا مستند ترین اور اہم ترین واقعہ آپ کا حدیث سلسلۃ الذہب کو بیان کرنا ہے۔(از زندگانی امام رضا ص 133) مرو میں امام رضا (ع) مستقر ہونے کے بعد مامون کا ایک قاصد امام رضا (ع) کے پاس آیا اور تجویز دی کہ "میں اپنے آپ کو خلافت سے معزول کرتا ہوں اور خلافت کو آپ کے سپرد کرتا ہوں۔" آپ اس سلسلے میں مجھے اپنی رائے سے آگاہ کریں۔ امام (ع) نے سختی سے اس تجویز کی تردید کی۔ اس کے بعد مامون نے آپ سے درخواست کی کہ اس کی ولیعہدی قبول کریں اور یہ کہ وہ اپنے بعد خلافت آپ کے سپرد کرے! امام (ع) نے پھر بھی سخت مخالفت کی۔ اس کے بعد مامون نے امام (ع) کو اپنے گھر بلوایا، جہاں آپ (ع) اور مامون کے علاوہ فضل بن سہل ذوالریاستین بھی موجود تھا۔ مامون نے کہا میں مسلمانوں کے امور آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں اور یہ ذمہ داری اپنے کندھوں سے اٹھانا چاہتا ہوں اور آپ کے کندھوں پر ڈالنا چاہتا ہوں۔

امام رضا (ع) نے جواب دیا اے مامون تم کو خدا کی قسم دلاتا ہوں، تم کو خدا کی قسم دلاتا ہوں! میں نے یہ ذمہ داری برداشت کرسکتا ہوں اور نہ ہی اس کی قوت رکھتا ہوں۔ مأمون نے کہا: میں اپنے بعد ولیعہدی کا عہدہ آپ کو سونپ دیتا ہوں۔
امام (ع) نے فرمایا: مجھے اس امر سے معاف رکھو۔ پھر دھمکی کے انداز میں امام (ع) سے کہا: عمر بن خطاب نے شوریٰ کو چھ افراد میں قرار دیا، جن میں سے آپ کے جدّ امیر المؤمنین علی بن ابی طالب تھے اور شرط لگائی کہ ان میں سے جو بھی مخالفت کرے، اس کا سر قلم کیا جائے۔ کوئی چارہ نہيں ہے، اس کے سوا کہ آپ میری تجویز قبول کریں، میں اس کے سوا کوئی اور راستہ اپنے سامنے نہيں پاتا۔
امام (ع) نے جواب دیا: پس میں قبول کرتا ہوں بشرطیکہ "نہ فرمان جاری کروں، نہ کسی کو روکوں، نہ حکم جاری کروں اور نہ ہی کوئی فیصلہ کروں، کسی کا تقرر کروں، نہ ہی کسی کو معزول کروں اور نہ ہی کسی کا منصب تبدیل کروں۔" مأمون نے امام (ع) کی شرط قبول کرلی۔(الارشاد 455/456)

اس طرح مامون نے اپنے ولی عہد کے طور پر امام رضا (ع) کے ہاتھ پر بیعت کی اور لوگوں کو سیاہ لباس پہننے کی بجائے سبز لباس پہننے پر آمادہ کیا۔(دائرة المعارف تشیع ص 439/440) اور اطراف و جوار کی طرف بھی احکامات بھجوائے اور امام رضا (ع) کے لیے لوگوں سے بیعت لی گئی اور آپ کے نام پر منبروں پر خطبے پڑھوائے اور دینار و درہم پر آپ کا نام درج کروایا؛ اور کوئی بھی باقی نہ رہا، جس نے سبز لباس نہ پہنا ہو سوائے اسماعیل بن جعفر بن سلیمان بن علی ہاشمی۔(یعقوبی ایضا 465) مأمون نے خطباء اور شعرا کو دعوت دے کر امام رضا (ع) کی ولیعہدی کے سلسلے میں محفل جشن بپا کی۔ اس محفل میں موجود شعراء میں سے ایک دعبل بن علی خزاعی تھے، جنہیں امام رضا (ع) نے انعام سے نوازا۔ (مفید الارشاد ص 458/ 459) مأمون نے عیسی جلودی کو امام رضا (ع) کی بیعت کا فرمان دے کر مکہ روانہ کیا۔ مکہ اس وقت ابراہیم بن موسیٰ بن جعفر کے زیر فرمان آچکا تھا، جو خود لوگوں کو مامون کی طرف دعوت دے رہا تھا اور جب عیسیٰ جلودی "سبز نعرہ" اور امام رضا (ع) کی بیعت کی دعوت لے کر مکہ میں وارد ہوا تو اہراہیم بن موسیٰ بن جعفر نے اس کا خیر مقدم کیا اور اہلیان مکہ نے امام رضا (ع) کی بیعت کی اور سب نے سبز لباس زیب تن کیا۔(یعقوبی ص 466)

عراقِ عرب کی ولایت مامون نے حسن بن سہل کو سونپ دی تھی اور خود مرو میں تعینات رہا۔ علویوں کی ایک جماعت نے خلافت کی لالچ میں عَلَمِ بغاوت بلند کیا اور چونکہ عراقی عوام حسن بن سہل سے ناراض تھے، ایک بڑی جماعت نے علویوں کی بیعت کی اور ان کی اطاعت اختیار کی۔ مأمون نے یہ خبر سنی تو خوفزدہ ہوا اور فضل بن سہل ذو الریاستین سے صلاح مشورہ کیا اور فضل کی تجویز پر امام رضا (ع) کو ولی عہد کے طور پر مقرر کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ شاید اس روش سے سادات اور علویوں کو اطاعت گزاری پر آمادہ کرسکے۔ (لغت نامہ 12109) مسئلہ ولی عہدی امام رضا (ع) کی سیاسی حیات میں ایک اہم مسئلہ ہے۔ امام (ع) کی ولیعہدی کے واقعے کا جائزہ لینے کے لیے تاریخ اسلام، تاریخ خلفائے بنو امیہ نیز بنو عباس کے خلفاء کے بر سر اقتدار آنے کی کیفیت کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔

امام رضا (ع) کی شہادت تک اسلامی خلافت کی سرزمینوں کی عمومی صورت حال کا خلاصہ کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے: اموی حکمران عام طور ظالم اور ستمگر تھے اور خلافت سے ان کا مقصد حکومت کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ صرف عمر بن عبدالعزیز کا رویہ باقی اموی حکمراوں سے کسی حد تک مختلف تھا، جس کا دور حکومت چندان طولانی نہ تھا۔ خلفاء کے ظلم و ستم کی وجہ سے اموی حکومت کے خلاف ہر طرف سے بغاوتوں اور بلؤوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ زیادہ تر بغاوتوں کا رنگ مذہبی اور دینی تھا۔ مسلمین دین اسلام اور دینی احکام کے احیاء کے لیے اسلامی سرزمینوں میں رہنے والے دیگر آسمانی ادیان کے پیروکار عدل و مساوات کے نفاذ کے لیے خاندان علی(ع)، جنہیں "اہل بیت" کہا جاتا تھا، سے امید لگائے بیٹھے تھے۔ عباسیوں نے مسلمانوں کی اس امید کو اپنے مفاد میں استعمال کیا۔ بنو عباس نے ابتدا میں نعرہ لگایا کہ وہ مسلمانوں کو بنو امیہ کے شر سے سے چھڑانے کے لیے آئے ہیں اور انھوں نے اپنی تحریک کئی مراحل میں اہل بیت (ع) کے حق میں تبلیغ اور تشہیر کرکے آگے بڑھائی؛ جس کے نمونے درج ذیل ہیں:

بنو عباس کا علویوں کے حق میں دعوت دینا؛ اہل بیت اور عترت کے حق ميں دعوت دینا؛ آل محمد کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے دعوت عام؛ میراثِ خلافت کا دعویٰ۔(زندگی سیاسی ہشتمین امام ص20) عباسیوں نے جب حیلہ گری اور فریب کاری کے ذریعے حکومت کو اپنے خاندان میں قائم کیا تو انھوں نے اپنے تمام وعدوں اور نویدوں کو پامال کر دیا اور عوام الناس بالخصوص علویوں کے ساتھ بدسلوکی کا آغاز کیا اور ہر بہانے سے انہيں جہاں پایا آزار و اذیت کا نشانہ بنایا، قید کیا یا قتل کیا۔ عباسیوں نے اپنے بنی اعمام یعنی آل ابی طالب (ع) کے ساتھ جو بزدلانہ سلوک روا رکھا، اس کی وجہ سے عوام الناس میں ناراضی کی لہر دوڑ گئی اور اسی رو سے موجودہ نظام کے خلاف بھی بغاوتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ مأمون کے زمانے میں سابقہ عباسی خلفاء سے کہیں زیادہ بلؤوں، بغاوتوں اور تحریکوں کو فروغ ملا۔ مأمون جان گیا کہ مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔

علوی شورشوں کو خاموش کرنا؛ علویوں سے عباسی حکومت کو تسلیم کروانا؛ خاندان علوی سے عوام کی روز افزوں محبت اور معاشرے میں ان کے احترام کا خاتمہ کرنا؛ مسلمانوں کے دلوں سے اس محبت و احترام کی جڑیں اکھاڑ پھینکنا اور اس کے لیے ایسی روشیں بروئے کار لانا کہ علویوں کو خبر ہوئے بغیر انہیں عوام کے اندر بےقدر و قیمت کیا جائے۔ مأمون نے خاص طور پر کہا تھا کہ وہ امام رضا (ع) کو عوامی رائے عامہ میں خلافت کے لیے نااہل بنا پر پیش کرنا چاہتا ہے۔ مأمون کو جب حمید بن مہران اور دوسرے عباسیوں کی طرف سے ملامت کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے کہا: "یہ مرد ہماری آنکھوں سے اوجھل تھا؛ وہ لوگوں کو اپنی جانب بلاتا تھا، اسی بنا پر ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ ہمارا ولیعہد بنے، تاکہ وہ ہر چند لوگوں کو اپنی جانب بلائے، سب کچھ ہمارے حق میں تمام ہو جائے۔"(عیون اخبار الرضا ص309)

امام رضا (ع) مأمون کے ارادوں سے واقف تھے، چنانچہ آپ نے خود مأمون سے کہا: تم چاہتے ہو کہ لوگ کہنا شروع کریں کہ "علی بن موسیٰ دنیا اور اقتدار کی طرف بے رغبت نہیں ہے بلکہ یہ دنیا ہے کہ اس کی طرف رغبت نہيں رکھتی؛ کیا تم نہيں دیکھتے کہ کس طرح اس نے اقتدار کی محبت میں ولیعہدی کا عہدہ قبول کیا ہے!"(عیون اخبار الرضا ص 314/315) جب لوگوں نے امام (ع) سے ولی عہدی قبول کرنے کا سبب پوچھا تو آپ (ع) نے فرمایا: میں نے یہ عہدہ جبر و اکراہ کی بنا پر قبول کیا ہے۔(عیون اخبار الرضا 1373) امام (ع) نے ولیعہدی کا منصب سنبھالنے کے لیے جو شرطیں رکھیں، وہ درحقیقت حکومت میں شرکت سے آپ کی بیزاری کے مترادف ہیں؛ کیونکہ امام (ع) نے فرمایا: میں ہرگز کسی کو کسی منصب پر متعین نہ کروں گا، کسی کو معزول نہ کروں گا، نہ کسی رسم و روایت کو توڑوں گا اور موجودہ حالت میں کوئی تبدیلی نہیں لاؤں گا؛ صرف دور سے حکومت کے معاملے میں مشیر کا کردار ادا کروں گا۔ اس شرط سے معلوم ہوتا ہے کہ امام (ع) نے یہ عہدہ بامر مجبوری قبول کیا تھا۔

ولایت عہدی کی سند کی پشت پر امام (ع) کے تحریر کردہ فقروں کو غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام کو یہ سب کچھ ناپسند تھا اور آپ اس کے ناپسندیدہ انجام سے باخبر تھے۔ چنانچہ بہت تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ بغداد میں عباسیوں نے مامون کے خلاف بغاوت کرکے ابراہیم بن مہدی کے ہاتھ پر بیعت کی؛ مامون کے دھوکے میں آنے والے علوی بھی سمجھ گئے کہ اس نے یہ کام ایمان کی رو سے انجام نہيں دیا تھا اور ایک بار پھر عباسیون کے خلاف تحریک شروع ہوگئی، لہذا مامون کے پاس اس کے سوا کوئی حل نہ رہا کہ امام رضا (ع) کو راستے سے ہٹائے۔۔۔۔(زندگانی سیاسی ہشتمین امام ص 484) امام علیہ السلام نے اپنے دور اندیش فیصلے ظاہری طور پر (ولی عہدی) کو قبول کرکے حقیقی دشمنان اسلام کے چہرے کو عیاں کیا۔۔ جو دھوکے کے لباس میں دین کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے بر سرپیکار تھے۔۔۔ جنکا مقدس وجود کل تک ساری انسانیت کے لیے باعث ہدایت تھا، آج انکے مزارات کائنات عالم میں بسنے والے ہر انسان کے لیے رشد و ہدایت کا مرکز ہیں۔۔ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اپنے نور کو تمام کرنا چاہتا۔۔

نتیجہ:
امام رضا علیہ السلام کے اقدام سے دو اہم پہلو ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔۔۔
1۔ حقیقی نمائندگان الہیٰ کی سیرت طیبہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ باطل چاہے ظاہری طور پر لبادہ حق پہن کر ہی کیوں نہ سامنے آئے، مگر کبھی اس کے ساتھ کسی طرح کا تعاون کرکے باطل پرست نہ بنا جائے، چاہے اس کے لیے آپ کو ظاہری منصب و شہرت کیساتھ بادشاہت ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے۔
2۔ کبھی بھی باطل کے لیے اپنے آپکو پیش نہ کریں، ایسا کوئی اقدام نہ کیا جائے، جس کی وجہ سے باطل آپکا سہارا لیکر وقتی آپ پے نوازشات کرکے اپنے مذموم مقاصد تک پہنچے۔۔ آسان الفاظ میں باطل کے لیے اپنا کندھا پیش نہ کریں، استعمال نہ ہوں اور نہ ہی کسی بھی طرح سے باطل کے مدد گار بنیں۔۔ امام علیہ السلام کو ولی عہدی دینا سراسر بدنیتی پر مشتمل تھا، جیسا کہ آپ نے اوپر ملاحظہ کیا۔۔۔ مگر باوجود اس کے امام رضا علیہ السلام نے کمال حکمت سے اس کے ناپاک عزائم کو بے نقاب کیا۔۔ یہی فرق ہے ایک عام انسان یا خود ساختہ خلیفہ میں اور حقیقی نمائندہ الہیٰ ہونے میں۔ جو دنیا کے لیے اپنا سب کچھ حتیٰ دین تک کو بیچ دے وہ نمائندہ شیطان ہے اور جو دنیا کی بادشاہت تک کو بھی ٹھکرا کر آخرت کا سودہ نہ کرے، اسے حقیقی نمائندہ الہیٰ کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منابع:
 (کلینی الکافی1365، ج2، ص407)
(تاریخ یعقوبی، ج2، ص465 احمد بن ابو یعقوب موسسہ الاعلمی للمطبوعات بیروت)
(مفید، الارشاد قم 1428ق، ص455)
مطہری، مرتضیٰ، مجموعہ آثار، ج 18، تہران: قم: صدرا، 1381۔
جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم: انصاریان، 1376۔
فضل اللہ، محمد جواد، تحلیلی از زندگانی امام رضاؑ، ترجمہ محمد صادق عارف، مشہد، آستان قدس رضوی، 1377
(ایضا مفید الارشاد ص455/ 456)
(دائرۃ المعارف تشیع، ج1، تہران: بنیاد اسلامی، 1366)
(یعقوبی، ایضاً احمد بن ابو یعقوب، ص465 موسسہ الاعلمی)
(ایضاً مفید الارشاد (458/ 459)
(یعقوبی احمد بن ابو یعقوب، ص466 موسسہ الاعلمی)
(دهخدا لغت نامہ ج8، 1377، ص12109 مدخل رضا)
(سید جعفر مرتضیٰ حسینی عاملی زندگی سیاسی ہشتمین امام 1381، ص20)
(عیون اخبار الرضا ترجمہ علی اکبر غفاری، ج2، نشر تہران 1373)
 (ایضاً عیون اخبار الرضا ایضاً 1373، ج2)
(ایضاً عیون اخبار الرضا)
(زندگانی سیاسی ہشتمین امام، تالیف جعفر مرتضیٰ حسینی عاملی، ترجمہ سیف خلیل خلیلیان تہران دفتر نشر فرہنگ اسلامی، 1381)
خبر کا کوڈ : 872266
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش