1
0
Tuesday 26 Jul 2011 12:28

تبدیلیوں کے کھیل میں شام کے خلاف سازشیں

تبدیلیوں کے کھیل میں شام کے خلاف سازشیں
تحریر:طاہر یاسین طاہر
امریکہ نواز عرب حکمرانوں سے جان چھڑانے کیلئے عوامی بیداری کی تحریک نے طویل عرصے سے عرب دنیا پر مسلط بادشاہتوں کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ پریشانی تمام جابروں کے لیے ایک دوسرے کا سہارا بننے کا باعث بھی بنی ہے۔ عرب عوام کون سی تبدیلی چاہتے ہیں اور ان کا مطمح نظر کیا ہے؟ ایک واضح امر ہے۔ عرب عوام چاہتے ہیں کہ ان کے ممالک میں ایسی حکومتوں کا قیام عمل میں آئے جو جمہوری رویوں کی حامل ہوں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تیل کے وسائل اور ان سے حاصل شدہ آمدنی ان کی مفلوک الحال زندگیوں میں آسانی پیدا کرنے کیلئے خرچ کی جائے۔ یاد رہے کہ تیل کی آمدن صرف عرب بادشاہتوں کے مفادات کیلئے خرچ کی جاتی ہے۔ عوام اب یکسر تبدیلی کیلئے کمربستہ ہو چکے ہیں۔ ہم بھی عوامی بیداری کی اس مہم کی حمایت کرتے ہیں، مگر یہاں اس امر کا اظہار ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ عوامی بیداری کی لہر نے جنم لے لیا تو اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہوتا کہ عرب عوام پہلے بادشاہوں کی فریب کاریوں سے آگاہ نہیں تھے اور اب انہیں اس کاشعور ہوا ہے۔ عرب عوام ایک عرصے سے اپنے بادشاہوں کی امریکہ و اسرائیل سے محبت کی بڑھتی ہوئی پینگیں دیکھ رہے تھے، مگر تحریکیں منظم ہونے میں قدرے وقت درکار ہوتا ہے۔ ہمیں یہ ماننے میں بھی تامل نہیں کہ مصر اور لبنان کے علاوہ عربوں میں ابھی تک ایسی کوئی تحریک منظم نہیں ہوسکی، جو عرب بادشاہتوں اور آمروں کی اسرائیل نوازی کو چیلنج کرسکے۔ 
گزشتہ چند ماہ میں ہم نے تیونس، مصر، یمن، بحرین، شام اور عمان میں مظاہروں کا سلسلہ دیکھا جو تاحال کئی ممالک میں بدستور جاری ہے۔ عوام بپھرے ہوئے سمندر کی طرح سڑکوں پر نکل رہے ہیں اور خود کو محفوظ ترین سمجھنے والے عرب بادشاہ بھی اپنے اہل خانہ سمیت اس عوامی تحریک سے خوفزدہ ہیں۔ اسی خوف کے باعث بعض طاقتور عرب ممالک اپنے سیاسی مخالفین کو قابل گردن زدنی قراد دینے کیلئے دہشتگردی کیخلاف قانون کا مسودہ بھی تیار کر چکے ہیں۔ افریقی پٹی سے سعودی عرب اور بحرین سے کویت تک ایک سلسلہ اضطراب ہے، جس نے عوام و خواص کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
کم و بیش 30 سال تک امریکی آنکھ کاتارا، علی زین العابدین اپنے بدترین انجام کو جاپہنچا، اگرچہ عرب بادشاہوں نے اسے مہمان بنایا، مگر پھر بھی اسے ہزیمت سے نہ بچا سکے۔ علی زین العابدین عربوں کے اندر پیدا ہونے والی عوامی بیداری کی اس لہر کا براہ راست اور پہلا نشانہ بنا۔ فرعون مصر، حسنی مبارک کو اپنا انجام قریب نظر آنے لگا اور وہ امریکہ اور خطے میں اس کے حواریوں کی جانب دیکھنے لگا۔ مگر ناکام ہوا، کوئی اس کی مدد کو نہ آیا، اگرچہ بادشاہوں نے اس کے نام ہمدردی کے پیغام ضرور ارسال کیے۔ اسرائیل کی حمایت مصری صدر کے ماتھے پر غداری کا بدنما داغ ثابت ہوئی۔ مسلم امہ سے غداری، بیت القدس سے غداری، مظلوم فلسطینیوں سے غداری۔ 2008 ء میں اسی حسنی مبارک نے اسرائیل فلسطین جنگ میں غزہ سے ملنے والی مصری سرحد بند کر کے فلسطینیوں کے قتل عام میں امریکی بغل بچے کی ہمنوائی کی اور اسرائیل کو وہ تمام تر سہولتیں دیں، جن کے باعث اس نے فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ حسنی مبارک بھی بدترین انجام سے دوچار ہوا۔
یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری تیونس سے مصر اور یمن سے بحرین تک تبدیلی کی اس لہر کو روکنے کیلئے اپنے تمام تر وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ مگر ساتھ ہی وہ عوامی بیداری کی اس لہر کو من پسند موڑ بھی دینا چاہتے ہیں۔ ان کا ٹارگٹ ایران و شام ہیں، 2005ء میں اس منصوبے پر انہوں نے کام شروع کیا اس کریہ منصوبے کی جزئیات و کلیات سامنے آچکی ہیں۔ ایران میں ان کا یہ منصوبہ ناکام ہوا۔ ایران میں 2010ء کے صدراتی انتخابات کے دوران میں امریکہ و برطانیہ نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے خانہ جنگی کرانے کی کوشش کی۔ جبکہ شام کے خلاف اس بین الاقوامی سازش میں شنید ہے کہ ایک ”مقدس“ عرب ملک نے سرمایہ کاری کی جبکہ اردن اور یورپی ممالک نے دیگر سہولتوں کا انتظام کیا۔ امریکہ اپنی حیثیت کے مطابق اس منصوبے کا منتظم ٹھہرا۔ ہم منظر سے ذرا پس منظر کی جانب تھوڑا سا سفر کریں تو معاملات کی ”گتھیاں“ سلجھتی چلی جائیں گی۔ ایران کے حوالے سے امریکی رویہ سمجھ میں آنے والی بات ہے مگر شام کا قصور کیا ہے؟ آئیے ایک مختصر نظر اس معاملے پر بھی ڈالتے ہیں۔
 شام کم و بیش دو کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل ایک ایسا عرب ملک ہے جس نے ہمیشہ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت و مدد کی۔ عرب اسرائیل جنگ میں شام ہی لبنان کی حفاظت کیلئے میدان میں آیا، اور لبنانی حکومت کی درخواست پر بیروت میں شامی فوج تعینات کر کے اسرائیلی خطرے کو کم کیا۔ امریکہ کو بھلا یہ کیسے گوارا تھا کہ اسرائیل کا راستہ روک دیا جائے۔ چنانچہ عالمی سازشی عناصر نے سر جوڑے اور 2005ء میں لبنان میں رفیق حریری کو ایک منظم سازش کے تحت قتل کرکے اس کا الزام شام پر ڈال دیا گیا۔ جس کے باعث شامی فوج بیروت سے نکلنے پرمجبور ہوئی۔ اسرائیل امریکہ کی پشت پناہی سے بڑے بڑے پھنے خان عرب ملکوں کو خاطر میں نہیں لاتا، چنانچہ کمزور لبنان اس کے سامنے کیا تھا؟ اس نے لبنان پر چڑھائی کر دی اور بربریت کی نئی تاریخ رقم کی۔ حزب اللہ نے اسے شکست دے کر اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا کہ عرب اسرائیل کو شکست دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ لاریب، اگر جذبے صادق ہوں تو صلاحیت کام آتی ہے۔ رفیق حریری قتل کی سازش کا پول حزب اللہ کے اللہ والے کھول چکے ہیں۔ 
شام کے صدر بشارالاسد کم وبیش گزشتہ ایک عشرے سے شام کے حکمران ہیں۔ شام میں منتخب پارلیمان وجود رکھتی ہے۔ مگر ہم سمجھتے ہیں کہ دیگر عرب بادشاہتوں کی طرح یہاں انسانی آزادیوں پر اتنی قدغن نہیں، پھر شام کا اصل قصور کیا ہے کہ امریکہ و اسرائیل اور اس کے حواری شام میں عوامی تحریک کو پرتشدد تحریک میں بدلنے پر تلے ہوئے ہیں۔ شامی حکومت کا ایک جرم تو یہ ہے کہ وہ امریکہ و اسرائیل کو برائی کی جڑ سمجھتی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ فلسطینیوں کی حمایت کے جرم میں عرب ممالک نے شام کا اقتصادی بائیکاٹ کیا اور یورپی یونین نے اس پر پابندیاں عائد کیں۔
عالمی برادری نے شام کو برائی کا محور بھی قرار دیا۔ اب امریکہ و اسرائیل اور اس کے مقدس حواری کردوں اور سلفی دہشتگردوں کے ذریعے شام کا امن تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ مگر شام فلسطینیوں کی حمایت کے اپنے اصولی موقف سے باز نہیں آتا۔ بقول حماس کے سربراہ خالد مشعل ”ایک وقت ایسا آیا جب تمام عرب حکمران فلسطینیوں کے قتل عام میں شریک تھے اور کوئی ملک فلسطینیوں کو پناہ دینے یا ان کی حمایت کرنے کیلئے تیار نہ تھا۔ عرب حکمران یا تو اسرائیل سے معاہدہ کر چکے تھے یا اس کے ہمنوا بن چکے تھے۔ فقط شام تھا کہ جس نے اپنے بازو فلسطینی بھائیوں کیلئے واکیے۔ یوں بجا طور پر شام کو فلسطینی تحریکوں کا دوسرا گھر کہا جا سکتا ہے“۔
خطے میں شام کو کمزور کرنے کیلئے پوری دنیا کے اسرائیل نواز اکٹھ کر چکے ہیں اور ہم دیکھ رہے کہ ہیں کہ شامی عوام اس بین الاقوامی سازش کا بھی ادراک رکھتے ہیں۔ اس لیے اگر ایک دن حکومت مخالف مظاہرہ ہوتا ہے تو اگلے دن شامی عوام اس سے بڑھ کر صدر کی حمایت میں بھی مظاہرہ کر کے استعمار کا منہ چڑانے لگتے ہیں۔ گولان کی چوٹیاں آج بھی گواہی دے رہی ہیں کہ اگر خطے میں شام کمزور ہو گیا تو پھر اسرائیل مزید مستحکم و مضبوط ہو جائے گا۔ امریکی خواہش ہے کہ وہ حکومت مخالف مظاہروں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر کے شام کے اندر بھی اپنی ہمنوا حکومت قائم کرے، ایسی حکومت جو اسرائیل کا سہارا بنے۔ اس مقصد کیلئے ہمیشہ کی طرح امریکہ اور اس کے حواری مذہبی انتہا پسندوں سے استفادہ کر رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 87381
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
jazakallah
ہماری پیشکش