2
Thursday 30 Jul 2020 19:00

امام حسین علیہ السلام سے منسوب دعائے عرفہ کا مختصر تعارف

امام حسین علیہ السلام سے منسوب دعائے عرفہ کا مختصر تعارف
تحریر: آیت اللہ جوادی آملی

دعائے عرفہ امام حسین علیہ السلام سے منقول دعاوں میں سے ایک ہے، جس میں معرفت الہیٰ سے متعلق انتہائی گرانبہا اور گہرے مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ دعا کے آغاز میں خداوند متعال کے حضور دعا اور راز و نیاز کرنے کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔ خداوند متعال سے اپنی حاجات طلب کرنے سے پہلے اس کی حمد و ثناء کو مستحب قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح خداوند متعال کو اس کی صفات جمالیہ اور جلالیہ کے ذریعے پکارا گیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے دعا کے آغاز میں چند اہم نکات بیان کئے ہیں: تمام عالم وجود اور عالم ہستی فعل الہیٰ ہے، عالم ہستی کا حاکم مطلق خداوند متعال ہے، خداوند متعال کی حکومت بعض اوقات قضا کی صورت میں اور بعض اوقات عطاء کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، خداوند متعال کی طاقت نامحدود ہے اور کوئی موجود اس کی قضا اور عطا میں رکاوٹ پیدا نہیں کرسکتا۔

امام حسین علیہ السلام اپنی اس دعا میں فرماتے ہیں: "لَمْ تُخْرِجْنِی لِرَأْفَتِکَ بِی وَ لُطْفِکَ لِی [بِی] وَ إِحْسَانِکَ إِلَیَّ فِی دَوْلَةِ أَئِمَّةِ الْکُفْرِ الَّذِینَ نَقَضُوا عَهْدَکَ وَ کَذَّبُوا رُسُلَکَ لَکِنَّکَ أَخْرَجْتَنِی [رَأْفَةً مِنْکَ وَ تَحَنُّنا عَلَیَّ] لِلَّذِی سَبَقَ لِی مِنَ الْهُدَی الَّذِی لَهُ یَسَّرْتَنِی وَ فِیهِ أَنْشَأْتَنِی۔۔۔" ترجمہ: "(اے خدا) مجھ پر محبت اور مہربانی کی خاطر مجھے ایسے کافر حکمرانوں کی حکومت میں پیدا نہیں کیا، جو تیرے وعدے کی خلاف ورزی کرتے اور تیرے انبیاء کی تکذیب کرتے تھے۔ تو نے مجھ سے محبت کرنے اور مجھ پر احسان کرنے کی خاطر مجھے ایسے زمانے میں پیدا کیا، جب تیری ہدایت آچکی تھی اور مجھے وہ ہدایت قبول کرنے کی آسانی عطا کی اور اس میں میری نشوونما فرمائی۔۔۔"

امام حسین علیہ السلام کے یہ جملے درحقیقت ایک الہیٰ نظام حکومت کا شکرانہ اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھنا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں نبوت، رسالت، ولایت، امامت، ہدایت اور ایمان کو عظیم جانا گیا ہے اور اسے خدا کی جانب سے اپنے بندوں پر احسان قرار دیا گیا ہے۔ امام حسین علیہ السلام بھی اسے اپنے اوپر احسان جان کر اس کا شکر ادا کر رہے ہیں۔ لہذا سیرت معصوم علیہ السلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی نظام حکومت میں پیدا ہونا اور زندگی بسر کرنا بہت بڑی نعمت ہے، جس پر خداوند متعال کا شکر ادا کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام بت پرستی کا زمانہ ختم ہونے پر بھی خداوند متعال کا شکر ادا کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "فَقُطِعَ دابِرُ الْقَوْمِ الَّذِینَ ظَلَمُوا وَ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعالَمِینَ" ترجمہ: "پس ظلم و ستم کرنے والی قوم کو نابود فرما دیا اور ساری تعریفیں رب دو جہان کیلئے ہیں۔"

امام حسین علیہ السلام دعائے عرفہ میں فرماتے ہیں: "اَللَّهُمَّ اجْعَلْ غِنَایَ فِی نَفْسِی" یعنی "اے خدایا میرے اندر بے نیازی پیدا فرما۔" امام حسین علیہ السلام خداوند متعال کو بے نیاز مطلق اور خدا کے علاوہ تمام موجودات کو محتاج مطلق قرار دیتے ہوئے قرآن کریم کی آیات کی بنیاد پر انسانوں کو تین قسم کے گروہوں میں تقسیم فرماتے ہیں: ایک وہ جو فقیر ہیں اور ان کے پاس مال دنیا نہیں ہے۔ دوسرے ایسے افراد جو مال دنیا رکھتے ہیں، لیکن بخیل ہونے کے باعث ہمیشہ خود کو محتاج پاتے ہیں۔ تیسرا گروہ ایسے انسانوں پر مشتمل ہے، جو ہر چیز سے بے نیاز ہیں۔ امام حسین علیہ السلام تیسرے گروہ کو پسندیدہ قرار دیتے ہیں اور انہیں بے نیاز ہونے میں خدا کی نشانی قرار دیتے ہیں۔ یہ بے نیازی انسان کو مشکلات سے بھی دور رکھتی ہے اور اسے گناہ سے بھی بچاتی ہے۔

امام حسین علیہ السلام اپنی دعا میں فرماتے ہیں: "یَا مَنْ خَصَّ نَفْسَهُ بِالشُّمُوخِ وَ الرِّفْعَةِ فَأَوْلِیَاوءُهُ بِعِزِّهِ یَتَعَزَّزُونَ وَ یَا مَنْ وَضَعَتْ لَهُ الْمُلُوکُ نِیرَ الْمَذَلَّةِ عَلَی أَعْنَاقِهِمْ فَهُمْ مِنْ سَطَوَاتِهِ خَائِفُونَ۔۔" ترجمہ: "اے وہ ہستی جس نے رفعت اور برتری اپنی ذات سے مخصوص کر دی ہے، پس اس کے اولیاء اسی کی عزت سے عزیز ہوتے ہیں اور اے وہ ہستی جس کے آگے سلاطین ذلیل ہو کر گردن جھکا دیتے ہیں اور اس کی پکڑ سے خوفزدہ ہیں۔" ان جملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عزت کا حقیقی مالک خداوند متعال ہے اور صرف وہی باعزت ہیں، جنہیں خدا عزت عطا کرتا ہے۔ لہذا انبیاء علیہم السلام، ائمہ معصومین علیہم السلام اور اولیاء الہیٰ کی عزت اور طاقت درحقیقت خدا کی ہی عطا کردہ ہے۔ خدا حقیقی معنوں میں عزیز ہے اور خدا کے علاوہ ہر صاحب عزت بذات خود اس کا ملک نہیں بلکہ خدا نے اسے عزت عطا کی ہے۔

دعا درحقیقت خدا کے حضور دعوت ہے۔ جس طرح ہر دعوت کے مخصوص آداب اور شرائط ہوتی ہیں، اسی طرح خدا کی دعوت میں شریک ہونے کے بھی مخصوص آداب اور شرائط ہیں۔ ایک شرط باطنی پاکیزگی ہے۔ لہذا حاجی مسجد الحرام میں داخل ہونے سے پہلے عرفات کے صحرا میں خود کو پاکیزہ کرتا ہے۔ خدا کے ساتھ راز و نیاز کرتا ہے، تاکہ اپنے اندر خدا کے گھر میں داخل ہونے کی قابلیت پیدا کرسکے۔ اس کے بعد صحرائے مشعر میں داخل ہوتا ہے اور دنیا کے ساتھ اپنا تعلق ختم کر دیتا ہے۔ اس کے بعد منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارتا ہے، جو درحقیقت اپنے اندر کے شیطان اور نفسانی خواہشات کو کنکریاں مارنے کی جانب اشارہ ہے۔ شیطان کو خود سے دور کرنے کے بعد اپنے سر کے بال منڈوا کر ظاہری خوبصورتی کو بھی قربان کر دیتا ہے۔ اس کے بعد خانہ خدا کا رخ کرکے حج کے باقی افعال انجام دیتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 877534
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش