1
Friday 18 Sep 2020 18:48

اسرائیل سے دوستانہ تعلقات، فائدہ یا نقصان

اسرائیل سے دوستانہ تعلقات، فائدہ یا نقصان
تحریر: محسن طاہری

15 ستمبر منگل کے روز وائٹ ہاوس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی موجودگی میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے۔ اس تقریب میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے وزرائے خارجہ بھی شریک تھے۔ اس معاہدے کی رو سے متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی قائم کرنے ہیں اور یوں ابوظہبی اور منامہ میں اسرائیلی سفارت خانے کھول دیے جائیں گے۔ گذشتہ طویل عرصے سے بعض عرب ممالک اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ خفیہ طور پر دوستانہ تعلقات استوار کئے ہوئے ہیں اور اب متحدہ عرب امارات اور بحرین نے ان تعلقات کو فاش کر کے مسئلہ فلسطین کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔
 
عرب دنیا میں ایک مخصوص حکمران ٹولہ ابتدا سے ہی فلسطین کاز اور مظلوم فلسطینی قوم کے مسلہ حقوق کے خلاف امریکہ اور غاصب صہیونی رژیم سے تعاون کرتا آیا ہے۔ یہ امت مسلمہ کے اندر غدار ٹولہ ہے جو ابھی کھل کر سامنے آنا شروع ہو گیا ہے اور ایک ایک کر اپنا اصلی چہرہ عیاں کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل سے اعلانیہ تعلقات استوار کئے جانے کے خلاف اسلامی دنیا میں مختلف ممالک، گروہوں اور سیاسی دھڑوں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس معاہدے کا اصلی فائدہ کسے پہنچ رہا ہے اور حقیقی فاتح کون ہے؟ اگر ہم مذکورہ بالا معاہدے کے حامیوں اور مخالفین کے نقطہ ہائے نظر سے ہٹ کر صرف ماضی کا جائزہ لیں تب بھی واضح ہے کہ ہمیشہ اسرائیل نے فائدہ حاصل کیا ہے۔
 
اب تک عرب حکمرانوں اور اسرائیل کے درمیان جتنے بھی معاہدے طے پائے ہیں ان کا سو فیصد فائدہ اسرائیل کو حاصل ہوا ہے جبکہ معاہدے میں درج ہونے کے باوجود عرب ممالک کو ان کے حقوق فراہم نہیں کئے گئے۔ حالیہ معاہدے میں بھی تل ابیب اور بنجمن نیتن یاہو نے بہت بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے عرب حکمرانوں کو دھمکی دے رکھی تھی کہ وہ مغربی کنارے کو بھی مقبوضہ فلسطین کے ساتھ ملحق کر دے گا۔ اسرائیلی وزیراعظم نے صرف اپنی اس دھمکی کو ملتوی کر کے عرب حکمرانوں سے بہت زیادہ مراعات حاصل کر لی ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر تیار کر کے بنجمن نیتن یاہو نے ملک کے اندر اپنی گرتی ہوئی محبوبیت اور ساکھ بحال کرنے کیلئے موثر اقدام انجام دیا ہے۔
 
دوسری طرف امریکی حکمران اربوں ڈالر کے اخراجات کے باوجود مشرق وسطی میں مطلوبہ سیاسی اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کا شکار ہو چکے تَھے۔ لیکن اب متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد امریکی حکمرانوں کے دل میں ایک بار پھر گریٹر مڈل ایسٹ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی امید زندہ ہو گئی ہے۔ گریٹر مڈل ایسٹ منصوبہ خطے کے بڑے ممالک کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اسرائیل کو خطے کی واحد بڑی طاقت بنانا ہے۔ یہ منصوبہ جرج بش جونیئر کے دور میں منظرعام پر لایا گیا تھا۔ امریکہ اور اسرائیل عرب حکمرانوں کے ساتھ حالیہ امن معاہدے کے ذریعے بے پناہ فائدے حاصل کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس معاہدے کا متحدہ عرب امارات اور بحرین کو کیا فائدہ حاصل ہو گا؟
 
عرب ممالک کے امریکہ سے خوف کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھی یہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اسلامی دنیا پر برطانوی اور فرانسیسی استعمار کا نتیجہ ہیں۔ عرب حکمران عوامی محبوبیت اور حمایت سے عاری ہیں لہذا وہ اپنی حکومت برقرار رکھنے کیلئے بیرونی قوتوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عرب حکمران امریکہ کی اطاعت میں حتی اپنی عوام کے مفادات اور مطالبات سے بھی چشم پوشی اختیار کر جاتے ہیں۔ دوسری طرف امریکہ بھی عرب حکمرانوں کی اس کمزوری سے بخوبی واقف ہے اور اسی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر وقتا فوقتا انہیں دوہتا رہتا ہے۔ بحرین عرب لیگ کا سب سے چھوٹا رکن ملک ہے جس کی وجہ سے اسے اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے سعودی عرب جیسے بڑے ممالک کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔
 
متحدہ عرب امارات نے ہمیشہ سے خلیج فارس کی جنوبی عرب ریاستوں کے درمیان اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی تگ و دو کی ہے۔ بعض اوقات تو اس نے خود کو سعودی عرب کے مقابلے میں لا کھڑا کیا ہے۔ یمن کے خلاف جارحیت میں متحدہ عرب امارات کی شرکت اسی بنیاد پر قابل فہم ہے۔ اب اماراتی حکمران اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کر کے خطے میں طاقت بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ ان کی بہت بڑی غلط فہمی ثابت ہو گی کیونکہ عرب اقوام بلا استثنا مظلوم فلسطینی قوم کی نسبت دل میں نرم گوشہ رکھتی ہیں اور جو عرب حکمران بھی غاصب صہیونی رژیم سے فلسطین کاز پر سودے بازی کا مرتکب ہو گا وہ عرب عوام کے دل میں اپنی محبوبیت اور اہمیت کھو بیٹھے گا۔
خبر کا کوڈ : 887012
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش