1
6
Sunday 27 Sep 2020 18:35

دینی مقدسات کے غلاف میں پوشیدہ غیر مقدس کھیل بے نقاب

دینی مقدسات کے غلاف میں پوشیدہ غیر مقدس کھیل بے نقاب
تحریر: محمد سلمان مہدی

مقدسات کے مقدس غلاف میں کھیلے جانے والے غیر مقدس نجدی و ناصبی و غالی زایونسٹ کھیل سے ہر درد مند انسان اور خاص طور پر مسلمان یقیناً رنجیدہ ہوں گے۔ لیکن اس صورتحال کو ایک اور زاویئے سے دیکھیں تو یہ ساری صورتحال انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے مقامی مہروں کے ناکام خودکش حملے سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس لیے میری ہنسی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ بات ہی کچھ ایسی ہے۔ اس کھیل پر غور فرمایئے۔ ہوا یوں کہ پاکستان میں غالی و ناصبی اور نجدی ٹولوں کو ان کے مشترکہ آقا کے مقامی نمائندگان نے ایک مشن سونپا۔ رضا خانی مسلک کا ایک مولوی، حضرت ابو طالب ؑ سے متعلق توہین آمیز تکفیری تہمت دہرانے سے شروع ہوا اور بالآخر اس نے جناب سیدہ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا بنت رسول اللہﷺ کی شان اقدس کے خلاف توہین آمیز کلمات کہے۔ یہ ہر مسلمان کے لیے ناقابل قبول بات تھی اور نتیجہ یہ نکلا کہ محض شیعہ علماء نہیں بلکہ بزرگ اہل سنت علماء و مشائخ نے تو خود جا کر یا بذریعہ نمائندگان اسے غیر مشروط معافی اور اعلانیہ توبہ کرنے کی تاکید کی، مگر گھمنڈی نہیں مانا۔ اس نے چند غالیوں کے وڈیو کلپس بھی شیئر کرکے ان پر تبصرہ کیا۔ جہاں تک بات ہے ان غالیوں کی تو ہر اثناء عشری یعنی بارہ امامی شیعہ مومن مسلمان غالیوں سے بے زار ہے۔ لیکن مولوی اشرف جلالی رضا خانی بریلوی کا ہدف غالی نہیں تھے، چیک کر لیں،  تحریک لبیک کا یہ مولوی اشرف آصف جلالی یوٹیوب اور ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اپنا موقف پیش کرتا رہا اور اس کے اپنے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جو موقف ہے، اس سے محققین کو پتہ چل گیا کہ اس کا اصل ہدف ولایت فقیہ، شیعہ اسلامی مرجعیت اور ایران کے خلاف ماحول سازی تھا۔ حالانکہ ولایت فقیہ و شیعہ اسلامی مرجعیت خود غالیوں اور ناصبیوں دونوں کے خلاف اپنا موقف واضح کرچکے ہیں۔

ایسا نہیں کہ جلالی اس مشن پر مامور اکیلا مہرہ تھا۔ یہ پورا ایک منظم کھیل تھا اور کئی مولوی حضرات اس پر مامور تھے، جو تاحال مامور ہیں۔ یہ مولوی حضرات اپنے اپنے فرقے و مسلک کے مدارس سے باقاعدہ تعلیم یافتہ اور نامور علماء ہیں۔ اس لیے زیادہ توجہ سنیوں کو دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ بارہ امامی شیعوں میں غالیوں اور ناصبی و نجدی و رضا خانی تکفیریوں کے مشترکہ آقاؤں کو ایک بھی عالم دین دستیاب نہیں ہے۔ یہی وجہ بنی کہ جاہل غالی ٹولے کی لاٹری نکل آئی۔ البتہ اس ٹولے کی سرپرستی جلالی کے منظر عام پر آنے سے بہت پہلے سے ہو رہی تھی۔ ایک اوسط درجے کا عام اثناء عشری بارہ امامی شیعہ مومن مسلمان بھی اس غالی ٹولے یا کسی بھی ناصبی فرد کو دیکھتا تو اسے منبر پر بنوامیہ کے بندر ناچنے والی حدیث یاد آجاتی۔ ولایت فقیہ و شیعہ اسلامی مرجعیت کے پیروکار شیعہ اسلامی مدارس دینیہ کے جید علماء، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان نے بروقت عملی کردار ادا کرنا شروع کیا۔ بشارت عظمیٰ یا ولایت عظمیٰ کانفرنس کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا۔ حالانکہ یہ مہم غیر اعلانیہ طور پر پورے پاکستان میں طویل عرصے سے چل رہی تھی۔  لیکن سال 2017ء میں ملک گیر مہم چلی۔  سال 2018ء میں بھی یہ مہم چلی۔ جید شیعہ اسلامی قائدین و علمائے دین نے متفقہ طور پر اعلامیہ جاری کیا کہ بارہ امامی شیعہ اثناء عشری مومنین کا نصیریوں اور غالیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

لیکن غالیوں اور ناصبیوں کے مشترکہ آقاؤں نے پرانے اور ماہر غالیوں اور نصیریوں کے ہوتے ہوئے نئے نئے غالی و نصیری میدان میں اتارے۔ غلام جعفر جتوئی کو مشہور کیا گیا اور آخرکار آصف علوی سب سے بڑے شعلہ بیان تکے باز کی سرپرستی کی جانے لگی۔ شیعہ اسلامی قائدین اور عام شیعہ مسلمان خاموش نہیں بیٹھے تھے۔ خدا کی قسم جھوٹا ہے وہ شخص جو شیعہ اسلامی قائدین اور علمائے دین پر اس ضمن میں تقیہ کا یا خاموشی کا الزام لگاتا ہے۔ درحقیقت ایسا جھوٹا شخص خود بھی انہی غالیوں، نصیریوں اور ناصبیوں کے مشترکہ آقاؤں ہی کا مقلد ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ عام شیعہ مسلمانوں نے بہت پہلے سے منبروں پر ایسے افراد کو آنے سے روکا ہوا تھا اور یہ آج کی بات نہیں بلکہ جنرل ضیاء کے دور میں، 1990ء کے عشرے سے آج تک ہر دور میں ایسا ہوتا رہا۔ لیکن غالیوں اور نصیریوں کو جب بھی روکا گیا تو ریاستی اداروں کے حکام یا ان حکام کے اتحادی طاقتور سیاسی چہروں نے آکر غالیوں اور نصیریوں کو تحفظ فراہم کیا۔ غلام جعفر جتوئی کو جب مجلس پڑھنے سے روکنے کے لیے کراچی کے ایک علاقے میں عام شیعہ مومنین جمع ہوئے تو پولیس اور رینجرز نے غالی کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے بعد جتوئی نے ایک وڈیو بیان میں معذرت اور اپنے غلط عقائد سے توبہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن ہوتا یہی ہے کہ بعد ازاں ایسے افراد اپنے اصلی آقاؤں کا حکم مانتے ہیں اور توبہ توڑ دیتے ہیں۔

اسی طرح آصف غلوی کو مجلس پڑھنے سے روکنے کے لیے عام شیعہ مسلمان جمع ہوئے، حتیٰ کہ مسجد و امام بارگاہ کے ٹرسٹ کے افراد نے اجازت نہیں دی تو رینجرز اور پولیس کی سرپرستی میں آصف غلوی کو لایا گیا۔ صوبہ پنجاب میں یہ بیماری سب سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔ صوبہ سندھ میں ایک پولیس افسر ڈی ایس پی جانی شاہ اس نصیری و غالی ٹولے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ اور دیگر سارے غالیوں اور نصیریوں نے ولایت فقیہ اور شیعہ اسلامی مرجعیت کو گالیاں دیں اور عوام کو گمراہ کیا۔ دوسری طرف ان کے نصیری و غالی نظریات پر مبنی وڈیو کلپس اشرف جلالی رضا خانی یا طارق مسعود دیوبندی جیسے مولویوں نے دکھا کر اس کھیل میں اپنا کردار ادا کیا اور اشرف جلالی اور نصیری غالیوں میں ایک بات مشترک تھی کہ دونوں ہی ولایت فقیہ، شیعہ اسلامی مرجعیت اور ایران کے خلاف ماحول سازی کر رہے تھے۔ لاہور میں ایک ابوذر بخاری صاحب بھی پیش پیش تھے اور بعد ازاں انہوں نے اپنے ایک چچازاد ہی کو پھڑکا دیا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ پاکستان رینجرز اور پولیس اس معاملے میں کھلے طور پر غالیوں اور نصیریوں کا تحفظ کرتے نظر آئے، یعنی پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبشلمنٹ کی جانب سے انکی کھلی سرپرستی سب پر آشکارا تھی۔

آصف علوی کی اسلام آباد والی مجلس سے پہلے ہی صوبہ خیبر پختونخوا پولیس کی اسپیشل برانچ کی رپورٹ آچکی تھی کہ کالعدم تکفیری دہشت گرد انجمن سپاہ صحابہ و لشکر جھنگوی کی جانب سے شیعہ نسل کشی کا منصوبہ تیار کیا جاچکا تھا۔ یہ طے شدہ منصوبہ تھا۔ پاکستان کے بزرگ ترین شیعہ اسلامی عالم دین علامہ شیخ محسن علی نجفی صاحب نے اسلام آباد میں علماء و ذاکرین کانفرنس میں یہ انکشاف کر دیا تھا کہ آصف علوی پر شیعہ اسلامی قائدین و علمائے دین نے خود پابندی لگوائی تھی۔ اس لیے انہوں نے بجا طور پر حکومت سے کہہ دیا کہ یہ سب کچھ حکومت نے خود کروایا ہے۔ ہوا یوں کہ آصف علوی نے امامیہ اسپیکرز کے نام سے ایک تنظیم بنائی اور گلفام ہاشمی کے ساتھ اسلام آباد میں وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں ایک فوجی افسر اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری شریک تھے۔ یقیناً اسی دن آصف غلوی سے پابندی ہٹا لی گئی۔ لاکھوں کا خرچہ کرکے لاہور سے بندے بلاکر اس کی واہ واہ کروائی گئی۔ آصف علوی کا ایک وڈیو کلپ وائرل کرکے پورے پاکستان میں شیعہ مسلمانوں کے خلاف ایک ماحول بنا دیا گیا۔ آصف غلوی کو باعزت اور محفوظ لندن روانگی کی سہولت فراہم کی گئی۔ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب سے ملاقات میں ذاکرین کے ایک گروپ نے ایک مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے یک ضابطہ اخلاق کا اعلان کیا ہے۔

یوم عاشورا کا مرکزی جلوس کراچی میں رواں دواں تھا۔ پولیس اور رینجرز نے لاکھوں عزاداروں کی تعداد کو 6 ہزار بیان کرکے کس ذہنیت کا مظاہرہ کیا، یہ بھی توجہ طلب ہے۔ جلوس کی تصاویر پاکستان رینجرز نے فراہم کیں جو کہ ڈان انگریزی اخبار کی ویب سائٹ پر موجود تھیں۔ حسینی عزاداروں نے زیارت عاشورا پڑھی، جو ہر سال پڑھی جاتی ہے۔ لیکن کیا یہ محض اتفاق ہے کہ اسے لائیو ٹی وی پر اس طرح پہلی مرتبہ نشر کروایا گیا اور نشر بھی وہ جملے جس میں یزید کے باپ دادا پر اللہ کی لعنت ہو۔ حالانکہ زیارت عاشورا کے پہلے جملے یہ ہیں السلام علیک یا ابا عبداللہ، السلام علیک یا بن رسول اللہ، السلام علیک یا بن امیر المومنین، السلام علیک یا بن فاطمہ سیدۃ النساء العالمین، السلام علیک یا ثار اللہ و ابن ثارہ، السلام علیک و علی الارواح التی حلت بفنائک، علیکم منی جمعیاً سلام اللہ ابداً ما بقیت و بقی اللیل و النھار۔  یعنی امام حسین ؑ عالی مقام پر درود و سلام۔ زیارت عاشورا میں عربی متن کا اردو ترجمہ پڑھ لیں کہ اس میں کیا لکھا ہے۔ زیارت عاشورا میں لکھا ہے کہ پس خدا کی لعنت ہو اس قوم پر جس نے اے اہل بیت ؑ آپ پر ظلم و ستم کی بنیاد رکھی۔ کراچی میں محمد تقی جعفر نے زیارت عاشورا میں کیا پڑھا، ایک عام آدمی پہلے اسے مکمل پڑھ لے تو فتنہ گر مولویوں پر لعنت کرے گا۔

کیونکہ زیارت عاشورا میں ہے کہ روز قیامت تک میری صلح ہے اس سے، جس نے آپ ؑسے صلح کی اور میری جنگ ہے اس سے، جس نے آپ ؑ سے جنگ کی اور خدا لعنت کرے آل زیاد پر، آل مروان پر اور اللہ لعنت کرے بنی امیہ پر، ابن مرجانہ پر، عمر بن سعد پر اور شمر پر۔  یوم عاشورا کو زیارت عاشورا میں یہ کہا گیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ یا اللہ مجھے امام حسین ؑ کے واسطے سے دنیا و آخرت میں اپنے پاس آبرومند قرار دے۔  زیارت عاشورا میں محمد تقی جعفر سمیت دیگر نے یہ پڑھا کہ اے ابا عبداللہ حسین آپ کی دوستی اور محبت کے ذریعے میں تقرب چاہتا ہوں اللہ کا، اللہ کے رسول ﷺکا، امیرالمومنین ؑ کا، بی بی فاطمہ ؑ اور امام حسن ؑ کا او آپ کے قاتلوں سے بے زاری کے ذریعے آپکا تقرب چاہتا ہوں۔ زیارت عاشورا میں یزید کے باپ دادا پر لعنت کی جاتی ہے۔ زیارت عاشورا کا آخری پیراگراف یوں شروع ہوتا ہے۔۔اللھم لک الحمد حمد الشاکرین۔  یعنی اے اللہ تیری حمد ہے، ایسی حمد جو شکرگذار کرتے ہیں۔ یا اللہ مجھے حسین ؑ کی شفاعت قیامت میں وارد ہونے والے دن عطا فرما اور مجھے اپنے نزدیک حسین (ع) اور اصحاب حسین (ع) کے ساتھ سچائی سے ثابت قدم رکھ جنہوں نے حسین ؑ کے سامنے راہ خدا میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔

خدا بھلا کرے اہل سنت کے ان علمائے کرام کا کہ جو بنو امیہ یعنی یزید کے باپ دادا سے متعلق تاریخی حقائق جانتے ہیں، انہوں نے یزید بن معاویہ بن ابوسفیان یعنی تینوں سے متعلق حقائق بیان کر دیئے۔ اللہ بھلا کرے خواجہ معین الدین چشتی درگاہ اجمیر شریف کے سجادہ نشین سید سرور چشتی صاحب کا کہ انہوں نے 12 ستمبر 2020ء کو صوفیاء و اہل سنت و اہل طریقت کا عقیدہ بیان کرکے یزید کے باپ معاویہ اور دادا ابوسفیان کی حقیقت بیان کر دی۔ سرور چشتی صاحب کی خدمت میں مودبانہ عرض کہ حضور شیعہ مسلمان غالیوں اور نصیریوں سے بے زار اور لاتعلقی کرتے ہیں۔ آصف غلوی جیسوں کو ریاستی سرپرستی میں بٹھا کر تماشا کروایا جاتا ہے۔ آپ نے ناصبیوں اور نجدیوں اور ان کے مہروں کو خوب پہچانا، شکریہ۔ اصل کھیل یہی تھا کہ کالعدم تکفیری ناصبی دہشت گرد ٹولے نے یوم عاشورا کراچی کی زیارت عاشورا ہی کو اصل ہدف بنایا اور یزید کے باپ دادا کو بچانے کے لیے عظمت صحابہ کا نام استعمال کرنا شروع کر دیا۔ میری ہنسی اس لیے رکنے کا نام نہیں لے رہی کہ اسرائیل، امریکا، سعودی عرب، امارات و بحرین اور ریاستی اداروں میں وہ اعلیٰ افسران جن کا بابائے قوم حق نواز جھنگوی ہے، ان سب نے خوب نوٹنکی کی۔ ولایت فقیہ، ایران، شیعہ اسلامی مرجعیت کے خلاف خوب سازشیں کیں، خوب جھوٹ بولے اور گالیاں دلوائیں  اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا مہرہ آصف غلوی لندن فرار ہوا۔ یعنی شیعہ سچ کہتے تھے کہ نصیری اور غالی لندن کی ایم آئی سکس کے ایجنٹ ہیں۔ یہ ثابت ہوگیا۔ بزرگ سنی علمائے کرام اور اہل طریقت نے جلالی کی مذمت و مخالفت کرکے نجدی ناصبیت کو ناکام کر دیا۔ الحمدللہ رب العالمین۔ لعنت اللہ علی الکاذبین و الظالمین۔
خبر کا کوڈ : 888748
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Zeeshan
Pakistan
Excellent
It should must have arrived earlier.
"Any way, "Dair aayad Durust aayad"
Stay blessed, ameen
ہماری پیشکش