1
Monday 3 May 2021 00:10

لیک دستاویزات، بی بی سی اور رائٹرز برائے فروخت ہیں

لیک دستاویزات، بی بی سی اور رائٹرز برائے فروخت ہیں
تحریر: لیاقت تمنائی

بی بی سی اور رائٹرز جیسے دیوہیکل اطلاعاتی ادارے برطانوی وزارت خارجہ کے خفیہ ہتھیار ہیں۔ جو بھاری معاوضوں کے عوض جعلی خبروں اور تجزیوں کا جال بچھاتے ہیں۔ حال ہی میں ایک انکشاف ہوا، جو معمول سے ہٹ کر تھا۔ اگر یہ انکشاف پاکستان یا ایران کے بارے میں ہوتا تو کیا ہوتا۔؟ لیکن اس سے پہلے ایک سوال ہے کہ بی بی سی اور رائٹر جیسے دیوہیکل اطلاعاتی اداروں کے بڑے بڑے انکشافات اور رپورٹوں کے پیچھے کیا راز چھپا ہے؟ عام طور پر تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ ان اداروں کا نیٹ ورک بہت وسیع اور منظم ہے، پرکشش مراعات اور تنخواہوں پر بڑے بڑے صحافیوں کو ہائر کیا جاتا ہے، اس لیے ان اداروں کی رپورٹیں بھی منفرد ہوتی ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بی بی سی برطانوی حکومت کے زیر انتظام چلنے والا سرکاری ادارہ ہے، جس طرح وائس آف امریکہ یا پاکستان کی اے پی پی۔ ساٹھ، ستر اور اسی کی دہائیوں میں دنیا کے دیگر ممالک خصوصاً پاکستان میں بی بی سی کی خبروں پر اندھا اعتماد کیا جاتا تھا۔ اسی اعتماد کا فائدہ ملکہ برطانیہ کی ریاست اور ان کے خفیہ ادارے اٹھاتے ہیں۔

حال ہی میں نامعلوم ہیکر گروپ نے کچھ ایسی دستاویز شائع کر دیں اور ان دستاویزات کا مطالعہ کرنے کے بعد پتہ چلے گا کہ ڈوریاں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں اور انکشافات ایسے ہی نہیں ہوتے۔۔!! نامعلوم ہیکروں کی جانب سے آن لائن پوسٹ کی جانے والی دستاویز میں یہ انکشاف ہوا کہ برطانوی وزارت خارجہ اور دولت مشترکہ کے دفتر نے بی بی سی اور رائٹر کو بھاری معاوضے کے عوض خرید لیا تھا اور ایک ایسا معاہدہ کیا گیا کہ جس کے تحت دونوں اداروں نے روس اور اس کے پڑوسی ممالک کیخلاف جعلی خبروں کا ایک ایسا جال بچھانا تھا کہ دنیا میں ان ممالک کا چہرہ مسخ ہوسکے۔ ساتھ ہی دولت مشترکہ کے اس پروگرام کے تحت برطانوی وزارت خارجہ نے این جی اوز کے ایک منظم نیٹ ورک کے قیام کیلئے لاکھوں پاﺅنڈز کا ٹینڈر جاری کیا، جس کا مقصد روس اور ہمسایہ ممالک کے اثر و رسوخ کو کم کرنا تھا۔

بولی حاصل کرنے والی کمپنیوں میں ایک زنک نیٹ ورک (Zinc Network) بھی تھی ، جس میں بیلنگ کیٹ (Bellingcat) اور انسٹیوٹ فار سٹیٹ کرافٹ (Institute for Statecraft) نامی ذیلی تنظیمیں شامل تھیں۔ لیک دستاویزات کے مطابق 2018ء میں اس پروگرام کے تحت ایک ایسے بیانئے کو فروغ دیا گیا جسے امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے شام میں بمباری کیلئے جواز کے طور پر استعمال کیا۔ لیک دستاویزات یہ بھی بتاتی ہیں کہ بی بی سی میڈیا ایکشن اور رائٹرز تھامسن فاﺅنڈیشن، جو ان دونوں اداروں کے غیر منفعت بخش ادارے کہلواتے ہیں، کو بھی برطانوی وزارت خارجہ اور دولت مشترکہ کے دفتر نے معاہدوں سے نوازا۔ میڈیا کے ان اداروں نے ملکہ کی حکومت کو پیشکش کی تھی کہ ان کے رپورٹرز پوری دنیا میں سینکڑوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے ہیں اور وہ پروپیگنڈے کو بڑی اچھی طرح پھیلا سکتے ہیں۔

ہاں جی۔۔ خاص طور پر تین ممالک روس، چین اور ایران ہمیشہ سے بی بی سی اور رائٹرز کے نشانے پر رہے ہیں اور یہ تین ممالک ان کے پسندیدہ ترین موضوعات ہیں۔ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں امریکہ اور برطانیہ کی دکانیں بند ہوگئیں۔ آٹھ سالہ مسلط جنگ کے بعد بھی کچھ ہاتھ نہ آیا تو پابندیوں کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع کر دیا، اب تو مغربی حلقے خود اعتراف کر رہے ہیں کہ پابندیوں نے ایران کو کمزور کرنے کے بجائے مضبوط اور مکمل خود انحصاری کی جانب گامزن کر دیا ہے۔ نوے کی دہائی کے بعد چین نے خاموش پالیسی کے تحت پوری دنیا کی معیشت کو اپنے شکنجے میں لے لیا، معیشت اور ٹیکنالوجی میں چین نے مغربی اقتصادی سلطنت کو لرزہ براندام کر دیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ایران کی طرح چین پر مکمل پابندی عائد نہیں کی جا سکتی، کیونکہ یہ خود مغربی ملٹی نیشنل کمپنیوں کیلئے نقصان دہ ہے، پابندیاں عائد نہ کرے تو چین کا اکنامک ایمپائر کھڑا ہونے میں بالکل بھی دیر نہیں ہے۔

پیوٹن کے روس نے سقوط سویت یونین کا زخم کافی حد تک ٹھیک کر دیا ہے، پیوٹن کی پالیسی اور ازحد کوشش ہی یہی ہے کہ وہ روس کو دوبارہ سے سویت یونین بنا دے۔ جب ان ممالک کے معاشی اور سیاسی و سفارتی میدان میں مقابلے کا امکان ختم ہو رہا ہے تو اس صورتحال میں بی بی سی اور رائٹرز جیسے ادارے برطانوی وزارت خارجہ اور خفیہ اداروں کے اہم ترین ہتھیار کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ جو ریپوٹیشن انہوں نے پچاس سے نوے کی دہائی تک بنائی تھی، اسی کو استعمال کرتے ہوئے ٹرائیکا (چین، روس، ایران) کیخلاف موثر پروپیگنڈا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیک دستاویز میں این جی اوز کے نیٹ ورک کا بھی ذکر ہے، این جی اوز کے بارے میں اب تو بہت سارے حقائق منظر عام پر آچکے ہیں۔ انکشافات کی مکمل سٹوری کیلئے درج ذیل لنک پر کلک کیجیئے اور خود سے اندازہ لگایئے کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔؟
https://www.presstv.com/Detail/2021/03/10/646978/Hypocritical-FCO-sought-to-spread-anti-Russian-propaganda
https://news.cgtn.com/news/2021-02-25/Reuters-BBC-participated-in-UK-FCO-s-project-to-weaken-Russia-report-Ya0X5PBHTq/index.html
خبر کا کوڈ : 930381
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش