2
Friday 11 Jun 2021 12:13

ہم انسان کب بنیں گے

ہم انسان کب بنیں گے
تحریر: مہر عدنان حیدر

قرآن مجید کے مطابق لفظ انسان کا آغاز اذ قال سے ہوا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی یہ جھگڑا بھی سامنے آیا ہوا ہے کہ کیا آپ اس کو زمین پر اپنا نائب مقرر کر رہے ہیں، جو وہاں جا کر قتل اور فساد برپا کرے گا۔ اس فتنے کو یہ فرما کر ختم کر دیا گیا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے، مگر یہ بات آج بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ انسان جب جب انسانیت سے گرتا آیا ہے، یہ خطاب بھی اس کے سر رہا ہے کہ ظالم ہے۔ خیر آج میرا موضوع حضرت انسان ہے۔ جی ہاں وہی انسان جو زندہ ہے، دیکھتا ہے بولتا ہے اور یہی نہیں سوچتا بھی ہے۔ مگر رکیے۔۔۔۔۔
 ابھی ہم نے آگے جانا ہے اور انسان کی اصل تعریف جاننے کی کوشش کرنی ہے، کیونکہ ہمارے معاشرے میں بہت سے لوگوں کو آدمی کہا جاتا ہے، انسان نہیں۔ اب غالب کے شعر کو ہی لے لیجئے:
کہ آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

 جی ہاں یہ بات حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں جہاں آپ کو شیعہ، سنی، وہابی دیوبندی، ہندو، کافر، انگریز وغیرہ ملتے ہیں، وہاں انسانوں کا ملنا مشکل ہے۔ اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ بھی تو انسان ہیں۔۔ جی ہاں آپ درست سوچ رہے ہوں گے، مگر نہ جانے کیوں کر لگتا ہے کہ جن کو آپ انسان سمجھ رہے ہیں، وہ تو خود کو  شیعہ، سنی، ہندو، کافر کہلوانا پسند کرتے ہیں، بنسبت انسان کے۔ یہی آج کے معاشرے کا نام نہاد انسان ہے، جو اپنے مسلک مذہب والوں کو ہی فقط انسان سمجھتا ہے اور انہی سے محبت کرتے ہے، بنسبت انسانوں کے۔ یہ بات تو حقیقت ہے، جہاں ہم اور بہت سے کاموں میں مصلحت سے کام لیتے ہیں، وہاں انسانوں کی قدر کرنے میں بھی تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں، کیونکہ ہم آج کے معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ ایک مسلک یا فرقے والا اپنے مسلک یا فرقے کے لوگوں سے ہی محبت کرتا ہے، جبکہ تقریباً تمام لوگوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب انسانوں سے محبت  اور پیار سے پیش آنے کا درس دیتے ہیں۔

 یہاں تمام سے مراد ہر مذہب ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہو، مگر انسان ہی ہے کہ وہ اپنے مسلک کو ہی بنیاد بنا کر دوسرے انسانوں سے نفرت کا درس دیتا ہے۔ آپ تعلیمات اسلام کے ساتھ رسول اسلام کے فرامین کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم سے حضرت ابراہیم تک اور حضرت ابراہیم سے حضرت آدم تک تمام نبی، رسول، صالحین، پاکیزہ اور برگزیدہ انسان وحشی اور اوباش لوگوں کو انسانیت کے طور طریقے سکھانے اور بتانے آئے تھے۔ یقیناً یہ وہ زمانہ تھا، جب انسان کوئی قابل ذکر اور فخر شے نہ تھا۔ جس کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے کہ انسان پر ایسا دور بھی گزرا ہے،
 مگر پھر انہیں صالحین پاکیزہ لوگوں کی محنتوں سے انسان احسن تقویم کا مالک بن گیا۔

ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آج کے دور میں انسان کی اصل تعریف یہ کی جائے گی کہ انسان وہ ہوگا، جو انسانوں کے بارے میں سوچتا ہوگا، کیونکہ جس کو انسانوں سے پیار نہ ہوگا، وہ یقیناً انسانوں میں شمار بھی نہ ہوگا۔ خیر اپنے مضمون کو لمبا کرنے کی بجائے اس نکتے پر ختم کرتے ہیں کہ خدا نے سب سے پہلے انسان بنایا تھا اور پھر انسان کو مسلمان بنایا تھا۔ اسی لیے انسان کو بھی چاہیئے کے پہلے انسان بنے اور پھر مسلمان بننے کی کوشش کرے۔
خبر کا کوڈ : 937514
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش